عابد محمود عزام
تبلیغی جماعت کی ابتداء ۱۹۲۶ء میں ہریانہ کے میوات سے ہوئی۔ میوات کے علاقے میں مسلمانوں کی بڑی تعداد رہتی تھی، جنہوں نے عہد وسطیٰ کے اخیر میں اسلام قبول کیا تھا۔
وہ نیم مسلم اور نیم ہندو تہذیب کے زیرسایہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس دوران اس علاقے میں شدھی تحریک شروع ہوئی، جس کا مقصد مسلمانوں کو ہندو بنانا تھا، جبکہ اسی دوران انگریز بھی مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوششیں کرنے لگے۔ ان کوششوں سے بعض مسلمان ارتداد کا راستہ بھی اپنا چکے تھے۔ بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس رحمہ اللہ نے مسلمانوں کے ایمان کا خطرہ محسوس کیا اور مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپور سے اپنا درس و تدریس کا کام چھوڑ کر مسلمانوں کی اصلاح کا کام شروع کیا۔ وہ میوات کے مسلمانوں کی اصلاح کے کام میں مصروف ہوگئے۔
اس جماعت نے حیرت انگیز طور پر اصلاحی کام کیے ہیں۔ بہت سے دین سے دور مسلمانوں کو اس نے دینی مزاج عطا کیا ہے اور ان کی اصلاح کی۔ تبلیغی جماعت پوری دنیا میں راہ راست سے بھٹکے مسلمانوں کو دین مستقیم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تبلیغ کرتی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس اصلاحی جماعت کے کام سے متاثر ہو کر سیدھے راستے پر چلنے والے افراد کی تعداد کا شمار آسان نہیں ہے، ان میں شوبز، سپورٹس، بزنس، سیاست سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کی ایک بڑی تعداد بھی ہے۔ تبلیغی جماعت کسی نئے نظریہ یا کسی نئے مقصد کی داعی نہیں، بلکہ صرف اپنی اور امت کی اصلاح کے لیے محنت اور قربانی کی دعوت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری تنظیموں اور انجمنوں کی طرح اس تحریک کا کوئی دستور یا منشور نہیں۔ کوئی دفتر یا رجسٹر نہیں اور نہ ہی کوئی ممبر یا عہدیدار ہے۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی جداگانہ نام تک نہ رکھا گیا۔ اس اصلاحی جماعت کے بانی مولانا الیاس رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ یہ نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ ہم نے نہیں رکھا۔ ہم تو بس کام کرنا چاہتے تھے، اس کا کوئی خاص نام رکھنے کی ضرورت بھی نہ سمجھی تھی۔ لوگ کام کرنے والوں کو تبلیغی جماعت کہنے لگے، پھر یہ اتنا مشہور ہوا کہ ہم خود بھی کہنے لگے۔‘‘
آج تبلیغی جماعت اپنی نمایاں خصوصیات اور منفرد اوصاف کی وجہ سے پوری دنیا میں امتیازی حیثیت سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ دنیا کے ۲۱۰ سے زاید ممالک میں یہ کام انجام پارہا ہے۔ ۳۰ ملین سے زیادہ افراد دنیا بھر میں اس سے وابستہ ہیں۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش اس کے سب سے بڑا مراکز ہیں۔ اس جماعت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فنڈنگ اور چندہ کا کوئی نظام نہیں۔ نشر و اشاعت کا کوئی محکمہ نہیں۔ انہیں اخبارات اور ٹیلی ویژن کی زینت بننا کا کوئی شوق نہیں۔ ان کے خلاف دنیا میں کسی بھی پولیس اسٹیشن میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہے۔ کسی طرح کے تشدد اور منفی سرگرمیوں میں یہ جماعت حصہ نہیں لیتی۔ پوری دنیا کے کسی بھی ملک نے آج تک ان پر تشددآمیز سرگرمیوں کا الزام نہیں لگایا۔ ملکی قوانین کو سر آنکھوں سے لگا کر یہ جماعت اپنے کاموں کو انجام دیتی ہے۔ ان کے خلاف جو بولتے ہیں، یہ جماعت انہیں بھی کوئی جواب نہیں دیتی ہے۔ محبت و الفت کے ساتھ یہ دعوت و تبلیغ کرتے ہیں۔ سادگی اور انسانیت نوازی اس کی فطرت میں شامل ہے۔
یہ مکمل طور پر غیرسیاسی اور قانون کی پابند جماعت ہے۔ اس جماعت پر بارہا پابندی عاید کرنے کی کوشش بھی کی گئی، لیکن اس خیال کے حاملین کو ایسا کوئی موقع نہیں مل سکا۔ تبلیغی جماعت کے طریقہ کار اور ان کے نصاب میں ایسا کوئی پوائنٹ انہیں نظر نہیں آیا جسے بہانہ بنا کر ان پر پابندیاں عاید کرتے۔ اس جماعت کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے کہ اس نے حکومت سے ٹکرانے کی کوشش کی ہو اور نہ ہی کبھی اس جماعت پر دہشت گردی کی معاونت کرنے کا الزام لگایا گیا۔ یہ ایک مکمل پر امن تحریک ہے اور ہمیشہ تشدد کی مخالفت کرتی آئی ہے۔
کوئی ایسا کیس بھی ابھی تک سامنے نہیں آیا کہ اس جماعت نے کبھی قانون کی خلاف ورزی کی ہو یا کسی بھی مذہب یا مسلک کو اس طرز عمل سے کوئی ٹھیس پہنچی ہو۔ فرقہ واریت کو ختم کرنا ان کے منشور میں شامل ہے۔ یہ لوگ تمام مسالک کی مساجد میں جاتے ہیں۔ تمام فرقوں کے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں اور تمام مسالک کے لوگوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ جب تک ہم مسلمان نبی علیہ السلام کے دیے گئے روشن اصولوں پر نہیں چلیں گے، اس وقت تک دنیا میں ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تبلیغی جماعت فرقہ واریت کے خلاف اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے، جس پر تمام مسالک و فرقوں کے لوگ اپنے اپنے مسالک کے مفادات کو پس پشت ڈال کر صرف سچا مسلمان بننے کی کوشش کریں تو بہت جلد ملک سے فرقہ واریات ختم ہوسکتی ہے۔
انسانوں کا بنایا ہوا کوئی بھی نظام مکمل طور پر خامی سے پاک نہیں ہوتا۔ ضرور کہیں نہ کہیں کوئی خامی رہ ہی جاتی ہے، چاہے کتنے ہی اخلاص سے کام شروع کیا جائے۔خامیاں کسی میں بھی ہوں، نشاندہی کرنے پر دور ہوسکتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ انسان خامیوں کو دور کر کے بہتری کا سفر جاری رکھتا ہے۔ تبلیغی جماعت کا نظام بھی لوگوں کی اصلاح کے لیے اخلاص کے ساتھ بنایا گیا ایک نظام ہے، جس میں یقیناً کئی خامیاں ہوں گی، لیکن اس کی چند خامیوں کی وجہ سے مجموعی طور پر اس کی خدمات کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو کسی کی ایک خامی کی وجہ سے اس کی ننانوے خوبیوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ خصوصاً یہ معاملہ جب مذہبی معاملات میں ہو تو اور بھی سنگین ہوجاتا ہے، کیونکہ مذہب کے نام پر کام کرنے والی تمام مسالک اور فرقوں کی جماعتوں اور افراد کو تو ایک دوسرے کی دینی خدمات کی تعریف کرنی چاہیے۔ کسی بھی مسلک کے لوگ دین کے لیے بہتر انداز میں کام کر رہے ہوں، ان پر انگلی اٹھانے کے بجائے، ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، تا کہ وہ مزید بہتر انداز میں کام کرسکیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ تمام مسالک کے لوگ اسی کوشش میں مصروف ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے مسلک میں شامل ہوجائیں، لیکن یہ فکر کوئی نہیں کرتا کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ دین اسلام میں شامل ہوجائیں اور جو پہلے سے اسلام میں داخل ہیں، وہ مکمل طور پر دین اسلام کے روشن اصولوں پر عمل کرنے والے بن جائیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں