جشن اڈما کے دوسرے سالانہ میلے کے افتتاحی جلسے میں” طبی مخطوطات ،مسائل اور وسائل کی رسم اجرا

0
2050
طبی مخطوطات مسائل اور وسائل کا جرا کرتے ہوئے ڈاکٹر ڈی سی کٹوچ ایڈوائزر ایورویدا منسٹری آف ایوش گورنمنٹ آف انڈیا وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ ایڈوائزر یونانی منسٹری آف ایوش گورنمنٹ آف انڈیااور دیگر طبی شخصیات
All kind of website designing

ڈاکٹر میم ضاد فضلی

نئی دہلی (نیا سویرا لائیو)ہندوستان بھرمیں پھیلی ہوئی یونانی دواساز کمپنیوں کی منظم اور پروقار مشترکہ تنظیم ”اُ ڈما“ یعنی یونانی ڈرگس مینو فیکچرر زایسوسی ایشن کا دوسرا سالانہ جشن بعنوان” جشن اُڈما“ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آدیٹوریم میں واقع وسیع وعریض احاطہ میں شروع ہوچکا ہے۔ طب یونانی کے اس جشن ” اڈما میلہ “ میں بطور خاص عوام ، اساتذۂ طب ، طلبائے طب ، محققین اور اسکالرز کے ساتھ ملک کے ممتاز اطبائے حاذقین کا جمگھٹ لگاہوا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ آسمان طب کے تما م ستارے اور کہکشائیں زمین پر اتر آئی ہیں اور سبھی اپنی اپنی مہارتوں ، طبی حذاقتوں ،بے پناہ صلاحیتوںاور معالجہ کے طویل تجربات کا مشاہدہ کرا رہے ہیں، میلے میں یونانی ،آیور وید ، ہومیو پیتھک اور سدھا کے ساتھ یوگا کی بڑی بڑی صنعتی کمپنیوں نے اپنے اپنے آؤٹ لیٹس اور ہیلتھ کیمپ لگارکھے ہیں، جہاں مریضوں کی طویل قطاریں ہیلتھ کیمپ سے رجوع کررہی ہیں اور فری ہیلتھ چیک اپ کا فائدہ بھی اٹھا رہی ہیں۔
کل ”اوڈما میلہ“ کا افتتاحی اجلا س جامعہ ملیہ اسلا میہ کے انصاری آڈیٹوریم میں منعقد ہوا، جہاں طب و صحت کی عالمی سطح پر معروف ومسلم ہستیاں ڈائس پر جلوہ افروز تھیں۔ افتتاحی جلسہ کا آغاز حبیب بقائی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ، جس کا ترجمہ اردو ،ہندی اور انگریزی زبانوں میں یونانی طریقہ علاج کی مقبولیت کیلئے ہمہ دم کوشاں، طب یونانی کے پہلے جی ایم پی ٹرینی اورقابل اعتماد یونانی دواساز کمپنی ”ناز ہربل “کے مالک حکیم اعجاز احمد اعجازی نے کیا۔ اسی کے ساتھ شیخ الجامعہ محترمہ نجمہ اختر سمیت دیگر طبی محققین کی انجمن اور” اڈما “کے ذمے داروں نے اس خالص طبی میلے کا باضابطہ آغاز کیا۔ اس جلسے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں اور سیا سی لوگوں کی شراکت سے محفوظ اور خالص طبی ماہرین کی شراکت کا مرقع ہے۔
واضح رہے کہ یہ میلہ یونانی مینو فیکچررز ایسوسی ایشن ”UDMA“ کا دوسرا سالانہ جشن ہے جو وزارت آیوش حکومت ہند کے اور ”اڈما“ اشتراک سے منعقد کیا جارہا ہے، جسے عہد ساز بنانے اور کامیابی سے ہم کنار کرانے میں ڈاکٹر محمد خالد اسسٹنٹ ڈرگ کنٹرولر یونانی وزارت صحت وخاندانی بہبود حکومت دہلی ، حکیم نازش احتشام اعظمی میڈیکل آفیسر جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن اور اوڈما کے جنرل سکریٹری حکیم محسن دہلوی اور مفتی شوکت وغیرہم دوماہ سے زائد عرصہ سے شب روز اتھک محنت کررہے تھے۔ حتیٰ کہ میلے کی کامیابی کیلئے طب یونانی کے ان جیالوں نے آرام و راحت کو بھی بھلا دیا تھا ، اپنی راتوں کی نیندیں تج کر دن رات محنت میں لگے رہے ، تب جاکر اس تاریخی میلے کا روشن آغاز ہوا ہے۔ افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اڈما”UDMA“ کے صدر نے مذکورہ چاروں شخصیات کو خراج تحسین پیش کرتے ہو ئے کہا کہ یہ تمام حضرات اس عہد ساز میلے کے انعقاد کا اہم ستون ہیں، جن کی محنت و مشقت اور اخلاص کے بغیر اتنے بڑے میلے کا انعقاد ممکن نہیں تھا۔
اس تاریخی طبی جلسے میں امتیازی شان کے حامل متعدد محققین اور اسکالرز کے ہاتھوں ہند میں طب یونانی کے مرد قلندر حکیم نازش احتشام اعظمی کی مرتب کردہ کتاب ”طبی مخطوطات ،وسائل اور مسائل“ کا اجراء بھی عمل میں آیا۔
یہ ایک مسلمہ تاریخ ہے کہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے طب یونانی کی تجدید نو کا جو بیڑا اٹھایا تھا اسے مامون الرشید نے بیت الحکمة کی شکل میں 830عیسویں میں وجود بخشا اورجس کے درو دیوار آج بھی با قی ہیں اورمسلم بادشاہوں کی عوام دوستی، رعایا پروری کو عصبیت کی عینک سے دیکھنے والوں کیلئے ان کے نقوش عبرت پیش کررہے ہیں ۔ مسلم حکمرانوں کے ذریعہ قائم کئے گئے اس خالص سائنسی اور طبی ادارے نے علاج ومعالجہ کے شعبے میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، اسے دیکھ کر آج بھی مغربی سائنسدانوں اور ماہرین صحت کی آ نکھیں چوندھیا جاتی ہیں۔ مگر یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ انسانی تاریخ کی اتنی عظیم سائنس یونیورسٹی ،اسپتال اور میڈیکل کالج ایسے ہی وجود میں نہیں آ گیا تھا ، اس کےلئے عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے ایک حسین خواب بنے تھے ،جسے ان کے جانشین مامون الرشیدنے شب روز کی محنت شاقہ اور طب و صحت سے والہانہ لگاؤ کی بنیاد پر برسوں محنت و مجاہدہ اور بے دریغ رقم صرف کرکے شرمندہ تعبیر کیا۔ طب یونانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ مامون

طبی مخطوطات ، مسایل ائر وسائل

الرشید نے لگ بھگ دولاکھ دینار کی لاگت سے بیت الحکمة یونیورسٹی قائم کی تھی۔ یہ رقم آج کے حساب سے کئی سوکروڑ ڈالر کے برابر ہے، اس یونیورسٹی کے اندر رسدگاہ، لائبریری، میڈیکل و سائنٹفک لیب برائے متفرق ایجادات و آلات جراحی، علماءئے فن ، فلسفیوں اور سائنسدانوں کی رہائش گاہیں اور دارالترجمہ بنوایاگیا تھا، پھر تحقیق کیلئے یونیورسٹی کو دنیا بھر کی کتب منگوا کے دیں گئیں، ساتھ ہی ہر مسلم و غیر مسلم سبھی کو بیت الحکمة کا نہ صرف یکساں فائدہ اٹھانے کی اجازت دی، بلکہ بلاتعصب ان سب کا خرچ بھی سرکاری خزانے کے ذمے لگا دیا۔
خیال رہے کہ مسلمانوں میں سائنسدان اور حکماء ایسے ہی نہیں پیدا ہوئے تھے، ان پر کروڑوں درہم خرچ کئے گئے تھے، جبھی دیکھتے ہی دیکھتے طب و سائنس میں جندیشاپور، اسکندریہ اور بیت الحکمة جیسی عظیم دانش گاہوں کے ریسرچ سینٹرزعلم و حکمت میں یونانی فلسفے پر بھی چھا گئے تھے۔
حکیم نازش احتشام اعظمی کی کتاب ”طبی مخطوطات ،وسائل اور مسائل“ بھی تاریخ طب کے انہیں تا بناک دور کا قیمتی ورثہ ہے، جس کا اس کتاب میں بھر پور احاطہ کیا گیا ہے۔

علم کی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام علوم کی ابتدا کتبوں ، تراشوں اور مخطوطوں سے ہی ہوئی ہے، یہ اس دور کی بات ہے جب موجودہ طرزکے کاغذ قلم ایجاد نہیں ہوئے تھے اور اسی دور کو پتھر کے زمانے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ طب کا عظیم سرمایہ بھی دنیا کی مختلف اور قدیم ترین زبانوں میں تحریر مخطوطات کی شکل میں جابجا بکھرے پڑے تھے۔ البتہ عربی ،فارسی ،سنسکرت سمیت قدیم اطالوی زبانوں میں یہ مخطوطات زیادہ تھے ،جنہیں جندیشاپور اور بیت الحکمة کے سائنسدانوں نے خلیفہ کے سرمایہ کی بدولت یکجا کیا ۔ مگر ان تمام کوششوں کے باوجود یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا کے دفینوں میں چھپے ہوئے یہ تمام مخطوطات جمع ہوگئے تھے، ان میں سے بہت سارے مخطوطات بیت الحکمة کو ہاتھ نہیں لگ سکے تھے، جو آج تک وقفہ وقفہ سے زمانہ کی گرد سے صاف ہوکر سامنے آ رہی ہیں۔
موجودہ وقت میں طب یونانی کا بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اب جو مخطوطات مل رہے ہیں ان کے پڑھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد دنیا میں انگلیوں پر گنے جانے لائق بھی موجود نہیں ہیں۔ایک طرف فانی ہوچکے اس قدیم رسم الخط کو من وعن پڑھنے اور سمجھنے والے بہت کم ہیں تو دوسری جانب وقت کے ظالم تھپیڑوں کی چوٹ نے ان مخطوطات کے نقطوں اور زیرو زبر کو بھی بے نشان کردیا ہے ،جس کی وجہ سے ان مخطوطات کا بآسانی پڑھ سکنا اور بھی مشکل تر ہوگیا ہے۔ان طبی مخطوطات کے وسائل اور انہیں پڑھنے وسمجھنے میں آنے والی دقتوں سمیت دیگر مسائل کوحکیم نازش احتشام اعظمی نے ترتیب دیا ہے۔
واضح ہوکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم میں یونانی ڈرگس مینوفیکچررس ایسوسی ایشن(یو ڈی ایم اے) کے زیر اہتمام دو روزہ یونانی کانفرنس اور سہ روزہ ہیلتھ میلہ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس دو روزہ سیمینار مین ملک کے تمام یونانی کالجوں کے اساتذہ اور طلبہ شریک ہو رہے ہیں۔ان کے ذریعہ طب یونانی پر پرمغز مقالے پڑھیں جائیںگے اور اس کی اہمیت افادیت پر غور وخوض ہوگا۔ ساتھ ہی سہ روزہ ہیلتھ میلہ میں ملک کی بیشتر دواساز کمپنیاں شرکت کر رہی ہیں جس میں لوگوں کی صحت کی جانچ کے ساتھ ساتھ انہیں مفت دوائیں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
اسی تاریخی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں معروف کالم نگار اورمشہور ومعروف قلم کار حکیم نازش احتشام اعظمی کی مرتب کردہ کتاب’ طبی مخطوطات: مسائل اور وسائل کا اجرا کیا گیا‘۔ حکیم نازش احتشام اعظمی ساو¿تھ دہلی میونسپل کارپوریشن میں یونانی فزیشین ہیں۔ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ طب یونانی کے فروغ کے لئے مختلف سیمینار اور کانفرنس کا بھی اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن کے بینر تلے اہتما م کرواتے رہتے ہیں۔ حکیم نازش احتشام اعظمی اس اہم ترین فاؤنڈیشن کے بانی و جنرل سکیریٹری بھی ہیں،اس کے ساتھ ہی وہ تحقیق و تالیف کے کاموں میں بھی سرگرم ہیں۔تازہ کتاب موصوف کی انہیں محنتوں کا ثمرہ ہے۔
کتاب کے اجراء کے موقع پروفیسر عاصم علی خان ڈائرکٹر جنرل سی سی آر یو ایم ،ڈاکٹر محمد طاہر ایڈوائزر یونانی ،ڈاکٹر محمد خالد اسسٹنٹ ڈرگ کنٹرولر یونانی وزارت صحت اور فلاح و بہبود حکومت دہلی،حامد احمد متولی، ہمدرد لیبارٹریز انڈیا، محسن دہلوی ،سید منیر عظمت ،مقبول احمد، جلیس احمد، محمد طاہر سنا ہر بل بقاعی دواساز کمپنی ناز ہر بل کے مالک اعجاز احمد اعجازی وغیرہ نے بھی شرکت کی اور تمام اسکالرز نے حکیم نازش احتشام اعظمی کی اس مہتم بالشان کوشش کو سراہا اور انہیں دعاؤں سے نوازا۔

 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here