تحریر بموقع امن وایکتا سمیلن ز یر اہتمام جمعیۃ علماء سوپول بہار ۱۹؍نومبر ۲۰۱۷ء
عظیم اللہ صدیقی قاسمی
نومبر ۱۹۱۹ء میں خلافت کانفرنس کے موقع پر انقلابی علماء کرام نے ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے نام سے باضابطہ دستوری جماعت کی تشکیل کی، جس کے پہلے صدر مفتی اعظم مولانا محمد کفایت اللہ (م۔۱۹۵۲ء) منتخب ہوئے۔ اس تنظیم کا قیام علماء کرام کی انقلابی تحریک کا فیصلہ کن موڑ تھا۔ مسلح انقلاب کی راہ ترک کرکے عدم تشدد اور ’اہنسا‘ کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اس طریقہ کار کی بدولت ملک کی آزادی کا حصول ممکن ہوا۔
۸؍جون ۱۹۲۰ء کو شیخ الہند مولانا محمود حسن اور ان کے رفقاء کرام تین برس سات مہینے کے بعدمالٹا کی قید سے واپس آئے۔بمبئی میں ان کا استقبال کرنے والوں میں ہزاروں عقیدت مندوں کے ساتھ مولانا عبدالباری فرنگی محلی اور گاندھی جی موجود تھے۔ اس کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے مولانا عبدالباری فرنگی محلی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مفتی محمد کفایت اللہ اور مسیح الملک حکیم اجمل خاں مر حوم سے گفتگو ہوئی۔
۹؍جون ۱۹۲۰ء کو خلافت کانفرنس الٰہ آباد میں ’’تحریک ترک موالات‘‘ (نان کو آپریشن موومنٹ) شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔۱۹؍جولائی ۱۹۲۰ء کو شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی (م۔۱۹۲۰ء )نے ترک موالات کا فتویٰ دیا، جس کو بعد میں مولانا ابوالمحاسن سجاد بہاری نے مرتب کرکے جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ۴۸۴ دستخطوں کے ساتھ شائع کیا۔ اس فتویٰ کی روشنی میں اور اس کی بنیاد پر خلافت کمیٹی اور کانگریس کے رہنما اور کار کن برطانوی سامراجی حکومت کے مقابلے میں صف آرا ہوگئے۔۶؍ستمبر ۱۹۲۰ء کو مولانا تاج محمود امروٹ، شریف سندھی کی صدارت میں جمعیۃ علماء ہندکا خصوصی اجلاس کلکتہ میں منعقد ہوا جس میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ترک موالات کی تجویز پیش کی جو اجلاس میں شریک دو سو علماء کرام کی تائید سے بالاتفاق منظور کی گئی۔۳۱؍اگست ۱۹۲۰ء سے باقاعدہ عدم تعاون کی تحریک شروع کی گئی جو ۵؍فروری ۱۹۲۲ء کو چوراچوری کے بھیانک واقعہ کے بعد گاندھی جی کی تجویز کے مطابق بند کردی گئی۔ اس تحریک میں تیس ہزار افراد جیل گئے جن میں زیادہ تعداد علماء اور مسلم محبان حریت کی تھی۔
۱۹؍تا ۲۱؍نومبر ۱۹۲۰ء جمعیۃ علماء ہندکا دوسرا اجلاس عام دہلی میں منعقد ہوا۔ جس کی صدارت شیخ الہند مولانا محمود حسن نے فرمائی۔ آپ نے اپنے خطبہ صدارت میں جدوجہد آزادی کی ترغیب کے ساتھ سیاسی جدوجہد کی منتشر طاقت کو کانگریس کے مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی۔جمعیۃ علماء ہندنے اپنے اس اجلاس میں دو بارہ ترک موالات کی تجویز پاس کی اور صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ حکومت برطانیہ کے ساتھ موالات اور نصرت کے تمام تعلقات رکھنے حرام ہیں۔۸؍جولائی ۱۹۲۱ء کو کراچی میں خلافت کانفرنس کے عظیم الشان اجلاس میں شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی نے پوری قوت کے ساتھ صاف لفظوں میں یہ اعلان کیا کہ حکومت برطانیہ کی اعانت اور ملازمت حرام ہے۔ اس جرأت حق گوئی کی پاداش میں کراچی کا مشہور مقدمہ چلا جس میں آپ کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا نثار احمد، پیر غلام مجدد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، گروشنکر اچاریہ کو دو دو سال قید بامشقت کی سزا ہوئی۔۸؍اگست ۱۹۲۱ء کو جمعیۃ علماء ہندکا شائع کردہ ترک موالات کا فتویٰ ضبط کرلیا گیا، پھر بھی جمعیۃ علماء ہندخلاف قانون اس فتویٰ کو بار بار شائع کرتی رہی۔۱۸تا ۲۰ نومبر ۱۹۲۱ء کو جمعیۃ علماء ہندکا تیسرا اجلاس لاہور میں ہوا جس کی صدارت امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے کی۔ اس اجلاس میں ضبط شدہ فتویٰ کو ضبطی کی مداخلت سے بے پرواہ ہوکر اس کو بار بار شائع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ولایتی مال کے بائیکات کی قرار داد بھی منظور کی گئی۔
۱۹۲۱ء مالا بار کے موپلہ مسلمانوں کے جوش ایمانی اور مجاہدانہ جذبہ کو ختم کرنے کے لیے برطانوی حکومت نے سخت ترین مظالم کئے، اس موقع پر سب سے پہلے جمعیۃ علماء ہندغریب موپلہ مسلمانوں کی مدد کے لیے سامنے آئی۔ ایک طرف تحقیقاتی وفد روانہ کیا گیا، جس کی رپورٹ ’’حوادث مالا بار‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ پورے ملک میں ان مظالم سے آگاہ کرکے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کی امداد کے لیے پچاس ہزار روپے کی خطیر رقم روانہ کی گئی، جو اس وقت بڑی رقم تھی۔
۱۹۲۲ء میں برطانوی حکمرانوں کی شاطرانہ سیاست نے ہندوؤں مسلمانوں کے مثالی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے اور آزادی کے خواب کو چکنا چور کرنے کیلئے شدھی اور سنگٹھن کی تحریکیں شروع کیں جس کے نتیجے میں پورا ملک فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ ہر طرف فساد کے شعلے بھڑکنے لگے۔ اس موقعہ پر جمعیۃ علماء ہندنے فسادات کی روک تھام اور ہندو مسلم اتحاد کو برقرار رکھنے کی انتھک کوشش کی۔۲۶؍ستمبر ۱۹۲۴ء کو دہلی میں پنڈت مدن موہن مالویہ کی صدارت میں اتحاد کانفرنس ہوئی جس میں جمعیۃ علماء ہندنے بھرپور حصّہ لیا اور اس کے اکابر مفتی اعظم مولانا محمد کفایت اللہ، شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی، سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر مقتدر لیڈروں نے شرکت کی۔
۱۱ تا ۱۴؍مارچ ۱۹۲۶ء کو جمعیۃ علماء ہندکا ساتواں اجلاس زیر صدارت علامہ سیّد سلیمان ندوی منعقد ہوا جس میں سب سے پہلے مکمل آزادی کی قرار داد منظور کی گئی۔یہ اس وقت کی بات ہے جب کانگریس بھی مکمل آزادی کے بارے میں سوچ نہیں سکتی تھی، یہ ان مردان حق کی بے خوفی او ربے باکی تھی کہ اس نے اس ملک سے انگریزوں کو جانے کا پروانہ تھمادیا اور اس کے کئی سال بعد ۱۹۲۹ء میں کانگریس کو ہمت ہوئی کہ مکمل آزادی کامطالبہ کرے۔
۱۹۲۷ء میں حکومت ہند کے دستور کی تبدیلی کا سوال پیدا ہوا تو حکومت برطانیہ نے سائے من کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا۔ اس اعلان کا حقیقی مقصد یہ تھا کہ آئینی اصلاحات کے مطالبات کا جوش سرد ہوجائے اور ملک کی آزادی کی تحریک کچھ عرصہ کے لیے کھٹائی میں پڑجائے۔ اس موقع پر سب سے پہلے جمعیۃ علماء ہندنے اپنے آٹھویں اجلاس منعقدہ پشاور ۵؍دسمبر ۱۹۲۷ء میں یہ فیصلہ کیا کہ سائے من کمیشن کا بائیکاٹ کیا جائے اور کوئی ہندستانی کمیشن سے تعاون نہ کرے۔ اس فیصلے کے بعد کانگریس نے اپنے اجلاس مدراس منعقدہ ۲۶؍دسمبر۱۹۲۷ء کو جمعیۃ علماء ہندکے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ ۳؍فروری ۱۹۲۸ء کو جب سائے من کمیشن ہندستان پہنچا تو جمعیۃ علماء ہنداور کانگریس کے متفقہ فیصلے کے مطابق پورے ملک میں پُرامن ہڑتال ہوئی۔ احتجاجی جلسے ہوئے پورے طور پر عدم تعاون کیا گیا، بالاخر ۳۱؍مارچ کو یہ کمیشن ناکام واپس چلا گیا۔
۱۹۲۸ء میں جمعیۃ علماء ہندکے وفد نے آل پارٹیز کانگرنس لکھنؤ میں شرکت کی اور ہندستان کے لیے دستور اصل حکومت کے اس مسودہ پر سخت تنقید کی جس کو ’’نہرو رپورٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل آزادی کے مطالبہ سے بچنے اور برطانوی حکومت کے زیر سایہ آئینی مراعات حاصل کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ جمعیۃ علماء ہندکے رہبروں کی تنقید معقول اور وزنی تھی اس لیے کانگریس نے بھی ۳۱؍ دسمبر ۱۹۲۹ء کو اپنے لاہور اجلاس میں اس رپورٹ کو مسترد کردیا اور مکمل آزادی کی تجویز منظور کی۔ جمعیۃ علماء ہنداس سے پانچ برس پہلے ہی مکمل آزادی کا مطالبہ منظور کرچکی تھی۔
۱۹۲۹ء میں گاندھی جی کے ’’ڈانڈی مارچ‘‘ اور نمک سازی تحریک میں جمعیۃ علماء ہندکے رہنما، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی وغیرہ نے شرکت کی۔ دیگر قومی کارکنوں کے ساتھ جمعیۃ علماء ہندکے اکابر مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا سیّد فخرالدین مرادآبادی، مولانا سیّد محمد میاں دیوبندی اور مولانا بشیر احمد بھٹّہ وغیرہ بھی گرفتار ہوئے۔ اسی سال جمعیۃ علماء ہندنے بدنام شاردا ایکٹ کی مخالفت کرکے اسے بے اثر کردیا۔ کیونکہ یہ ایکٹ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت تھی۔
۲۲؍اپریل ۱۹۳۰ء کو قصہ خوانی بازار پشاور میں برطانوی حکومت نے سرحد کے غیور پٹھانوی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ سینکڑوں جوان شہید ہوئے تو جمعیۃ علماء ہندکے صدر مولانا مفتی محمد کفایت اللہ اور مولانا محمد نعیم لدھیانوی پر مشتمل وفد تحقیقات کے لیے گیا۔ ظالم حکومت نے وفد کو پشاور جانے کی اجازت نہیں دی تو وفد کے اراکین نے راولپنڈی میں قیام کرکے رپورٹ مکمل کی۔ جب رپورٹ شائع ہوئی تو سامراج اقتدار کے ایوان میں زلزلہ آگیا۔ حکومت نے رپورٹ کو ضبط کرلیا۔
۱۹۳۰ء کی تحریک سول نافرمانی میں جمعیۃ علماء ہندکے صدر مولانا مفتی محمد کفایت اللہ اور اس کے ناظم اعلیٰ مولانا احمد سعید دہلوی کو قانون تحفظ عامہ و بغاوت کے جرم میں گرفتار کرکے قید بامشقت کی سزا دی گئی۔۱۹۳۲ء میں جب دو بارہ سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی تو جمعیۃ علماء ہندنے بھی کانگریس کی جنگی کونسل کی طرح ’’ادارہ حربیہ‘‘ قائم کرکے ڈکٹیٹرانہ نظام جاری کیا، اس ادارہ کی ذمّہ داری مولانا ابوالمحاسن سجاد انجام دے رہے تھے۔۱۱؍مارچ ۱۹۳۴ء جمعیۃ علماء ہندکے پہلے ڈکٹیٹر مفتی اعظم کفایت اللہ ایک لاکھ افراد کا جلوس لے کر نکلے اور گرفتار کیے گئے۔ جمعیۃ علماء ہندکے دوسرے ڈکٹیٹر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کو دیوبند سے دہلی آتے ہوئے راستے میں گرفتار کرلیا گیا اس کے بعد سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی، مجاہد ملّت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، سیّد الملّت مولانا محمد میاں دیوبندی، امام الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی وغیرہم ڈکٹیٹر منتخب ہوتے رہے اور گرفتاریاں دیتے رہے اس تحریک میں تقریباً تیس ہزار مسلمان گرفتار کئے گئے۔
۱۹۳۵ء میں حکومت ہند کا جو دستور بنایا گیا تھا اس میں مسلمانوں کی مذہبی و ملّی مشکلات کے حل کے لیے جمعیۃ علماء ہندنے ایک فارمولا پیش کیا۔ یہ فارمولا جمعیۃ علماء ہندکی مجلس عاملہ کی میٹنگ منعقدہ ۳۱؍اگست ۱۹۳۱ء میں مرتب ہوا تھا۔ یہ ’’مدنی فارمولا‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اگر اس فارمولے کے مطابق دستور بنایا جاتا تو کافی حد تک مسلمانوں کی مشکلات حل ہوجاتیں اور ملک تقسیم نہ ہوتا۔ بہرحال گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے ذریعہ مسلمانوں کو جو مراعات بھی حاصل ہوئیں وہ اسی فارمولے کی بنیاد پر شامل ہوئیں۔ ۲۷۔۱۹۳۶ء میں جمعیۃ علماء ہندنے مولانا مفتی کفایت اللہ کی رہنمائی میں صوبہ سرحد کی اسمبلی میں شریعت بل کا مسودہ پیش کرکے پاس کرایا۔ پھر مرکزی اسمبلی میں بھی پیش کرایا مگر مسٹر محمد علی جناح نے ایک دفعہ کا اضافہ کرکے پورے قانون کو بے اثر بنانے کی سعی نامشکور کی تاہم جمعیۃ علماء ہندکی سرکردگی ہی میں۱۹۳۷ء میں شریعت بل بنایا گیا۔ جو آج تک نافذ ہے اور یہ بات خاص ہے کہ خود شریعت ایپلی کیشن ایکٹ میں جمعےۃ علماء ہند کا نام لکھا ہے کہ اس جیسی مضبوط جماعت کے مطالبے پر یہ ایکٹ بنایا جارہاہے۔
۳۷۔۱۹۳۶ء میں شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی ؒ نے انگریزی اقتدار کے مقابلہ میں بلاتفریق مذہب و ملّت ہندستانیوں کے لیے متحدہ قومیت کی وکالت کی اور کو قرآن و حدیث سے ثابت کیا۔ اس وقت مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کی جانب سے مذہب پر مبنی قومیت کے تصورات پیش کیے جارہے تھے۔ حضرت مدنی اور ان کے ہم خیال علماء کے بارے میں لندن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے لکھا ہے ’’یہ لوگ روایتی علماء سے مختلف تھے جواب تک ملت اسلامیہ کی یک جہتی کے علمبردار تھے۔‘‘
۱۹۳۹ء میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پر جمعیۃ علماء ہندنے جبری بھرتی کی پُروز مخالفت کی اور اعلان کیا کہ جنگ کے سلسلے میں ہم کسی طرح کا تعاون نہیں کریں گے۔۱۹۴۰ء میں مولانا سیّد محمد میاں دیوبندی کی کتاب علماء ہند کا شاندار ماضی کو ضبط کرلیا گیا اور مصنف کو گرفتار کرلیا گیا۔ جمعیۃ علماء ہندنے اپنے اجلاس مجلس عاملہ منعقدہ ۱۳۔۱۴ جولائی میں اسے ایک جابرانہ کاررائی قرار دیا۔۱۹۴۰ء میں دوسری جنگ عظیم میں تعاون نہ دینے اور جبری بھرتی کی مخالفت کرنے کی وجہ سے جمعیۃ علماء ہندکے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان حضرات میں مجاہد ملّت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا محمد قاسم شاہجہان پوری، مولانا ابوالوفا شاہ جہان پوری، مولاناشاہد میاں فاخری الہ آبادی، مولانا محمد اسماعیل سنبھلی، مولانا سیّد اخترالاسلام استاد مدرسہ شاہی مراد آباد وغیرہ کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
کوئٹ انڈیا موومنٹ کی تحریک سب سے پہلے جمعےۃ نے شروع کی
۲۶؍اگست ۱۹۴۲ء کو آپ نینی تال جیل الٰہ آباد سے بلاشرط رہا کیے گئے۔ ۵؍اگست ۱۹۴۲ء کو جب جمعیۃ علماء ہندکی مجلس عاملہ کے ۴ مقتدر ارکان مفتی اعظم مولانا محمد کفایت اللہ، مجاہد ملّت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، سحبان الہند مولانا احمد سعید، مولانا عبدالحلیم صدیقی لکھنوی کے دستخطوں سے ایک اخباری بیان جاری کیا گیا۔ جس میں کھلے لفظوں میں کہا گیا تھا کہ انگریز ہندستان چھوڑ دے‘‘ اس کے بعد ۸؍اگست ۱۹۴۲ء کو کانگریس نے اپنے اجلاس بمبئی میں ’’کوئٹ انڈیا‘‘ کی تجویز پاس کی جس کی پاداش میں کانگریس کی طرح جمعیۃ علماء ہندکے رہنما اور ہزاروں کارکن اور رضاکار گرفتار ہوئے۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، مجاہد ملّت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولان سیّد محمد میاں دیوبندی، مولانا نورالدین بہاری، وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی پہلی ہی گرفتار کیے جاچکے تھے۔
۱۹۴۲ء کے بعد جمعیۃ علماء ہندنے نظریہ قیام پاکستان کی پوری قوت کے ساتھ مخالفت شروع کی اور مسلم فرقہ پرستی کاڈٹ کر مقابلہ کیا جمعیۃ علماء ہندکے اکابر بالخصوص شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی مسلم لیگیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ رہے۔۴؍مئی ۱۹۴۵ء کو جمعیۃ علماء ہندکا چودھواں اجلاس سہارنپور زیر صدارت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی منعقد ہوا۔ جس میں جمعیۃ علماء ہندنے مسلم لیگ کے نظریہ تقسیم ہند کے متبادل فارمولا پیش کیا جو مدنی فارمولا کے نام سے مشہور ہے۔
۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء مجاہدین ملّت کی بیش بہا قربانیوں کی بدولت آزادی کا سورج نیم شب کو طلوع ہوا لیکن برطانوی شاطر حکمراں اپنی پھوٹ ڈالنے والی سیاست میں کامیاب ہوچکے تھے۔ اس مبارک گھڑی میں ہندو مسلم اتحاد کی وہ عمارت جس کی تعمیر میں جمعیۃ علماء ہندکے اکابر کی مساعی جمیلہ شامل تھیں وہ لرزہ اندام ہوگئی۔ نفرت کی آندھی میں صدیوں کے پروردہ رشتے کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹ گئے۔ تقریباً اٹھائیس برس میں فرقہ وارانہ یگانگت، مفاہمت اور ملکی اتحاد کا جو سرسبز درخت کھڑا ہوا تھا اس کی جڑیں ہل گئیں۔ اس وقت جب شمالی ہند کے مسلمانوں کے سامنے کربلا جیسے مناظر تھے۔ اس بھیانک تاریکی میں جمعیۃ علماء ہندکے مجاہدین آزادی نے امید کا چراغ روشن کیا، لڑکھڑاتے قدموں کو سہارا دیا، حوصلوں کو بحال کیا اور اس طرح آزادی کے بعد جمعیۃ علماء ہندکی جماعتی تاریخ کا دوسرا باب شروع ہوا۔qq
جنگ آزادی کے بعد جمعےۃ علماء ہند کی خدمات کا دوسرا باب
جنگ آزادی کے بعد ۱۹۴۸ء میں جمعےۃ علماء ہند نے فیصلہ کرلیا کہ وہ باضابطہ متحرک سیاست میں حصہ نہیں لے گی اور صرف دینی ورفاہی خدمات تک خود کو محدودرکھے گی ۔آزادی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ حوصلہ کھو چکی ملت اسلامیہ میں اعتماد پیدا کرنا اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کرنا تھا کہ ہندستان ان کا ملک ہے اور وہ یہاں کے حقیقی باشندے ہیں ۔لیکن اس درمیان کسٹوڈین کے مظالم اور فرقہ پرستوں کے ذریعے پہ درپہ فرقہ وارانہ فسادات بھی جمعےۃ کے سامنے ایک چیلنج بن کر آئے، لیکن اکابر جمعےۃ نے تعمیر ملت کے ساتھ ان طاقتوں کا بھی جم کر مقابلہ کیا ،ساتھ ہی شریعت اسلامیہ ، مساجد ومقابر کے تحفظ کے لیے بھی جد وجہد کرتی رہی۔آزادی کے بعد مسلم پرسنل لاء کا تحفظ ایک اہم مسئلہ تھا ،اس پربھی جمعےۃ علماء ہند نے بڑی بڑی تحریکیں چلائیں اور تحفظ شریعت کانفرنس اور اوقاف کانفرنس منعقد کرکے عوامی شعور و بیداری بھی پیداکی ۔
آزادی کے بعد جمعےۃ علماء ہند کی دس بڑی خدمات جو فقید المثال ہیں
۱۔ فرقہ پرستوں سے مقابلہ اور فرقہ وارانہ فساد متاثرین کی بازآبادکاری :
فرقہ پرستی کا طوفان جو تقسیم وطن کے زمانے میں شروع ہو ا تھا ، وہ جمعےۃ علماء کی کوششوں سے کچھ حد تک دب گیا تھا،لیکن ۱۹۶۱ء میں جبل پور کے بھیانک فرقہ وارانہ فساد نے اس افسوسناک باب کا دروازہ کھول دیا، اس فسادمیں مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا ۔ نہ صرف جمعےۃ علماء ہند کے اکابر نے وہاں لوگوں کی امداد کی بلکہ عین فساد کے موقع پر جبل پور پہنچ کر فسادرکوانے اور مسلمانوں کی عزت وآبرو کی حفاظت کی نادر مثال قائم کی ۔ جبل پور کے بعد فساد کا سلسلہ جاری ہو گیا ، جمعےۃ علماء ہند اپنی روایت کے مطابق ہمیشہ پہلے پہنچ کر بڑی خدمت انجام دیتی رہی،خاص
طور سے ۱۹۶۹ء کا گجرات فساد، ۱۹۷۹ء کا جمشید پور فساد، مرادآباد فساد (۱۹۸۰ء )، میرٹھ فساد ( ۱۹۸۲ء) نیلی آسام فساد (۱۹۸۳ء ) بھیونڈی فساد (۱۹۸۴ء )، میرٹھ ہاشم پورہ قتل عام (۱۹۸۷ء ) بھاگلپور فساد (۱۹۸۹ء ) حیدرآباد (۱۹۹۰ء ) ممبئی فساد (۱۹۹۳ء ) اور گجرات قتل عام (۲۰۰۲ء ) ، آسام فساد ( ۲۰۱۲ء ) مظفر نگر فساد ( ۲۰۱۳ء ) یہ انتہائی بھیانک قسم کے فسادات ہیں ، تاریخ گواہ ہے کہ مولانا اسعد مدنیؒ سے لے کر آج مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری صاحب اور مولانامحمود مدنی صاحب تک سبھی سربراہان جمعےۃ عین فساد کے موقع پر متاثرہ علاقوں میں گئے اور فساد متاثرین کی دادرسی کی۔ان تمام جگہوں پر جمعےۃ علماء ہند نے بازآبادکاری کا عمل بھی بخوبی انجام دیا،اور فسادیو ں کے خلاف عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کی ، آج بھی ایسے بہت سارے مقدمات جمعےۃ علماء ہند لڑرہی ہیں۔اس کے علاوہ برادران وطن کی اکثریت کے ساتھ مل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی بھی جمعےۃ علماء ہند کی تاریخ کا سب سے اہم باب ہے ،حال میں جمعےۃ علماء ہند کے صدر محترم امیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری کی صدار ت میں دہلی میں امن وایکتا سمیلن منعقد ہوا، جس میں دیوبند سے لے کر رشی کیش تک تمام مذاہب کے رہ نماؤں نے شرکت کی اور مشترکہ طور سے اعلامیہ کی تائید میں ہاتھ اٹھا کر فرقہ پرستی کے خلاف گھر گھر پیغام محبت پہنچانے کا عہد کیا ۔
۲۔قدرتی آفات متاثرین کی خدمات: سیلاب اورزلزلہ متاثرین کے لیے جمعےۃ علماء ہند کی خدمات نایاب ہیں ۔جہاں پر بھی ایسا کوئی حادثہ ہوتاہے بلا تفریق مذہب جمعےۃ علماء ہند لوگوں کی مدد کرتی ہے ۔ماضی میں بہار سیلا، ممبئی سیلاب اور آسام سیلاب ۱۹۸۷ء اور حال میں کشمیر او رچنئی سیلاب متاثرین کے لیے جمعےۃ علما ء ہند نے بڑی خدمت انجام دی ہے ۔ کشمیر میں تقریبا ۷۶۳ ؍مکانات تعمیر کرکے متاثرین کے حوالے کیاگیا، اسی طرح چنئی میں جمعےۃ علماء ہند فی الوقت ۱۰۰؍ مکانات بنا کر لوگوں میں تقسیم کیے گئے ، فی الحال بہار سیلاب متاثرین کے لیے بڑا کام ہو رہا ہے ۔
۳۔مسلمانان آسام کے لیے جد وجہد : تقسیم وطن کے بعدآسام کے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر وطن سے بے وطن کرنے،جائیدادوں او راملا ک سے محروم کرنے کی سازش رچی گئی ۔ جمعےۃ علماء ہند کے سابق صدر مولانا اسعدمدنی ؒ نے ان تباہ حال غریب آسامیوں کے لیے پوری زندگی وقف کردی ،ا نھوں نے اس ظلم پر سخت اعتراض ظاہر کیا ۔ اس سلسلے میں جمعےۃ علماء ہند نے ۲۸؍ستمبر ۱۹۷۹ء کو ملک بھر میں یوم آسام منانے کی اپیل جاری کی اور آسام کی دوتنظیموں جن سنگرام پریشد اور چھاتر سنگھ کے خلاف مقابلہ کرتے ہوئے حکومت سے جائز شہریو ں کے لیے نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن جاری کرائے گئے اور اس کی کاپیاں جمعےۃ علماء آسام کے ضلعی دفاتر میں رکھوائی گئیں ۔اس کے بعد جمعےۃ علماء ہند نے ذیلی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹ تک،گلی سے لے کر پارلیامنٹ تک اس معاملہ کو اٹھایا اور آج بھی وہ اس سلسلے میں جد وجہد کررہی ہے ۔حال میں جمعےۃ علماء ہند آسام سے متعلق دو اہم مقدمات سپریم کورٹ میں لڑرہی ہے ۔
۴۔ فتنہ ارتداد کے خلاف جد وجہد :آزادی کے بعد فتنہ ارتداد نے سرا ٹھایا،پنجاب ،ہماچل ، گجرات ،راجستھان وغیرہ میں دین سے دوری کی وجہ سے مسلمانوں اور غیر وں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں تھا ، ساتھ ہی جہالت کی وجہ سے لوگ مرتد بھی ہورہے تھے، اس کے خلاف مقابلہ کرنے کے لیے جمعےۃ علماء ہند نے تنظیم اصلاح المسلمین قائم کی ، مولانا اسعدمدنی ؒ نے راجستھان کے بیاور میں ارتداد کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور تمام دور افتادہ گاؤں اور دیہاتوں میں دینی مکاتب قائم کیے اور علماء کو تقرر کرکے بھیجا ،اس سے یہ فتنہ کسی طرح تھما، اس وقت جمعےۃ علماء ہند کی کوشش سے اس کے ذمہ داران دس ہزار سے زائد مکاتب چلاتے ہیں ۔
۵۔تحفظ شریعت : آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد جمعےۃ علماء ہند نے تحفظ شریعت کیلیے جو مسلسل جد وجہد کی تھی ، اس کایہ شیریں ثمرہ ہے کہ آزاد ہندستان کا جب نیا دستور بننے لگا تو اس کے تیسرے باب میں جو بنیادی حقوق سے متعلق ہے، جمعےۃ علماء ہند کی ان باتوں او رمطالبات کو شامل کیا گیا ۔لیکن کے اس کے باوجود مختلف حوالوں سے خاص طور سے دفعہ ۴۴ کا بہانہ بنا کر مسلسل مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی کوشش کی گئی ، لیکن جب بھی ایسا ہو ا، جمعےۃ علماء ہند نے کھل کر اس کی مخالفت کی ۔۱۹۶۶ء یکساں سول کوٹ کا معاملہ ہو،۱۹۷۲ء میں متبنی بل ، ۱۹۷۹ء میں ایک پرائیویٹ ممبر بل کے ذریعے تعددازدواج پر پابندی ، ۱۹۸۳ء میں شہناز شیخ پٹیشن جس میں سپریم کورٹ میں درخواست دی گئی کہ مسلمانو ں کے لیے یکساں سول کوڈ بنایا جائے، ۱۹۸۵ء کا شاہ بانو قضیہ ، ۱۹۸۵ء میں یکساں سول کوڈ کامعاملہ ، ۱۹۹۰ء میں لازمی نکاح رجسٹریشن بل ، ۱۹۹۹ء میں
نفقہ مطلقہ سے متعلق ممبئی ہائی کورٹ کامسئلہ اور ۱۹۹۹ء میں پھریکساں سول کوڈ کامعاملہ ، ۲۰۰۶ء میں فوج میں داڑھی رکھنے کامعاملہ اور اب سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کا مسئلہ ہو، جمعےۃ علماء ہند نے ان تمام معاملات میں سینہ سپر ہو کر فتنو ں کا مقابلہ کیا اور آج بھی سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے مسئلے پر فریق ہے ۔اس سلسلے میں جمعےۃ علماء ہند نے ۱۹۸۵ء میں علماء کانفرنس اور ۲۶؍جنوری ۱۹۹۱ء کو مدنی ہال نئی دہلی میں تحفظ شریعت کانفرنس منعقد کرکے پورے ملک کو ان معاملات پر متحد کردیا۔
۶۔ مسئلہ کسٹوڈین کے خلاف جد وجہد : آزادی کے بعد کسٹوڈین قانون کی وجہ مسلمانوں سے ان کی جائیداد چھیننے کی سازش رچی گئی ، جمعےۃ علماء ہند کی کوششوں سے کسٹوڈین قانون سے بعض رعایتیں دی گئیں ،مثلا دہلی کے مسلم علاقو ں کی نشاندہی کی گئی ،ان علاقو ں میں اگر کسٹوڈین کی جائیداد کا خریدار کوئی مسلمان ہوتو اسے فروخت کی جاسکتی تھی، جمعےۃ علماء ہند کو خریدارو ں کو نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا ۔اس کی وجہ سے مسلم اکثریت کی بستیاں اقلیت میں ہونے سے بچ گئی ۔
۷۔مسلم اقلیت کے لیے ریزرویشن کی تحریک: جمعےۃ علماء ہند نے آزادی کے بعد ہی پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن کا مطالبہ شروع کردیا تھا ، تاہم اس تحریک کا باضابطہ آغاز مولانا اسعد مدنی ؒ نے ۱۹۹۷ء میں کیا اور اس کے لیے پورے ملک میں دستحظی مہم چلا کر اکیس لاکھ بائیس ہزار پانچ سو اکہتر دستخطوں کے سا تھ ۸؍مارچ ۱۹۹۹ء کو ایک میمورنڈم صدرجمہوریہ ہند کو پیش کیا ۔ الحمدللہ آج جمعےۃ کی کوشش سے ملک کی کئی ریاستوں میں ریزرویشن نافذ ہے، تاہم اس سے متعلق قانونی رکاوٹ ہے ، جس کو لے کر سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ جمعےۃ علماء ہند لڑرہی ہے ۔
۸۔بابر ی مسجد کے لیے تا ریخی جد وجہد :جمعےۃ علماء ہند ۱۹۴۹ء سے عدالت میں فریق ہے ۔یہ مقدمہ فی الحال سپریم کورٹ میں جاری ہے ۔
۹۔ دہشت گردی او راسلام کو بدنام کرنے والوں کے خلاف تاریخ ساز جد وجہد :اسلام کے پیغام امن کی اشاعت اور دہشت گردی کے خلاف طویل جد وجہد کا یہ پندرہواں سال ہے ۔ مدارس و مساجد، قرآن اوراسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے اور اسلام دشمن طاقتوں کو اسلام کے نام پر استعمال ہونے کے خلاف باضابطہ جد وجہد کا آغاز ۲۰۰۷ء سے ہوا تھا ، جب جمعےۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب کی قیادت میں جمعےۃ علماء ہند نے پارلیامنٹ انیکسی میں علماء کانفرنس منعقد کی ۔ جس میں ارباب اقتدار کو مدعوکیا گیا اوران کے سامنے ملک کے سبھی طبقوں کے علماء نے اسلام کا موقف مضبوطی سے پیش کیا ۔ اس کے بعد سال ۲۰۰۸ء میں دیوبند سے فتوی طلب کرکے ملک کے گوشے گوشے میں دو سو سے زائد بڑی کانفرنسیں منعقد کرکے نہ صرف دہشت گردی کی سخت مذمت کی بلکہ اس کو اسلام سے نتھی کرنے والوں کو آئینہ بھی دکھا یا ، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ سال ۲۰۱۳ء میں دیوبند اور دہلی میں امن عا لم کانفرنس میں سارک ممالک کے مقتدر علماء کے ساتھ مل کر اسلام کے ذریعے انسانیت کا پیغام متفقہ طور سے پھیلا یا ۔ان پروگراموں کا اثر یہ ہوا کہ یہ پیغام گیا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔چنانچہ امریکہ جس نے سب سے پہلے اسلامک ٹیررز م کی اصطلاح پیدا کی تھی اس نے باضابطہ سرکاری طور سے اس اصطلاح کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ اب اسلامک آتنک واد یا ٹیررزم کا لفظ استعمال نہیں ہوگا ۔
۱۰۔ دہشت گردی کے الزام میں ماخوذ بے قصور افراد کے لیے قانونی جد وجہد : جمعےۃ نے نہ صرف دہشت گردی کی سخت مذمت کی بلکہ وہ لوگ جو دہشت گردی کا شکا ر ہوئے یا اس کے نام پر غلط طریقے سے پھنسائے گئے ، ان کے لیے بھی مقدمہ لڑتی ہے ، حال میں آسام فساد کے بعد غلط طریقے سے جیل میں بند افراد کی رہائی عمل میں آئی ۔ یہ مولانا محمود مدنی کی طویل جد وجہد کی و جہ سے ممکن ہوا، اسی طرح گجرات فساد کے مجرموں کو عمر قید کی سزا ہوئی ،نیز اورنگ آباد اسلحہ کیس میں فیروز دیشمکھ وغیرہ کے مقدمے میں بڑی کامیابی ملی ہے، ایک تفصیل کے مطابق ملک بھر میں جمعےۃ ایک سو پچاس سے زائد مقدمات لڑرہی ہے اور مولانا محمود مدنی نے باضابطہ اعلان کردیا ہے کہ جہاں کہیں کوئی بے قصور گرفتار ہو، وہ ان سے رابطہ کرے اس کا تعاون کیا جائے گا ۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں