مودی حکومت کی ترجیح کورونا کو نہیں سوال اٹھانے والوں کا منہ بند کرنا، لینسیٹ سمیت عالمی میڈیا نے کھولی دی پول
میم ضاد فضلی
نئی دہلی : معروف میڈیکل جرنل ’لینسیٹ ‘ نے وزیر اعظم کی سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مودی حکومت کی ترجیح کورونا وباکو قابو میں کرنے کی نہیں ہے بلکہ ٹویٹر پر اپنے مخالفین کو ہٹانے کی ہے ۔ اس اداریہ کو لے کر کانگریس نےحکومت پر حملہ کیا ہے۔لینسیٹ کے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے بحران کےدوران تنقید اور کھلےمباحثوں کاگلا گھوٹنے کی جو کوشش کی ہے وہ ناقابل معافی ہے۔اداریہ میں دی انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ اویلیوشن کے اندازوں کا ذکر کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یکم اگست تک کورونا سے دس لاکھ لوگوں کی موت ہو سکتی ہے۔اداریہ میں تحریر ہے کہ اگر ایساہوا تومودی حکومت اس خود کش قومی تباہی کے لئے ذمہ دار ہوگی کیونکہ سپر اسپریڈر ایونٹس کو لے کر انتباہ کرنےکے با وجود مذہبی تقریبات کا انعقاد کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا اور اس کے ساتھ سیاسی ریلیاں بھی کی گئیں ۔اداریہ میں ہندوستان کی ٹیکہ کاری مہم کی بھی تنقید کی گئی ۔ اس میں مشورہ بھی دیا گیا کہ ٹیکہ کاری کو تیزی سےلاگو کیا جانا چاہئے۔اداریہ میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ حکومت کوشفافیت کے ساتھ اعداد و شمار شائع کرنے چاہئے۔اس اداریہ کولے کر کانگریس نےمودی حکومت پر نشانہ سادھا ہے ۔ پارٹی کےجنرل سیکریٹری اور راجستھان کے انچارج اجے ماکن نے لینسیٹ میں شائع اداریہ کا حوالہ دیتےہوئے کہا ہے کہ یہ قدرتی آفت اب خود یعنی مودی حکومت کی بنائی ہوئی آفت کی جانب بڑھ رہی ہے۔جیسا اس میگزین میں تحریر کیا گیا ہے کہ یکم اگست تک دس لاکھ لوگوں کی موت ہو سکتی ہے ،جس کا مطلب ہےکہ اگلے ۸۰ دنوں میں سات لاکھ اموات ہو سکتی ہیں جو انتہائی تشویش کا پہلو ہے۔
اس سے قبل بی بی سی کی صحافی ایرنا الوری نے اپنی اسٹوری میں لکھا ہے کہ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے اپنی ایک حالیہ ہیڈ لائن میں انڈیا میں کورونا وائرس کی شدید لہر کو کچھ ان الفاظ میں سمیٹا: ’مودی نے انڈیا کو لاک ڈاؤن سے نکالا اور پھر کورونا کے بحران میں دھکیل دیا۔‘
آسٹریلیا کے ایک اخبار نے اس کہانی کو دوبارہ کچھ اس انداز سے شائع کیا: ’ناقدین کا کہنا ہے کہ غرور، انتہا سے زیادہ قوم پرستی اور بیوروکریسی کی ناکامی نے مل کر انڈیا میں ایک بحران کو جنم دیا، جہاں ہجوم اور جلسوں کے دلدادہ وزیر اعظم تو مزے میں ہیں ،مگر عوام کا صیحح معنوں میں دم گھٹ رہا ہے۔‘
اگرچہ اس ساری صورتحال میں حکومت تنقید کی زد میں تو ہے ہی۔ اسی کے ساتھ وزیر اعظم مودی کی بھی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے مغربی ممالک سمیت پڑوسی ملکوں سے بھی نریندر مودی پرسخت تنقیدوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
دریں اثنا انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر سے متعلق کہانیاں بین الاقوامی اور سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔لوگ زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ وہ انتہائی نگہداشت والے بیڈز اور علاج کے منتظر ہیں۔ مدد کے طلبگار خاندان ہر چیز کے لیے مشقت کر رہے ہیں۔ آکسیجن سلنڈر سے لے کر ڈاکٹر سے وقت حاصل کرنے تک، اسی طرح کورونا وائرس سے مرنے والوں کے لیے اجتماعی چتاؤں کی تگ دو تک بھی کرنا اس میں شامل ہے۔
دنیا بھر میں انڈیا کے اس بحران کی کوریج اس طرح ہو رہی ہے کہ سارا الزام وزیر اعظم مودی پر عائد کیا جا رہا ہے، جو خود کو ایک ایسے شخص کے طور پر متعارف کراتے ہیں جہ کو ایک بہت اچھے منتظم ہیں اور جو ہر چیز پر نظر رکھتا ہے۔ اور اب اسی شخصیت کے ملک میں یومیہ سب سے زیادہ کورونا وائرس سے عوام متاثر ہو رہی ہے۔خیال رہے کہ میں کورونا وائرس کی جان لیوا وبا کی تباہیوں کے پیش نظر اب عوام بھی حکمرانوں سے سوالات کرتے ہوئے مودی حکومت کی کارکردگی پر کڑی تنقید کررہے ہیں جسے برداشت نہیں کیا جارہا۔
کورونا بحران سے متعلق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین نے مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا تو بھارتی حکومت نے ٹوئٹر کو تنقیدی ٹویٹس ہٹانے کا حکم دے ڈالا۔احکامات ملنے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر کی انتظامیہ نے بھارتی حکومت پر کی جانے والی تنقیدی ٹویٹس ویب سائٹ سے ہٹا دی ہیں۔اس حوالے سے غیر ملکی خبر رساں ادارے نے بھارت کے مقامی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی ٹویٹس جن میں کورونا کی صورتحال کے حوالے سے بھارتی حکومت کی کارکردگی پر تنقید کی گئی ہے، انہیں سنسر کیا یا پھر ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے گزشتہ ہفتے ٹوئٹر کو ہنگامی بنیاد پر احکامات جاری کیے تھے کہ حکومت پر تنقید کرنے والی ٹویٹس فوری طور پر ہٹائی جائیں۔مقامی میڈیا نے کہا ہے کہ حکومت کے ٹوئٹر کو یہ احکامات لیومن ڈیٹا بیس ویب سائٹ پر موجود ہیں جو آن لائن شکایات سے متعلق مواد کا جائزہ لیتی ہے۔حکومت کی سخت پھٹکار اور ہدایات کے بعد اب تک 50سے زیادہ تنقیدی ٹویٹس ہٹالی گئی ہیں، جن میں بھارتی رکن پارلیمان، اداکار، وزراء، فلم میکرز اور صحافیوں کی ٹویٹس بھی شامل ہیں۔علاوہ ازیں ایسی ٹویٹس بھی ہٹائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم نریندر مودی کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا گیا یا پھر جن میں شمشان گھاٹوں اور اسپتالوں کے باہر کورونا مریضوں کی لمبی قطاروں کی تصاویر دکھائی گئی تھیں۔ملک میں روزانہ سامنے آنے والے کورونا کیسز میں اب ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے۔2 مئی اتوار کو 3لاکھ 49ہزار 691نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 2ہزار 767 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ آج صورت حال بھیانک بن چکی ہے۔اب کورونا کے معاملے یومیہ 4لاکھ سے زائدآ رہے ہیںاور چار ہزار سے زیادہ لوگ اپنی قیمتی جانیں گنوا رہے ہیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں