میم ضاد فضلی
کانگریس پاٹی سے کشن گنج کے ایم پی اور معروف ملی رہنما مولانا اسر ارالحق قاسمی اورمولانا بدرالدین اجمل قاسمی ا ن دنوں تنقید اور بحث کاموضوع بنے ہوئے ہیں ، 28 دسمبر2017 کو لو ک سبھا میں طلاق ثلاثہ بل پر بحث کے دوران مولانا اسرارلحق قاسمی نے ملت اسلامیہ ہند کے عائلی قانون مسلم پرسنل لاء یعنی مذہب کے تحفظ پر اپنی پارٹی کی گائڈ لائن کو ترجیح دی تھی ،اس کا واضح مطلب جو میں سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ مولانا کیلئے پارلیمنٹ میں اپنے دین سے زیادہ پارٹی کے احکامات پرعمل کرنا ضروری تھا۔ایک خبر میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہیں کانگریس سے بولنے کی اجازت نہیں ملی تھی دوسری جانب جب ترمیم کیلئے ووٹنگ شروع ہوئی تو اس وقت حضرت والاپارلیمنٹ سے تشریف جاچکے تھے۔ ہائے افسوس کے ملت دوستی کی دکان چلانے والے دیگر مسلم ممبران پارلیمنٹ نے بھی جناب اسد الد ین اویسی کا ساتھ نہیں دیا۔جب کبھی میں ایسے گندے عناصر پر نگاہ ڈالتا ہوں تو بے ساختہ میرادھیان 6دسمبر 1992کی اس سیاہ تاریخ پر چلا جاتا ہے جب بھگوا بریگیڈ نے ملک کی صدیوں پرانی شناخت اور امتیازی تمدن کو ترشول کی انیوں پر اٹھا کر شہید بابری مسجد کے ملبے میں پھینک دیاتھا اور جہنم رسید نرسمہا راؤ کی بے غیرت کابینہ کی سردمہری اورانصاف دشمنی نے سارے عالم میں ہندوستانی جمہوریت کو شر مسا ر کیا تھا۔جب ایودھیا میں بابری مسجد منہدم کی گئی تھی اس وقت مرکز میں کانگریس بر سر اقتدار تھی اور کانگریس کے اندر موجود سردار ولبھ بھائی پٹیل کی نسل کافی طاقتور پوزیشن میں تھی اورانہیں میں سے اہم شخصیت نرسمہا راؤ کی بھی تھی جو ملک کے وزیر اعظم تھے۔وہ سرکار1991کے عام انتخابات کے بعد تشکیل دی گئی تھی ۔قابل ذکر ہے کہ اس عام انتخاب میں25مسلم امیدوار بھی منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں آئے تھے۔اس وقت ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں مسلم ممبران کی تعداد کیا تھی اس کے اعداد شمار علیحدہ ہیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں بھی کچھ ملی بہی خواہوں اور مظلوم ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے نام نہاد سیاسی نمائندوں سے اجتماعی استعفی دیدینے کی گہا ر لگا ئی تھی۔مگر ہم نے دیکھا ہے کہ یہ عناصر اس زمانے میں بھی مذہبی اور ملی مفاد پر اپنے ذاتی مفادات کی روٹی سینک رہے تھے،بلکہ اخبار ات میں اس قسم کی خبریں اور مضامین بھی پڑھنے کو ملے تھے کہ سنگھ نے اس سیاہ تاریخ کو رقم کرنے کیلئے جو سیاہی حاصل کی تھی اس میں ہمارے انہیں نام نہادمسلم سیاسی نمائندو اور ملی تنظیموں کے وڈیروں کے بکے ہوئے ضمیرکے برادے شامل تھے۔بعضوں نے یہ لکھا ہے اور بجا لکھا ہے کہ ’’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔ہمارے قافلے کو لوٹنے والوں میں ہمیشہ باہر کے ڈکیتوں سے زیادہ اپنے رہے ہیں،جنہیں محاورے کی زبان میں’’آستین کا سانپ ‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ مارِ آستین کس حد تک زہریلے اور خوفناک ہوتے ہیں اس سے ملت اسلامیہ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے۔
بہرحال پارلیمنٹ کے باہر کچھ مسلم اراکین پارلیمنٹ نے بھونکنا شروع کردیا ہے ،آج جب جمعرات کے روز مودی کی کابینہ مسلمانوں کے مذہب کو مسخ کرنے کی ابتداء کررہی تھی اس وقت بھی مسلم اراکین پارلیمنٹ کی تعدادتقریباًتئیس ہے۔شہید بابری مسجد کے ہنگاموں میں مجرمانہ خاموشی کی تاریخ رقم کرنے والے سیاہ کارنامہ پر زبان بند رکھنے والے مسلم رہنماؤں نے آج پھر وہی تاریخ دہرائی کہ اندر خاموش اور ایوان کے باہر چیخ و پکار اوراخبارات میں شورو غوغا۔یہاں یہ خیال رہنا چاہئے کہ یہ لوگ وہی ہیں جنہوں نے گزشتہ 28 دسمبر2017کو پارلیمنٹ میں جب اس بل کوبغیر کسی پیشگی اطلاع کے بغیرلوک سبھا کی میز پر رکھ دیا گیا تھا اور گرما گرم بحث بھی شروع ہوگئی تھی اس وقتمجرمانہ چپی سادھ رکھی تھی۔اب مولانا اسرارالحق قاسمی صاحب فرمارہے ہیں کہ وہ اپنی پارٹی سے راجیہ سبھا میں بل کی مخالفت کرنے کا سخت مطالبہ کریں گے ۔اس لئے کہ لوک سبھا میں انہیں کانگریس پارٹی نے ہی بولنے نہیں دیا تھا اس لئے مجبوراً وہ ایوان زیریں میں شریعت اسلامیہ کے بہیمانہ قتل کا تماشہ دیکھتے رہے۔سوال یہ ہے اب آپ اس ایوان کی بات کیوں کرنے لگے جس کے آپ ممبر ہیں ہی نہیں۔ اور اصولی طور پر آپ کو بولنا تو دور وہاں گھسنے بھی نہیں دیا جائے گا۔پھر آپ بے چین امہ کو بے وقوف بنانے کا نیا بہانہ کیوں تراش رہے ہیں۔آخر آپ کی پارٹی نے اس مسلم دشمن قانون کیخلاف آپ کی زبان ہی کیوں بند کردی تھی ۔ساری دنیا نے پارلیمنٹ میں ہونے والی اس بحث کو اپنے سر کی آ نکھوں سے دیکھا ہے ،جس بل پر خود کانگریس کے ایک سینئر لیڈر ملکارجن کھرگے نے اعتراض جتاتے ہوئے کچھ مشورے بھی دیے ہیں۔یوٹیوب پر ہم نے جتنا سنا ہے اس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اس بل کو پہلے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے۔ادھر کانگریس کی ایک دوسری خاتون رکن پارلیمنٹ سشمیتا دیوی نے بھی بل پر شدید اعتراض جتاتے ہوئے وزیر قانون پر سوالوں کی جھڑی لگادی تھی ۔ان میں سے اہم اعتراضات کو اردو میڈیانے بھی کوڈ کیا ہے۔خبروں کے مطابق آسام سے کانگریس کی رکن پارلیمان سشمیتا دیو ی نے بل کی پرزور انداز میں مخالفت کرتے ہوئے وزیر قانون روی شنکر پر سا د سے کئی سخت سوالات بھی پوچھے۔مخالفت کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں کہاکہ بل میں تین طلاق دینے والوں کیلئے کریمنل ایکٹ کے تحت سزا دینے کی بات کی گئی ہے جو ناقابل قبول ہے۔مسلم ملکوں میں تین طلاق پر پابندی ہے لیکن کہیں بھی اسے کریمنل ایکٹ کے تحت نہیں رکھاگیاہے ،اس بل سے خواتین کے مسائل مزید پیچیدہ ہوں گے۔انہوں نے وزیر قانون سے سوال کیا کہ کس بنیاد پرآپ نے ایک سول معاملہ کو کریمنل ایکٹ بنانے کی حماقت کی ہے۔ سشمیتا دیو ی نے پوچھاکہ سپریم کورٹ نے اس بارے میں بہتر کام کیاہے ،طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد اس پر سز ااور قانون کی ضرورت نہیں ہے ،انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق طلاق نہیں ہوئی گویا میاں بیوی کا رشتہ برقرار ہے ،لیکن یہ قانون شوہر کو تین سالوں کیلئے جیل بھیج دے گا ۔انہوں نے ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ذرا سوچئے ! اگر میرے شوہر کو تین برس کیلئے غیر ضمانتی سزا کے تحت جیل بھیج جائے گا اس وقت مجھ پر کیا گزرے گی ۔انہوں نے کہا کہ یہ کون ساانصاف ہوگا کہ بغیر کسی جرم کے کسی بیوی کے شوہر کو جیل بھیجائے جائے گا۔مگر غرور میں ڈوبی مودی اینڈ کمپنی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوسکتی ۔میں نے مثال کیلئے مذکورہ بالا دونوں کانگریسی ممبران پارلیمنٹ کے بیانات یہاں نقل کئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب ان کانگریسی رہنماؤں کو اس مضحکہ خیز بل پر بولنے کی اجازت حاصل تھی پھر آپ کو کس نے روک رکھا تھا۔لہذا بہانے بازی چھوڑیے اور صاف صاف بتائیے کہ اصل ماجرا کیا تھا۔ادھر این آرسی کی پیچیدگیوں کو سلجھانے کا خوبصورت پینترا دکھا کر مولانا بدرلدین اجمل نے بھی ملت کی آ نکھوں میں دھول جھونکنے ناکام کوشش کی ہے۔مولانا کو یہ وضاحت کرنی چاہئے تھی کہ پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کیلئے ان کی پارٹی کے دونمائندے منتخب کئے گئے ہیں ۔اگر آپ نے شر یعت کی حفاظت سے زیادہ این آر سی کو اہم باور کرلیاتھا تو آپ کے دوسرے رکن پارلیمنٹ کہاں تھے ۔کیا یہ آپ کی اخلاقی ذمہ داری نہیں تھی کہ آپ خود آسام میں ہوتے اوردوسرے رکن جو خود آپ کے بھائی ہی ہیں انہیں ملت کے اس اہم مسئلہ کی نگرانی کیلئے دلی میں چھوڑ دیا ہوتا۔مگر واقعہ یہ ہے کہ ساری تفصیلات سے آپ لوگ بخوبی واقف تھے اور بابری مسجد کی شہادت کے المیہ کی طرح آج بھی ملت کو بیچ منجدھار میں چھوڑدینے کی یہ سازش منصوبہ بند تھی اور آپ لوگوں کو خاموش رہنے کی ہدایات پہلے ہی دی جاچکی تھیں۔میں یہاں این سی پی کے رکن پارلیمنٹ طارق انور،پی ڈی پی کے راکین پارلیمنٹ ،سی پی ایم اور کانگریس کے دوسرے مسلم ممبران پارلیمنٹ کا تذکرہ مناسب نہیں سمجھتااس لئے کہ ان لوگوں کا کردار مسلم مفادات کے تحفظ کے معاملے میں1992سے ہی مشتبہ اور مایوس کن رہا ہے۔
کچھ احباب نے مودی کی اس منصوبہ بند آفت پر موجودہ ملی تنظیموں ،پرسنل لاء بورڈ اور دینی ورفاہی شعبوں میں شامل اداروں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ بعض دانشوروں کا مطالبہ ہے کہ جن شخصیات نے آلام و مصائب کی اس آزمائش میں مفاد ات کا نقاب اوڑھ لیاتھا انہیں ان سبھی دینی وملی تنظیموں سے لاتعلق کردینا چاہئے جن اداروں کی کار کردگی عوامی فلاح و بہبود کی وجہ سے انسانوں کے دلوں میں اہمیت و احترام سے دیکھی جاتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ ان ملی اداروں بالخصوص مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر تنظیموں کی رکنیت سے انہیں کون سی طاقت نکال باہر کرسکتی ہے۔ہمارے ملی اداروں میں عہدوں ہی نہیں بلکہ رکنیت کی تقسیم بھی ’’من ترا قاضی بگویم تو ہم مراحاجی بگو‘‘کی بنیاد پر ہوتا ہے۔کچھ مظلوم تنظیمیں ایسی بھی ہیں جن کے سروے سروا یہ خود ہی ہیں ،ایسے میں انہیں عہدہ برآ کرنے کی جرأت کون کرسکتا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ جو اس قانون کے بنانے کا کلیدی محرک رہاہے وہ اپنی تطہیر کس طرح کرپائے گا یہ ایک پیچیدہ سوال ہے ،جس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ جہاں جوڑ توڑ کی بنیاد پر عہدوں اور مناصب کی بندر بانٹ ہوتی ہو وہاں سے امت کو کسی بھی قسم کے خیر کی توقع رکھنا فضول ہے۔بس اللہ سے ہی رجوع کیجئے وہی ہم سب کا حامی و ناصر اور مالک و مختار ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں