مانینی چٹرجی
مانینی چٹرجی (56سال) دہلی میں انگریزی روزنامہ ’دی ٹییگراف‘ کی ایڈیٹر ہیں۔ ان کی مشہور کتاب “Do and Die” (کرو یا مرو) ہے۔ انعام یافتہ رائٹر اور صحافی ہیں۔ سنسکرت ایوارڈ یافتہ بھی ہیں۔ اکثر و بیشتر ان کا آرٹیکل ٹیلیگراف میں آتا ہے۔ 13 نومبر کو ایک مضمون ’’تاریخ کشمیر سے بہت کم ہندستانی واقف ہیں۔۔۔ خاص طور سے نظم و نسق کا معاملہ‘‘ دی ٹیلیگراف میں شائع ہوا ہے۔ افادۂ عام کی خاطر اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ (ع۔ع)
’’کشمیر کی موجودہ صورت حال پر سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم کے بیان پر وزیر اعظم نریندر مودی کا زہر انگیز تبصرہ ہماچل پردیش اور گجرات کے انتخابات کے پیش نظر ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔
2 اکتوبر 2017ء کو دانشوروں اور تاجروں کی ایک میٹنگ میں چدمبرم نے جو حقیقت میں کمیونسٹ نہیں ہیں اور پارٹی کی پابندی کی وجہ سے بہت آزاد بھی نہیں ہیں۔ کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے بہت ہی سلجھانے والی بات کہی۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ آرٹیکل 370 کے مطالبہ کے سلسلے میں کشمیریوں کے جذبات و احساسات کا احترام کرنا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کچھ زیادہ خود مختاری کے طالب ہیں۔ میں کشمیریوں سے کافی ملا جلا ہوں۔ ان سے بات چیت کی ہے۔ ان کے خیالات کو جاننے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس کے نتیجہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اکثر لوگ آزادی کے خواہاں ہیں لیکن سب آزادی کے طالب نہیں ہیں، لیکن وہاں کی غالب اکثریت خود مختاری کا مطالبہ کرتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کے مطالبہ اور جذبات کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور غور و فکر کرنا غلط نہ ہوگا کہ ان کو جموں و کشمیر کے کس حصہ میں خود مختاری (Autonomy) دی جاسکتی ہے۔
انھوں نے مزید کہاکہ ایسی خود مختاری یقیناًدستور ہند کے دائرہ میں رہ کر دی جاسکتی ہے اور ریاست جموں و کشمیر ہندستان کا اٹوٹ حصہ رہے گا جیسا کہ آرٹیکل 370 کے اندر درج ہے۔
پی چدمبرم کے اس بیان پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا رد عمل بہت تیکھا اور زہریلے انداز سے آیا ہے۔ مرکزی وزیروں پیوش گوئل اور اسمرتی ایرانی نے کہاکہ چدمبرم علاحدگی پسندوں کی وکالت کر رہے ہیں۔ حقیقت میں چدمبرم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔
ارون جیٹلی نے جو آر ایس ایس کے بہت قریب ہیں، آر ایس ایس کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی کشمیر کے معاملہ میں1947ء سے ایسی پالیسی ہے جس کی وجہ سے آج کشمیر کا مسئلہ الجھا ہوا ہے۔ انھوں نے مزید کہاکہ کانگریس ہی ایسی جماعت ہے جو علاحدگی پسندوں کی معاونت اور وکالت سے کام لیتی ہے۔
نریندر مودی نے جو آر ایس ایس آرکیسٹرا (نغمہ ساز) کے سب سے بڑے نغمہ نگار ہیں گرجتے برستے ہوئے کرناٹک کے ایک دورے کے دوران بغیر کسی کا نام لئے ہوئے کہاکہ ’’کل تک جو حکومت میں تھے آج وہ بالکل یوٹرن لے لئے ہیں اور بے شرمی کے ساتھ کشمیر کی خود مختاری کیلئے آواز بلند کر رہے ہیں‘‘۔
اپنی آواز کو اور پرکشش اور پرزور بنانے کیلئے وزیر اعظم نے کہاکہ ’’مائیں جو اپنے بیٹوں کو کھو رہی ہیں اور بہنیں جو اپنے بھائی سے محروم ہورہی ہیں ایسے جانثار کشمیر کی حفاظت میں شہید ہورہے ہیں وہ سوال کرتے ہیں مگر کانگریس نے کس بے حیائی سے علاحدگی پسندوں کا ساتھ دے رہی ہے اور ایسی زبان استعمال کر رہی ہے جو پاکستانی اپنے ملک میں استعمال کرتے ہیں‘‘۔
بھاجپا اور آر ایس ایس کے لوگوں نے کانگریس کے لیڈروں کو ملک کا غدار اور باغی کہنا شروع کر دیا تاکہ ہماچل پردیش اور گجرات میں ان کی جیت یقینی ہوجائے۔ 5نومبر کو نریندر مودی نے ہماچل پردیش میں عجیب و غریب بات کہی۔ انھوں نے کہاکہ نوٹ بندی نے دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اب وہ سنگباری سے کشمیر میں کام لے رہے ہیں۔ مزید کہاکہ ’’ہماچل پردیش کے بہادر جوان کشمیر کی حفاظت کر رہے ہیں اور دہشت گردوں کو سینہ تان کر بھگا رہے ہیں۔ کچھ بچے ہمارے جوانوں پر پتھر پھینک رہے ہیں۔ یہ ایک غیر مثالی کام ہے جو وزیر اعظم انجام دیتے ہیں۔ ریاست کے خلاف ریاست، مذہب کے خلاف مذہب کو لڑانا اور اکسانا۔
مگر نریندر مودی سے کوئی بات غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ وہ آر ایس ایس کے خاص پرچارکوں میں سے ہیں۔ اتر پردیش کے الیکشن میں انھوں نے قبرستان کے مقابلے میں شمشان کی بات کی تھی۔ اب بھی وہی ہندوتو ایجنڈا کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ اگر چہ کشمیر میں بی جے پی ۔ٹی ڈی پی کی حکومت ہے۔ ٹی ڈی پی کا موقف چدمبرم سے بھی سخت ہے۔ اس کے کردار پر بی جے پی اور آر ایس ایس کا منہ بند ہے۔ بھاجپا آرٹیکل 370 کے خلاف مہم چلانے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے۔
تعجب و حیرت کی بات ہے کہ ہندستان کے تعلیم یافتہ اور دانشوروں کا ایک حصہ بھاجپا کے ان خیالات کا ساتھ دیتا ہے۔ کانگریس نے فوراً پی چدمبرم کے بیان سے اپنے آپ کو الگ کرلیا۔ پارٹی کے ترجمان رندیپ سُرجیوالا نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہاکہ جموں و کشمیر اور لداخ ہندستان کا جزو لاینفک ہے اور بغیر کسی تحفظ کے ہمیشہ رہے گا۔ کسی فرد واحد کی رائے ضروری نہیں کہ انڈین نیشنل کانگریس کی رائے ہو۔ اس قسم کا خیال ایسے لوگ بھی پیش کرتے ہیں جو بھاجپا کے ہندو ایجنڈا کے خلاف ہیں یا بہت بڑے ناقد ہیں اس کے دو بڑے وجوہ ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ ایسا سوچنا اور سمجھنا وہ وطن پرستی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اسے تبت کے مقابلے میں بھی کچھ زیادہ ہی اہم سمجھتے ہیں اور ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کشمیر کی تاریخ یا معاملہ ہماری نصاب کی کتابوں میں لکھا نہیں جاتا اور نہ ہی مین اسٹریم میں اتفاق رائے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھاجپا کے خیال کے مطابق پاکستان ہی کشمیر میں خلفشار اور فساد کی اصل وجہ ہے اور جواہر لال نہرو خاص ویلن ہیں اور شیاما پرساد مکھرجی اس کے سب سے بڑے نجات دہندہ (Soviour) ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ تاریخ داں اور ماہرین اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت نے نہیں بلکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے تقسیم ہند کے موقع پر ہندستان میں شامل ہونے سے گریز کیا اور آزاد حکومت رکھنے کا فیصلہ کیا۔
جب 22/23 اکتوبر 1947ء کو پاکستان نے کشمیر پر دھاوا بول دیا تو مہاراجہ کشمیر نے ہندستان کی مدد کی اپیل کی اور سری نگر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ہندستان نے اس وعدہ پر مدد کی کہ کشمیر کو ہندستان میں شامل کرنا ہوگا، مگر شیخ عبداللہ اور ان کی جماعت ’نیشنل کانفرنس‘ نے نہ پاکستان کو پسند کیا اور نہ دو قومی نظریہ کو خاطر میں لایا۔ شیخ عبداللہ اس وقت کشمیر کے سب سے مقبول اور مشہور لیڈر تھے۔ شیخ عبداللہ سیکولر لیڈر تھے۔ دوگرا رول کے مطابق وہ نہ مسلم اکثریت کے لحاظ سے پاکستان میں جانا چاہتے تھے اور نہ ہندستان کا حصہ بننا چاہتے تھے جس کی وجہ سے ان کو کئی سال تک قید و بند کی مشقت جھیلنی پڑی۔ نہرو اور گاندھی کو اپنی سرحدوں میں اضافہ کی زیادہ چاہت اور خواہش نہیں تھی بلکہ سیکولرزم اور تکثیریت کی چاہت تھی اور پاکستان کی مخالفت محض واحد مذہب کی شناخت کی بنیاد پرکر رہے تھے۔ بین الاقوامی حالات اور کشمیر کی صورتحال کی پیچیدگی اور الجھاؤ کی وجہ سے سرحدوں کے معاملہ پر دونوں ملک ایک دسرے سے نبرد آزما ہوگئے۔ 1950ء میں ہندستان کا دستور نافذ العمل ہوا جس میں کشمیر کو خصوصی درجہ دیا گیا۔ آرٹیکل 370 دستور میں خاص طور سے شامل کیا گیا۔
نہر اور شیخ عبداللہ کی ذاتی دوستی عبداللہ کے کام نہیں آئی۔ ان کو غداری کے الزام میں جیل میں رہنا پڑا۔تاہم ان پر الزام کبھی ثابت نہیں ہوا۔ شیخ عبداللہ کشمیر کے منتخب لیڈر تھے، جس کی وجہ سے کشمیر میں 1947ء سے 1953ء کے درمیان ہندستان کا حصہ بنا رہا۔ مگر شیخ عبداللہ کو ہندستان کی سیکولرزم پر شک و شبہ تھا کیونکہ جن سنگھیوں نے جموں و کشمیر میں واویلا مچانا شروع کیا۔ کشمیر کا ہندو مہاراجہ اور جن سنگھ نے کشمیر پر پاکستان کے حملے کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا مگر جب کشمیر پورے طور پر ہندستان کا حصہ ہوگیا تو پھر وہ کشمیر پر اپنا دعویٰ پیش کرنے میں آگے آگے ہوگئے۔
جن سنگھ کے لیڈر شیاما پرساد مکھرجی آرٹیکل 370 کے خلاف کشمیر میں احتجاج کرنے لگے اور جیل ہی میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ 1953ء میں شیاما پرساد مکھرجی کی جیل میں موت سے کشمیر کے حالات خراب ہوگئے جس کی وجہ سے شیخ عبداللہ کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ 22سال کے بعد شیخ صاحب اس وقت اقتدار کی کرسی پر فائز کئے گئے جب 1975ء میں اندرا گاندھی اور ان کے ساتھ معاہدہ ہوا۔ ان سب کے باوجود کشمیر کی خود مختاری پر آنچ نہیں آئی۔ دستور کا دیا ہوا اختیار حاصل رہا۔ کشمیریوں نے خود مختاری کے خواب سے دستبردار ہونا نہیں چاہا۔
ستر سال سے کشمیر کے مسئلہ میں بہت سا نشیب و فراز آیا۔ کشمیریوں کو بہت تلخ تجربہ کے دور سے گزرنا پڑا۔ ہم میں سے اکثر یہی سمجھتے ہیں کہ حالات کشمیر میں پاکستان کے پروکسی وار (Proxy War) کی وجہ سے خراب ہے۔ پاکستان کشمیر کو تقسیم ہند کا Unfirished Agenda (نامکمل ایجنڈا) سمجھتا ہے۔ ہندستان کی مضبوط فوج کی وجہ سے پاکستان کو اپنا ایجنڈا پورا کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ہندستان جیسے ملک میں سیکولرزم کا ایجنڈا ایسا رہا جس کی وجہ سے کشمیر پر اس کا دعوی مستحکم ہوتا رہا۔ 24 اکتوبر کو مودی حکومت نے محکمہ خفیہ (IB) کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ایسے تمام کشمیریوں سے بات چیت کریں جو کشمیر کے اسٹیک ہولڈرس (اہل مفاد) ہیں لیکن مودی اور ان کی پارٹی پانچ ہی دن کے بعد آرٹیکل 370 کے خلاف بات کرنے لگی۔ ایسی تنگ نظر اور جارحانہ قومیت کے حامیوں سے کشمیر کا مسئلہ نہ کبھی حل ہوا ہے اور نہ حل ہوگا۔
ترجمانی ۔۔۔۔عبدالعزیز
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں