حکیم نازش احتشام اعظمی
رجب المرجب اسلامی سال کاساتواں مہینہ ہے۔اللہ رب العزت نے سال کے بارہ مہینوں میں مختلف دنوں اور راتوں کی خاص اہمیت وفضیلت بیان کر کے ان کی خاص خاص برکات وخصوصیات بیان فرمائی ہیں، قرآن حکیم میں ارشادباری تعالیٰ ہے ۔”بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اورزمین بنائے ان میں سے چارحرمت والے ہیں ،یہ سیدھا دین ہے توان مہینوں میں اپنی جا ن پرظلم نہ کرواورمشرکوں سے ہر وقت لڑو جیساوہ تم سے ہروقت لڑتے ہیںاورجان لوکہ اللہ پاک پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔(سورة التوبہ پارہ 10آیت نمبر36)
تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسی ماہ مبارک میں واقعہ معراج پیش کی اآنے کی وجہ سے اس کی حرمت و توقیر میں کوئی اضافہ ہوگیا ہے۔اس لئے کہ اشہر محرمات عربوں کے ہاں زمانہ جاہلیت سے ہی قابل احترام رہا ہے۔اس کے برعکس اگر معراج مصطفوی کی وجہ سے ماہ رجب کی اور خاص طور پر ستائیسویں تاریخ اللہ کی قربت یا حصول رحمت و مغفرت کا سبب ہوتا تو خیر کی طرف دوڑنے والوں میں ہم سے زیادہ صحابہ کرام زودرو اور فائق تھے، بھلا اصحاب اس خیر سے کیسے محروم رہ جاتے۔ معراج کی صحیح تاریخ کیا ہے اورسنت نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے اس شب کوئی فضیلت بھی ہے منقول ہے یا نہیں اس کی مدلل تفصیل مندرجہ ذیل سطور میں آرہی ہے۔ البتہ اس سفر ِمعراج میں محبوب خداصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو پنجگانہ نماز کا جو تحفہ عطا کیا گیا اور جس کے بغیر کامل مومن ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، اس عظیم تحفہ کا ہمارے یہاں کیا حشر ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یقینا معراج سرورکائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ایک معجزاتی سفر تھا اور اس کے ذریعےخلاق دوعالم کو اپنے مومن بندوں کے لیے نماز کا خاص تحفہ بھیجنا مقصود تھا ،لہذا اللہ کی جانب سے یہ معجزہ رونما ہوا۔قرآن کریم خود اس پر شاہد عدل ہے۔
بیشک اسراء ومعراج اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نشانیوں میں سے ہے جو رسول اللہ ﷺ کی صداقت اور اللہ کے نزدیک ان کے بلند مرتبے کی دلیل ہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کی واضح قدرت اور تمام مخلوقات پر اس کی بڑائی کی بھی دلیل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((سُبْحٰنَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَا مِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْأَقْصٰی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ ئٰ ایٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ)) [الاسرا]
’’پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیاجس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے،اس لئے کہ ہم اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں ،یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔‘‘
نبی کریمﷺسے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ ان کو معراج کروایا گیا اور ان کے لئے سارے آسمانوں کے دروازے کھول دئیے گئے، حتی کہ رسول اللہ ﷺ ساتویں آسمان کو بھی عبور فرما گئے ۔جہاں اللہ تعالیٰ نے ان سے جو چاہا گفتگو کی اور ان پر پچاس نمازیں فرض کیں ۔نبی کریمﷺ مسلسل مراجعہ کرتے رہے اوراللہ تعالیٰ سے تخفیف کا سوال کرتے رہے ،حتی کہ پانچ نمازیں کر دی گئیں۔اب ادائیگی میں پانچ نمازیں فرض ہیں، لیکن اجر پچاس نمازوں کا ہی ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر نیکی کا اجر دس گنا زیادہ کر کے دیتے ہیں جو ہم پر اللہ کا احسان اور کرم ہے۔فللّٰہ الحمد۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس رات نبی کریمﷺ کو معراج کروایا گیا اس رات کی تعیین کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔اور اس رات کی تعیین کے سلسلے میں جو کچھ بھی وارد ہے، اہل علم بالحدیث کے نزدیک وہ نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں ہے۔اس رات کو بھلا دینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت ہے۔اور اگر اس رات کی تعیین ثابت بھی ہو جائے تو تب بھی مسلمانوں کے لئے اس رات میں کوئی خاص عبادت کرنا یا محافل منعقد کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ محافل منعقد کرنا اگر کوئی شرعی امر ہوتا تو نبی کریم ﷺ اپنی امت کے لئے قول یا فعل سے ضرور اس کو بیان فرما دیتے اور صحابہ کرام اس عمل کو ہم تک ضرور نقل کرتے۔کیونکہ صحابہ کرام نے نبی کریمﷺ سے ہر اس چیز کو بحفظ وامان ہم تک پہنچا دیا ہے جس کی امت محتاج تھی اور اس سلسلے میں انہوں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔بلکہ وہ خیر میں سبقت لے جانیوالے تھے اگر اس رات کو محافل منعقد کرنا مشروع ہوتا تو صحابہ کرام سب سے پہلے اس کام کو کرتے۔
اس سلسلے میں ایک استفتا کا جواب دیتے ہوئے جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن ، پاکستان کے مفتیان کرام کا فتویٰ شب معراج میں ہونے والی رسوم سے بچنے کی مدلل تاکید کرتا ہے، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
”ستائیس رجب کی شب کے بارے میں عوام میں یہ مشہور ہوگیا ہے کہ یہ شبِ معراج ہے ،سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ۲۷ رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہاجاسکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے،کیوں کہ اس بارے میں مختلف روایتیں ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب کا اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا کہ کون سی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی ، جس میں آں حضرت ﷺ معراج پر تشریف لے گئے ،اس سے آپ خود اندازہ کرلیں کہ اگر شبِ معراج بھی کوئی مخصوص رات ہوتی اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، لیکن چوں کہ شبِ معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ۲۷ رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ یہ واقعہ معراج ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں پیش آیا ، اس واقعہ کے بعد تقریباً 12 سال تک آپ ﷺ دنیا میں تشریف فرمارہے ،لیکن اس دوران یہ کہیں ثابت نہیں کہ آپ ﷺ نے شبِ معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو ، یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو ، یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شبِ قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے، نہ توآپ ﷺ کا ایسا کوئی ارشاد ثابت ہے، اور نہ آپ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خود حضور ﷺ جاگے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی، اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا”۔
اتنا ہی ، بلکہ سرکار دو عالم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں موجود رہے ،اس پوری صدی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ۲۷ رجب کو خاص اہتمام کرکے نہیں منایا ، لہذا جو چیز حضورِ اقدس ﷺ نے نہیں کی، اور جوآپ کے صحابہ کرام نے نہیں کی ، اس کو دین کا حصہ قرار دینا ، یا اس کو سنت قرار دینا ، یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے اوراس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور نماز کی شکل جو عظیم الشان تحفہ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذریعے مومن بندوں کے لیے بھیجا ہے ،اس کی زندگی کے مرحلے اور ہر حال میں پاسداری کرنی چاہئے۔
الصلوۃ معراج المؤمن: نماز مومن کی معراج ہے۔ کسی شاعر نے اس کی ہمیت کیا خوب بتائی ہے:
روزمحشر کہ جاں گدازبود
اولیں پرشش نماز بود
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں