بابری مسجد کےخلاف سازش۔۔۔۔۔۔!

0
2078
All kind of website designing

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
میم ضاد فضلی

گزشتہ 16اکتوبر 2019کو دی وائر سمیت سوشل میڈیا اور دیگر نیوز پورٹلس پر یہ خبر گردش میں تھی کہ رام جنم بھومی۔ بابری مسجد معاملے کی حتمی سماعت سے قبل ہی اس مقدمہ کے ایک مسلم فریق اتر پردیش سنی وقف بورڈ نے زمین

 پر اپنے دعویٰ سے دست بردار ہونے کے لیے صلح نامہ داخل کر دیا ہے ۔ خبروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعے میں فریق اتر پردیش کے سنی وقف بورڈ نے ثالثی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ بورڈ نے اس معاملے میں اپنی اپیل واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ گودی میڈیا سمیت قومی سطح کے تمام ہندی اور انگریزی اخبارات سنی وقف بورڈ کو ہی کلیدی فریق گردان رہے ہیں، جبکہ اس قضیہ کی تاریخ کے خون آلود اوراق کو پلٹا جائے تو نتیجہ اس کے بالکل بر عکس نظر آتا ہے۔
ذارا انیسویں صدی کے نصف آخر میں جائیے ! مسجد کے تحفظ اور یرقانی قوتوں کی کالی نظر سے اسے بچانے کیلئے برطانوی سامراج کے زیر انتظام فیض آباد عدالت میں اپنی فریاد لے کر سب سے پہلے مسجد کے مو¿ذن صاحب گئے تھے، جن کا اسم گرامی مولوی محمد اصغر تھا ، آپ نے1857میں بابری مسجد کی حفاظت کیلئے ضلع مجسٹریٹ فیض آباد کا دروازہ کھٹکھٹا یا تھا۔بعد ازاں شیعہ وقف بورڈ بھی ایک فریق کی حیثیت سے اس قضیہ میں ٹانگ اڑانے آیا تھا ،جس کے دعویٰ کو1946میں ہی فیض آباد کی ضلع عدالت نے مسترد کردیا تھا۔
اس کارروائی سے وابستہ ایک ذرائع نے بتایاکہ”صلح نامہ فائل کر دیا گیا ہے۔ مگرمیں فی الحال اس پر زیا دہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔“ ذرائع کے مطابق اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ نے یہ صلح نامہ ثالثی کمیٹی کے ممبر شری رام پنچو کے ذریعے داخل کیا ہے۔ جبکہ بورڈ کے وکیل اور آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی (اے آئی بی ایم اے سی )کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے اس بارے میں آئی خبروں پر کہاہےکہ ”اب تک عدالت کو ایسا کچھ نہیں سونپا گیا ہے۔“
مگر 1980سے اب تک اس قضیہ کی تاریخ نے ہندوستانی مسلمانوں کوجو زخم دیے ہیں اور اس سے بے گناہوں کے لہو ابھی تک رِس رہے ہیں۔اس سے یہ اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ موجو دہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر مسٹر ظفریاب جیلانی یا اس کی شریک دعویدار مسلم تنظیموں کی باتیں قابل اعتماد نہیں ہوسکتیں، اس لئے کہ ابتداءسے ہی یہ ادارے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے رہے ہیں اوران کے بیانات ظاہر میں کچھ تو باطن میں کچھ جیسے محاورے کا عملی نمونہ پیش کرتے رہے ہیں۔ جب بھی موقع ملا ان گروہوں نے سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا اور اپنا الو سیدھا کرکے خاموشی سے بیٹھ گئے۔چونکہ عدالتِ عظمیٰ کی ہدایت کے مطابق عدالتی معاملات کو عدالت سے باہر بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے،لہذا ان بیانات کی حیثیت اب دامِ فریب سے زیادہ کچھ بھی نہیں رہ گئی ہے۔ چناں چہ اب تک اس مقدمہ میں معتدل رپورٹنگ کرنے والے ادارے بی بی سی لندن کے نامہ نگار شکیل اختر اس ڈیل کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ :
” گزشتہ مہینے اچانک ثالثی کرنے والی کمیٹی نے دوبارہ ثالثی کی کوشش کے لیے سپریم کورٹ سے اجازت مانگی تھی،جبکہ انڈین میڈیا میں شائع ہونے والی چند خبروں کے مطابق اس تنازعے پر ثالثی کے ذریعے فریقوں میں مصالحت ہو گئی ہے۔ان خبروں کے مطابق مسلم فریق یعنی سنی وقف بورڈ بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کے دعوے سے دستبردار ہو گیا ہے۔ اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ سمجھوتے کا خاکہ ثالث کمیٹی نے سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ثالثی کی بات چیت اور اس سے متعلق تمام پہلوؤں کو رازداری کے ساتھ مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی ،اس لیے اس خبر کی کہیں سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔“
جب 16اکتوبر کو یہ خبر کے سامنے آئی تو بابری مسجد کو انصاف ملنے کی آس میں ضبط وتحمل سے کام لینے والے مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے لکھنؤ میں احتجاجی مظاہرہ کیا ،احتجاج کرتے ہوئے بابری مسجد کا سودا کرنے والے مسلمانوں کے ابن الوقت قائدوں کیخلاف نعرے بازی بھی کی گئی، مظاہرین اس ڈیل پر سخت برہمی اور غم و غصے کا اظہار کررہے تھے ۔ بتایا جاتاہے کہ اس مظاہرہ میں کئی مؤقر ملی تنظیموں کے رضا کار اور مسلم امہ کی بڑی تعداد شامل تھی، عین اسی وقت مولانا ارشد مدنی کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا کہ ان کی ” جمعیت اس مظاہرے میں شامل نہیں ہے اور اس کا بائیکاٹ کرتی ہے“۔ حالاں کہ ندوة العلماء میں اسی موضوع پر مسلم پرسنل لاءاور مقدمہ کے دیگر مسلم فریق کی مشترکہ میٹنگ میں مولانا ارشد مدنی کا بیان اردو میڈیا میں نمایاں تھا کہ ” اب اس مقدمہ میں جوبھی ہوگا وہ عدالت عظمیٰ کو ہی کرنا ہے، اب مصالحت یا مفاہمت کی کوئی بھی بات فریقین کے درمیان نہیں ہوگی“۔ جبکہ گزشتہ ایک ماہ سے مولانا ارشد مدنی آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے رابطے میں ہیں، دونوں حضرات کے درمیان خوب رازو نیاز کی باتیں چل رہی ہیں، ایسے میں جب مصالحت کیلئے سودا کرنے والوں کےخلاف کوئی مظاہرہ ہو اور مولانا ارشد مدنی کی جانب سے اس مظاہرہ یا احتجاج کو مسترد کردیا جائے تو اس سے بھولے بھالے عوام کے درمیان کیا پیغام جائے گا؟
اگرسچ مچ آپ یرقانی سازش کاروں کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر آپ کو ان مسلمانوں کے احتجاج کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے یا اس مظاہرے کی مذمت بھی نہیں کرنی چاہئے۔اس لئے کہ اردو میڈیا سے خریدے ہوئے صفحات پر اس قضیہ کے تعلق سے صرف مولانا ارشد مدنی کی خبریں یا ان کا بیان چھاپا جا تا ہے۔ڈاکٹر زین شمسی نے بجا لکھا ہے کہ اس وقت بابری مسجد مقدمہ کے تعلق سے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر انگریزی کے صفحات یہ پیغام دیتے ہیں کہ اس کیس کا اہم فریق سینٹرل وقف بورڈ ہے، جبکہ اردو اخبارات صرف مولانا ارشد مدنی گروپ کی خبروں اور بیانات کو پہلی خبر بناکر پیش کر تے ہیں ،جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ مقدمہ کے کلیدی فریق مولانا ارشد مدنی ہی ہیں۔حالا ں کہ اس مسئلہ کی حقیقی صورت حال با لکل مختلف ہے اور جو خبریں انگریزی وہندی اخبارات شائع کررہے ہیں وہی صد فیصد مبنی بر صداقت ہیں۔جبکہ ارشد مدنی صاحب اس مقدمہ میں کافی بعد میں شامل ہوئے ہیں۔اجمالاً یہ کہ مسلمانوں کی جانب سے سنی وقف بورڈ جبکہ ہندوو¿ں کی جانب سے ایودھیا کا نرموہی اکھاڑہ اور رام جنم بھومی نیاس اس مقدمے کے کلیدی فریق ہیں۔

بتایا جاتاہے کہ اس مظاہرہ میں کئی مؤ قر ملی تنظیموں کے رضا کار اور مسلم امہ کی بڑی تعداد شامل تھی، عین اسی وقت مولانا ارشد مدنی کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا کہ ان کی ” جمعیت اس مظاہرے میں شامل نہیں ہے اور اس کا بائیکاٹ کرتی ہے“۔ حالاں کہ ندوة العلماء میں اسی موضوع پر مسلم پرسنل لاءاور دمقدمہ کے دیگر مسلم فریق کی مشترکہ میٹنگ میں مولانا ارشد مدنی کا بیان اردو میڈیا میں نمایاں تھا کہ ” اب اس مقدمہ میں جوبھی ہوگا وہ عدالت عظمیٰ کو ہی کرنا ہے، اب مصالحت یا مفاہمت کی کوئی بات فریقین کے درمیان نہیں ہوگی“۔

ادھر ہندؤوں کی جانب سے بھی اس مقدمہ کے پیروی کاروں میں کم ازکم چھ فریق عدالت میں موجود ہیں، ان میں سے کچھ فریق کا استغاثہ بتاتا ہے کہ وہ رام جنم بھومی کو اپنی تحویل میں دیے جانے کا فیصلہ چاہتے ہیں ، جبکہ کچھ فریق بابری مسجد کے حق میں ہی فیصلہکی مانگ کررہے ہیں۔
یہ دونوں دعوے دار ہندو مہاسبھا کے الگ الگ حلقے کے ہیں اورسپریم کورٹ میں ان کے ذریعے دائر اسپیشل لیو پٹیشن اور اپیلوں کے نمبر بالترتیب:ایس ایل پی(سی)3600/2011 اور سی اے 2636/2011 ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف ایک ہندو دعوے دار راجیندر سنگھ نے مسلم دعوےداری کے خلاف اپیل کر رکھی ہے، جس کا نمبر ہے سی اے 4740/2011. جاننا چاہیے کہ تنازعہ میں راجیندر سنگھ کا نام اپنے ایودھیا کے سورگ دوار محلے کے باشندہ ولد گوپال سنگھ وشارد کی جگہ آیا ہے۔خیال رہے کہ گوپال سنگھ وشارد وہی شخص ہیں، جس نے متنازعہ ڈھانچے میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد ہندو مہاسبھا کی طرف سے ان کی زیارت اور عبادت کے حق کے لئے فیض آباد عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایاتھا۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں اور ان کی جگہ ان کے بیٹے راجیندر سنگھ نے لے رکھی ہے۔وراجمان بھگوان رام للا اور دیگر کی طرف سے دائر اپیل بھی انہی راجیندر سنگھ وغیرہ کے خلاف ہے۔ ہندو دعوے دار میں نرموہی اکھاڑا اوراکھل بھارتیہ شری رام جنم بھومی پنردھار سمیتی نے بھی راجیندر سنگھ اور دیگر کے خلاف ہی تال ٹھونک رکھی ہے۔ان کے آپسی سر پھٹول سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبھی دعویدار اپنے اپنے حق میں فیصلے چاہتے ہیں۔

 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here