پیغامِ معراج‎!

0
680
All kind of website designing

تسنیم فرزانہ ، بنگلور

اخترِ  شام  سے  آتی  ہے     فلک     سے  آواز
سجدہ کرتی ہے سحر جس کو وہ ہے آج کی رات
رہِ    یک    گام     ہے ہمت کے لئے عرش  بریں
کہہ  رہی    ہے     یہ   مسلماں سے معراج کی رات

قارئین کرام! اسلامی تاریخ میں دو راتیں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں، پہلی رات تو وہ ہے جس میں اللہ سبحان تعالیٰ نے نوع انسانی کے لئے وہ روشن ہدایت نامہ عطا فرمایا جو صدیوں سے باطل کی تاریکیوں میں نورِ حق پھیلا رہا ہے اور قیامت تک پھیلاتا رہے گا وہ رات ہے لیلۃ القدر اس رات کی قدر و قیمت سب کو پتا ہے ہر مسلمان اس کی سعادتوں کو حاصل کرنے کی تگ و دو کرتا ہے، اس رات میں نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن کا نزول شروع ہوا ۔
دوسری رات جو تاریخ اسلام میں اہمیت رکھتی ہے وہ شب معراج ہے۔یہ رات ہمارے لئے کیا پیغام لائی ہے اور اس رات میں انسانیت کی تعمیر کے لئے کتنا عظیم کارنامہ انجام پایا ہے اس سے بہت کم واقفیت ہے۔
جس وقت واقعہ معراج پیش آیا تب مکہ میں دین حق کی دعوت و تبلیغ کو شروع ہوئے بارہ سال گزر چکے تھے کفار مکہ کی مخالفت اور ظلم و ستم عروج پر تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آوازِ حق عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی، ہر قبیلے کے دو چار افراد دعوتِ حق قبول کئے ہوئے تھے، مکہ میں بھی حق پرستوں کی ایک مختصر جماعت موجود تھی، مدینہ میں دو طاقتور قبائل اوس اور خزرج کی اکثریت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر لبیک کہہ چکی تھی۔
اب وہ وقت آ چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تمام مسلمانوں کو ایک جگہ سمیٹ لیں اور ان اصولوں کی بنیاد پر ایک ریاست قائم کریں جن کی آپ اب تک تبلیغ کرتے رہے تھے۔یہی وہ موقع تھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج کا سفر پیش آیا۔
معراج صرف سیر یا مشاہدے کا نام نہیں بلکہ یہ ایسے موقع پر ہوتی ہے جب کہ پیغمبر کو کسی کارِ خاص پر مقرر کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے اور اہم ہدایات دی جاتی ہیں.
سفرِ معراج میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو جومشاہدے کروائے گئے اور جو تحفے دئے گئے ان کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ جل شانہ نے اس سفر سے واپسی کے بعد جو پیغام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے امت مسلمہ کو دیا وہ قرآن مجید کی سترہویں سورۃ بنی اسرائیل میں لفظ بہ لفظ محفوظ ہے۔
اس وقت کے تاریخی پس منظر کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے بغور مطالعہ کریں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے اصولوں پر ایک نئی ریاست کا سنگ بنیاد رکھنے سے پہلے وہ ہدایات دی جا رہی ہیں جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور اصحاب نبی کریم کو کام کرنا تھا.
مسلمانوں کو بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی جا رہی ہے کہ کس طرح بنی اسرائیل نے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے کفران نعمت کیا اور زمین میں اصلاح کرنے والے بننے کے بجائے مفسد و سرکش بن گئے، نتیجتاً اللہ نے ان کو پامال کر دیا اور ان پر رومیوں کو مسلط کر دیا۔
بنی اسرائیل کی تاریخ کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر تمہیں صراطِ مستقیم تلاش کرنا ہو تو صرف کتاب اللہ میں ڈھونڈو، اس کی پیروی میں کام کرو گے تو تمہارے لیے بڑے انعام کی بشارت ہے۔
دوسری اہم حقیقت جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ کہ ہر انسان اپنے عمل کا آپ ذمہ دار ہے نیکی کی راہ پر چلے گا تو خود اپنا بھلا کرے گا، بدی اپنائے گا تو خود خسارے میں رہے گا، کوئی کسی کا بار نہیں اٹھائے گا۔
تیسری بات جس پر انسانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ معاشرے کے بڑے لوگ یعنی صاحب اقتدار افراد میں جب بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو وہ ظلم و ستم، بدکاری اور شرارت پر اتر آتے ہیں تب اس قوم کی شامت آنا یقینی ہے اور یہ فتنہ پوری قوم کو تباہی کے سمندر میں ڈبو دیتا ہے، اسی لئے ہر خاص و عام کو اس بات کی فکر رہے کہ سیاسی اقتدار اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بد اخلاق لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جائیں،۔
پھر مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی گئی جو قرآن میں بار بار دہرائی جاتی ہے کہ اگر تم دنیا کی لذتیں، کامیابیاں اور خوشحالی چاہتے ہو تو تمہیں مل سکتی ہیں مگر اس کا انجام برا ہے، مستقل و پائیدار کامیابی کے لئے آخرت اور اس کی باز پرس کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی بسر کی جائے.
ان تمہیدی نصیحتوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے وہ چودہ (14)بڑے بڑے اصول بیان کئے جن پر آئندہ چل کر مدینے کی اسلامی ریاست اور معاشرے کی تعمیر ہوئی تھی، یہ اصول ہمیں سورہء بنی اسرائیل کے رکوع نمبر تین اور چار میں ملتے ہیں-
1.. صرف اللہ کی بندگی کی جائے، اقتدار اعلیٰ میں اس کے ساتھ کسی کی شرکت نہ تسلیم کی جائے.
2..تمدن میں خاندان کی اہمیت ملحوظ رکھی جائے، اولاد والدین کی فرمانبردار و خدمت گزار ہو، رشتے دار ایک دوسرے کے ہمدرد و مدد گار ہوں-
3.. سوسائٹی میں جو افراد غریب یا معذور ہوں یا اپنے وطن سے دور مدد کے محتاج ہوں وہ بے وسیلہ نہ چھوڑے جائیں-
4..دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے، جو اپنی دولت کو برے طریقے سے خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں-
5.. لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں، نہ بخل کر کے دولت کو روکیں، نہ اسراف کر کے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے مشکلات پیدا کریں-
6..رزق کی تقسیم کا قدرتی انتظام، جو اللہ تعالیٰ نے کیا ہے انسان اس میں اپنے طریقے سے خلل نہ ڈالے، خدا اپنے انتظام کی مصلحتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے-
7..معاشی مشکلات کے خوف سے اپنی افزائش نسل کو نہ روکیں، اللہ تعالیٰ موجودہ نسلوں کا اور آنے والی نسلوں کے رزق کا انتظام کرنے والا ہے-
8.. خواہش نفس کو پورا کرنے کے لئے زنا کا راستہ برا راستہ ہے لہٰذا نہ صرف زنا سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کے قریب جانے والے اسباب کا دروازہ بھی بند ہونا چاہیے۔
9.. انسانی جان کی حرمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ ہے، لہذا خدا کے مقرر کردہ قانون کے سوا کسی دوسری بنیاد پر آدمی کا خون نہ بہایا جائے، نہ کوئی اپنی جان لے اور نہ دوسرے کی جان لے-
10.. یتیموں کے مال کی حفاظت کی جائے، جب تک وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوں-
11..عہد و پیماں کو پورا کیا جائے، انسان اپنے معاہدات کے لئے خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔
12.. ناپ تول ٹھیک راستی پر ہوں اوزان و پیمانے صحیح رکھے جائیں۔
13.. جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اسکی پیروی نہ کرو، وہم و گمان پر نہ چلو کیوں کہ آدمی کو اپنی تمام قوتوں کے متعلق خدا کے سامنے جوابدہ ہونا ہے کہ انہیں کس طرح استعمال کیا۔
14.. نخوت اور تکبر کے ساتھ زمین پر نہ چلو، غرور کی چال سے نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہو۔
یہ چودہ اصول جو معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دئے گئے تھے ان کی حیثیت صرف اخلاقی تعلیمات ہی نہ تھیں بلکہ یہ ایک مینی فیسٹو تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم ان اصولوں پر تمدن کا نظام قائم کریں گے اور یہ ہدایات اس وقت دی گئی تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تحریک عنقریب تبلیغ کے مرحلے سے گزر کر حکومت و سیاسی مرحلے میں قدم رکھنے والی تھی۔ اللہ جل شانہ نے ان اصولوں کے ذریعے معراج کا پیغام بنی نوع انسانی کو دیا، اس کو گہرائی سے جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے، اپنی زندگیوں اور معاشرے میں ان کو نافذ کرنے کی سعی و جہد بھی ہونی چاہیے۔آئیے..! معراج کے تحفے.. ہم نماز کے ذریعے ہر روز پانچ مرتبہ ذہن میں یہ بات تازہ کر لیں کہ ہم خود مختار نہیں ہیں بلکہ ہمارا حاکم اعلیٰ اللہ ہے جس کے سامنے ہمیں اپنے کام کا حساب دینا ہے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here