سیاسی وراثت کی سوجھ بوجھ ، ایک شخص ایک نظریہ ، پری یار کی اہمیت

0
1587
All kind of website designing

بی جے پی کی لیڈر ایچ راجہ کے ریمارکس کی عالمی سطح پر تادیب کی گئی ہے کہ کس طرح انہوں نے ای وی راما سوامی کے مجسمہ کی شبیہہ کے بارے میں اظہار کیا تھا۔ نہ صرف تاملناڈو بلکہ اس کے پرے بھی۔ اس عقلیت پسند معقول سماجی مصلح کو جو بت شکن تھا جس نے 45 برس قبل اپنے نظریات کی شروعات کی جو آج بھی بہت سے لوگوں کے پاس کیا عزیز تر نہیں ہے؟ 

ارون جناردھن (انڈین ایکسپریس 9؍مارچ 2018ء)، ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین ، ناندیڑ مہاراشٹر (9890245367)

ان لوگوں کے لیے جو ہندو کو ایک علامت کے طور پر تاملناڈو میں دیکھتے ہیں اور جو بظاہر بہت مذہبی نظر آتے ہیں یعنی وہ لوگ جو اپنے پیشانی پروبھوتی اور کُمکُم لگاتے ہیں دیوتاؤں کے پاس اور مندر کو جاتے ہیں جو وہاں کی ہر گلی میں نظر آتے ہیں جہاں سرکاری عہدیدار دیوؤں کے بیٹھے ہوئے سجے سجائے دیوتاؤں کو اپنے نذرانے چڑھاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اقلیتی فرقہ کے لوگ بھی اس معاملے میں منتشر ہیں کہ کس طرح مختلف مذہبی رسومات میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک بت شکن معقول سماجی مصلح جو 45 سال پہلے اس کا انتقال ہوا آج بھی اس ریاست کے لوگوں میں اتنا مقبول کیوں ہے۔
ای وی راما سوامی پری یاران کی پیدائش 1879ء میں ہوئی جنہیں اس لیے یاد رکھا جاتا ہے جنہوں نے عزت نفس کی تحریک چلاکر اپنی شناخت بحیثیت تاملین کے بنائی۔ اس نے ٹاملین کے لیے ہوم لینڈ کا تصور تاملناڈو میں دیا اور ایک سیاسی جماعت دروڑا کازگم کی تشکیل کی۔ 
پری یار نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اپنے پیدائشی شہر ایروڈ میں بحیثیت کانگریسی ورکر

ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین

کے کیا۔ وہ گاندھی سے اس مسئلہ پر لڑ پڑے کہ برہمنوں کے لیے علیحدہ سے کھانے کا اور غیر برہمن لڑکوں کو گرو کل میں علیحدہ کھانے کا انتظام کیوں کیا جاتا ہے جبکہ اس گروکل کا نظم و انتظام کانگریس کے زیر اہتمام تھا۔ جبکہ اس کے مالک نیشنل لیڈر وی وی ایر تھے اور جو ترونیلویلی کے قریب رہتے تھے۔ وہاں کے بچوں کے سرپرستوں کی درخواست کی بناء پر انہوں نے علیحدہ برہمنوں کے کھانے کے انتظام پر اختلاف و احتجاج کیا۔ جبکہ گاندھی جی نے ایک مصلح کے انداز میں تجویز پیش کی کہ یہ ایک دوسرے سے الگ کھانا کوئی گناہ نہیں ہے۔ لیکن اُسے ایک دوسرے کے ساتھ عزت و تمیز کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ وہ اپنے مقصد میں کانگریس کو سمجھانے میں ناکام ہوئے ہیں تب انہوں نے کانگریس پارٹی سے 1925ء میں استعفیٰ دے دیا۔ اور اپنے آپ کو جسٹس پارٹی سے منسلک کردیا، جو عزت نفس کی تحریک چلاتی تھی اور یہ تحریک سماجی زندگی میں برہمنوں کے خلاف تھی۔ خصوصی طور پر دفتر شاہی کے خلاف تھی۔ ایک دہے قبل سے جسٹس پارٹی غیر برہمن کے ریزرویشن کے لیے کوشاں تھی کہ کس طرح وہ دفتر شاہی میں ان کا کوٹہ مقرر کیا جائے۔ لیکن جب وہ اقتدار میں آئی انہوں نے اس خصوص میں احکامات جاری کئے۔ اس طرح پری یار کی شہرت تامل سے باہر پھیلنا شروع ہوئی۔ جب وائیکوم ستیہ گرہ 1924ء میں ہوئی تھی اس وقت ہی نچلی ذات والے لوگوں کی طرف سے اس مطالبہ کا آغاز ہوچکا تھا ، عام راستوں کو جو مشہور وائیکوم مندر کے سامنے تھے اسے سب کو استعمال کی اجازت دینی چاہئے۔ پری یار اپنی بیوی کے ساتھ اس ایجی ٹیشن میں شامل ہوئے۔ انہیں اس خصوص میں دو مرتبہ گرفتار بھی کیا گیا۔ جس کی وجہہ سے بعد ازاں انہیں وائکون واریئر ( ہیرو آف وائیکون) کہا جاتا تھا۔ 
1920 اور 1930ء کے درمیان میں پری یار نے سیاسی و سماجی دونوں سطح پر اصلاحات کی اور کانگریس کی روایتی پالیسی کے خلاف کام کیا۔ اور تامل علاقہ میں نیشنل موومنٹ میں حصہ لیا۔ انہوں نے ٹامل تشخص کو برقراررکھنے کے لیے ایک گمبھیر نظریاتی نظام کو قائم کیا جو چھوت چھات اور ذات پات کے نظام سے پرے تھا اور اس طرح وہ ہندوستانی تشخص جو کانگریس اپنے آپ کو اس معاملے میں ہیرو سمجھتی تھی اس کے خلاف بھی کام کیا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ ہمارا تامل تشخص بہت اہم ہے جسے آریہ کے برہمن ختم کرنا چاہتے تھے۔ جو سنسکرت پڑھتے تھے اور شمالی ہندوستان سے یہاں آئے تھے۔ 1930ء میں جب کانگریس کی وزارت میں ہندی کو لادنے کی کوشش کی اس وقت یہ متوازی طور پر آریائی طریقہ کے خلاف کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ ان کی زبان و تہذیب پر حملہ ہے۔ ہندی کی وجہہ سے تامل کا تشخص اور ا ن کی عزت نفس دھوکہ میں آگئی ہے۔ انہی کے زیر نگرانی ڈراوین تحریک ذات پات کے خلاف ایک مہم بن گئی اور اس طرح وہ ٹامل تشخص کی علامت بن گئی۔ 
1940ء میں دراوڈ کزلوم کا انہوں نے آغاز کیا جو بعد ازاں ایک آزاد دراوڈ ناڈو جس میں ٹامل ، ملیالم، تیلگو، کنڑا بولنے والے لوگوں کی شمولیت تھی۔ دراوڑیوں کی زبان کی خاندانی بنیاد دراوڑیوں کے قومی تشخص کی بنیاد پر ہے۔ان خیالات کی گونج ہمیں سیاسی تشخص کے اور وہاں کے ٹامل زبان والوں کی تہذیب میں ملتی ہے ، جو مدارس پریسیڈنسی کے اطراف و اکناف میں رہتے ہیں اور وہی گونج آج بھی ٹاملناڈو میں جاری و ساری ہے۔ پری یار کا انتقال 94 برس کی عمر میں 1973ء میں ہوا۔
ان کا کام اور وراثت
ایک عام تامل شہری کے لیے پری یار آج بھی نظریہ حیات ہے۔ وہ سیاسی سطح پر سماجی انصاف، مساوات اور عزت نفس اور اپنی زبانی عظمت کے لیے آج معیار مانے جاتے ہیں۔ ایک سماجی مصلح کی حیثیت سے انہوں نے سماجی، تہذیبی اور جنسی مساوات، اصلاحات کے بارے میں ایجنڈہ پیش کرتے ہوئے متعدد سوالات کو حل کرتے ہوئے اپنا اعتماد قائم کیا۔ جنس اوران روایات کاتحفظ کیا۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اپنی پسند میں اور زندگی میں معقول پسند ہوں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ عورت کو آزادانہ طور پر خودمختار ہونا چاہئے نہ کہ وہ صرف بچے پیدا کرنے والی مشین ہے۔ ان کا یہ اصرار تھا کہ عورتوں کو مساوی حصہ ملنا چاہئے، خواہ جائیداد میں ہو یا ملازمتوں میں ہو۔ عزت نفس کی تحریک کے تحت انہوں نے بغیر کسی رسومات کی شادیوں کا رواج ڈالا اور اس طرح جائیداد میں اور شادی و طلاق کے معاملوں میں بھی انہوں نے اصلاحات کی۔ انہوں نے عوام سے اس بات کی بھی اپیل کی کہ وہ اپنی ذات، پات، نام کا معاملات میں اظہار نہ کریں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر کھانا کھانے، غذا کو اجتماعی طورپر پکانے، جن میں دلت بھی شامل ہوں اور جن کے ذریعے سے پبلک کانفرنس کا انہوں نے 1930ء میں آغاز کیا۔ 
ان برسوں میں پری یار نے اپنے سیاسی رحجانات کا پھیلاؤ کیا اورمذہب میں ہونے والی ذات پات کی غلطیوں کو دور کیا اور اس طرح انہیں تھنتھائی پری یار یعنی موجودہ دور کے ٹاملناڈو کے باپ کی حیثیت سے انہیں یاد کیا جاتا ہے۔
سی این انا دُرّائے جو پری یار کے سب سے محبوب شاگرد تھے انہوں نے ان سے علیحدگی اختیار کی اور اس طرح ڈی کے کی تقسیم ہوکر ڈی ایم کے کا آغاز 1949ء میں ہوا۔ اس طرح انّا دُرّائے کو انتخابی سیاست میں ایک حیثیت حاصل ہوئی اور انہیں ٹامل علیحدگی کے ہیرو کی طور پر قبول کیا گیا۔ جبکہ لوگ سمجھتے تھے کہ علیحدہ ٹامل کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے سنیما میڈیا کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ اس طرح دراوڈین موومنٹ تحریک خود پری یار کی وارث رہی۔ 1967ء میں ڈی ایم کے ٹاملناڈو انتخابات میں کامیاب ہوتے ہوئے اقتدار سنبھالا۔ اس طرح ٹاملناڈو میں ان پارٹیوں کی حکومت ابتداء سے ہی رہی ہے جو دراویڈین تحریک کے ساتھ ان خیالات کی پابجائی کرتے رہے ہیں۔ ڈی ایم کے کی جماعت نے پری یار کے نظریات کو اعتدال پر لانے کی کوشش کی لیکن دونوں ڈی کے،اے آئی ڈی ایم کے فخریہ طور پر اپنے آپ کو کہتے ہیں کہ وہ پری یار کی سماجی و سیاسی ویژن کے نمائندے ہیں۔
اگر پری یار خود ایک بت شکن تھا انادُرّائے ایک معتدل مصلح تھا۔ پری یار کے مجسمہ کے ستون پر اس طرح کی عبارت لکھی ہے۔ ’’ خدا نہیں ہے اور کوئی خدا ہرگز نہیں ہے۔جس نے خدا کی تشکیل کی ہے وہ بے وقو ف ہے اور جو خدا کے بارے میں تشکیل کرتا ہے وہ بدمعاش ہے اور جو اس کی عبادت کرتا ہے وہ جاہل ہے۔ اس کے ماننے والے اب ایک معتدل انتہا پسند ہے۔‘‘ آر کنّان انا کی دوسری شکل ہے۔ اس طرح سی این انا دُرائے کی زندگی اور وقت گزرا۔ جس میں وہ یہاں اپنے ناستک ہونے کا اعلان کرتے رہے۔ اور اس طرح انہوں نے گنیش کے مجسمہ کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ بعد ازاں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ میں نے نہ گنیش کی مورتی کو توڑا اور نہ ہی عبادت کے لیے کوئی ناریل پھوڑا۔‘‘
ایمرجنسی کے دوران پری یار کے مجسمہ پر پائی جانے والی ا س عبارت کے خلاف مدراس ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن داخل ہوئی تھی جسے مدراس ہائیکورٹ نے خارج کردیا تھا۔ وہ اس بنیاد پر کہ پری یار کا جو ایقان تھا اس میں اس کا اظہار کیا اور ا س معاملے میں یہ کوئی غیر قانونی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے خیالات کولفظوں میں پیش کریں۔ اس طرح کا ایک مقدمہ ایک دوسرے معاملے میں 2012ء میں بھی ہوا۔ جس میں مدراس ہائیکورٹ کے جسٹس کے چندو نے کہا کہ پری یار کے مجسمہ کی تعمیر کسی اسکول کے احاطہ میں وہاں کے بچوں کو ناستک بنانے کے لیے کوئی وجہہ نہیں بن سکتی۔ کیونکہ سمجھ، بوجھ، فلاسفی اور شخصیت صرف ان کے اس معاملے میں مدد کرتی ہے کہ کس طریقے سے وہ تعلیمی، مزاج، انسانیت نوازی کے ساتھ ساتھ تجسس کا جذبہ اور اصلاحات جو دستور کے آرٹیکل 51(AH) میں ہیں اس کی مطابقت میں وہ مجسمہ کی تحریر ہے۔ 
پری یار کے مجسمہ پر حملے کے اثرات
عالمی سطح پر بی جے پی کے لیڈر ایچ راجہ کے سوشل میڈیا پر مذمت کی گئی ہے۔ اس طرح انہیں عہدے سے ہٹا بھی دیا گیا اور اس نے معافی بھی مانگی ہے۔ اس طرح بت شکن پری یار کے مجسمہ کی تاملناڈو میں آج بھی وہی اہمیت ہے۔ ڈی کے کا اس وقت ٹاملناڈو میں محدود اثر ہے۔ لیکن پری یار ڈی کے ہی نہیں بلکہ ٹاملناڈو کے باہر بھی اس کے اثرات ہیں۔ جب تک ذات پات کی تفریق جاری رہے گی اس وقت تک ریاست میں ہر پارٹی پری یار کی خدمات کے ذریعے اس کے نظریات سے سماجی و سیاسی انصاف کے لیے کوشش کرتی رہے گی۔
دیگر طریقے سے اگر دیکھا جائے تو راجہ لینن کے مجسمہ سے پری یار کے مجسمہ کا مقابلہ میں حق بجانب تھا۔ کیونکہ پری یار دراویڈین موومنٹ کے لیے اسی طرح ہیں جس طرح کمیونزم کے لیے لینن۔ لیکن راجہ کا پری یار کو نہ ماننا اور اس کے مجسمہ کو توڑنا اس کے خیالات کو توڑنا نہیں ہے۔ بی جے پی جو چاہ رہی ہے کہ جنوبی ہندوستان میں اس کا جو نظریہ ہے وہ ہندی و ہندوتوا کو ٹاملناڈو میں پیش کرسکے۔ لیکن راجہ کے ان تاثرات کی وجہہ سے وہ پریشانی میں آگئی ہے۔
پری یار کو او بی سی سیاسی سطح پر ایک بت شکن کی حیثیت سے مانا جاتا ہے اس لیے کوئی بھی کوشش اس کو توڑ پھوڑ نہیں کی جائے گی تو وہ او بی سی کے خلاف تاملناڈو ہی میں نہیں بلکہ اس کے باہر بھی محسوس کی جائے گی۔ 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here