رام جنم بھومی تحریک : ایک خطرناک سازش

0
1280
All kind of website designing

سوامی اگنی ویش کی تحریر سے ملخص

مسٹر ایل کے ایڈوانی کو ۷ء۲؍ایکڑ اراضی کے بدلے مسجد کے قریب ۶۰؍ایکڑ زمین دینے کی بات کی گئی لیکن مسٹر ایڈوانی کی سازشی چال بس یہ تھی کہ مندر وہیں بنائیں گے جہاں بابری مسجد ہے۔ جسٹس کرشنا ایئر، بی جی درگیز اور میں (سوامی اگنیویش) نے چندر شیکھر کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی۔ جب مسئلہ حل کے قریب پہنچا تو راجیو گاندھی اور ان کے رفقا کو احساس ہوا کہ سارا کریڈٹ وزیراعظم چندر شیکھر کو مل جائے گا، جس کی وجہ سے راجیو گاندھی نے چندر شیکھر حکومت کو گرانے کا فیصلہ کیا اور ان کی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔ جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو وہ اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے تھے تاکہ لڑائی جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور کسی کو ہندو مسلمانوں میں تنازع کھڑا کرنے یا نفرت پھیلانے کا موقع نہ ملے۔ سید شہاب الدین جو بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر تھے، میں مسلسل ان سے رابطے میں تھا۔ سبھی امن کے خواہشمند تھے کہ مسئلہ حل ہو جائے اور پھر کسی دوسری مسجد یا عبادت گاہ پر ظالموں کی نظر نہ ہو۔ وہ سب اس کا باعزت اور آبرو مندانہ تصفیہ چاہتے تھے۔ وہ لوگ خوش دلی سے کہتے تھے کہ عدالت کو فیصلہ کرنے دیجیے۔

یہ افسوسناک بات ہے کہ عدالت نے حق و انصاف کا فریضہ جیسے ادا کرنا چاہیے تھا نہیں کیا۔ میری فکرمندی اس بات پر تھی کہ عوام کی خوش عقیدگی اور سادگی کا استحصال نہ ہو۔ ایسے لوگوں کے ذریعے جو ویدک عقیدے کی روحانیت اور عظمت کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے۔ میں ایک مخلص عقیدت مند ہونے کی وجہ سے دھوکا دہی اور تشدد کی بات محسوس کرتا ہوں۔ میں نے اس معاملے میں عرق ریزی کے ساتھ تحقیق کی ہے اور شواہد بھی جمع کیے۔ اس کی روشنی میں اچھی طرح سے کہہ سکتا ہوں کہ آر ایس ایس اور وی ایچ پی کا دعویٰ کسی طرح بھی صحیح (Justified) نہیں ہے۔ میں نے صاف ذہنیت کے ساتھ اس کی چھان بین کی ہے۔ تلسی داس اس وقت کے سب سے بڑے رام بھگت تھے، جس کے زمانے (۱۵۲۸ء) میں میر باقی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رام مندر کو گرا کر بابری مسجد کی تعمیر کی۔ تلسی داس نے بھی اپنی کسی کتاب میں اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ نہ ہی گرو گوبند سنگھ، سوامی ویویکا نند، شیواجی نے اس کا کہیں ذکر کیا ہے کہ سرجوندی کے کنارے رام پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے نام پر مندر بنا ہوا تھا۔ کسی بھی کتاب یا اسکرپٹ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، جس کی وجہ سے جارحیت کی اس تحریک کا کوئی ثبوت ہو۔ یہ کہنا کہ یہ ایک عقیدے (Faith) کی بات ہے کسی طرح بھی حق پسندی نہیں ہے نہ کوئی دلیل اور انصاف کی بات ہے۔

جو چیز میرے لیے بے حد تکلیف دہ ہے وہ اس کا فرقہ وارانہ ایجنڈا ہے، جو نہایت غلط اور نقصان دہ ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ رام بھگوان تھے اور بھگوان نِرادھار یعنی جس کی کوئی شکل (Formless) نہیں ہوتی تو آخر جو نِرادھار ہو اس کی جائے پیدائش یا جنم بھومی کی نشاندہی کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہ انسان کی عقل و دانش کی سراسر توہین ہے کہ خدا کی شکل و صورت کا کوئی اپنے انداز سے تعین کرے۔ میرے لیے یہ انتہائی دکھ اور تکلیف کا سبب ہے کہ بہتوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔ نفرت اور فرقہ پرستی کا زہر گھولا جارہا ہے۔ رام کے نام پر یہ سب غلط کام کا پرچار ہو رہا ہے۔ گاندھی جی ایک راسخ العقیدہ ہندو تھے۔ جب وہ قتل کیے گئے تو ان کی زبان پر رام کا نام تھا ’’جے رام‘‘۔ ان کی عقیدت مندی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کبھی رام مندر کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ خدا صرف مندر میں نہیں رہتا بلکہ ہر جگہ رہتا ہے۔ وہ ایک سچے مذہبی انسان کی حیثیت سے کہتے تھے کہ خدا کسی مسجد، مندر یا چرچ میں مقید نہیں ہوتا۔ گاندھی جی نے شاید ہی کبھی کسی مندر میں وقت گزارا ہو۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مندروں میں صفائی ستھرائی نہیں ہوتی ہے۔

اسلام اور عیسائیت سے بالکل الگ ہندو مت ایک خاندانی روحانیت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ میں جانتا ہوں کہ خدا پروہتوں اور پنڈتوں کا جانبدار نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ہمارا گھر بھی مندر ہے۔ یہ سب اس وقت ہوا جب بڑی ذات کے لوگوں نے دھرم کو اُچک لیا اور اپنے مفاد کے لیے اس کا استعمال جائز کرلیا۔ اس وقت سے سناتن دھرم پنڈتوں اور پروہتوں کے قبضے میں آگیا۔ حقیقت خرافات میں کھو گئی۔ توہم پرستی، استحصال اور فریب اور دھوکا دہی کا سلسلہ شروع ہوا۔ آج ہماری یہی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ اس پر ہم منہ نہیں کھولتے، زبان بند رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سرحد پار کے لوگوں سے مغلوب ہوئے۔ مغل بادشاہوں اور پھر انگریز تاجروں نے ہمیں اپنے بس میں کرلیا۔ سناتن دھرم کے لوگ کبھی ترقی نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ توہم پرستی اور بے عقلی کے خول سے باہر نہیں آتے۔ رام جنم بھومی میں رجعت پسندی سے بے عقلی اور فرقہ پرستی کی طرف ایک بڑھتا ہوا قدم اور مارچ ہے۔ یہ ایک جنگ ہے جو سستی شہرت اور اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔ وہ لوگ جو عقیدۂ دید سے ناواقف ہیں وہی اسے ہندو مت کی ترقی کہہ سکتے ہیں اور اس کے لیے لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ میں اس عقیدے کو اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ اس سے میری محبت ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اس گمراہی اور ضلالت کو کسی طرح بھی قبول نہیں کرسکتا۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here