ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
رمضان المبارک میں بہت سے احباب نے زکوٰۃ کے بارے میں سوالات کیے ، _ ان کے چند سوالات اس طرح کے تھے :
* کیا قریبی رشتے دار کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ؟
* کیا شوہر بیوی کو یا بیوی شوہر کو زکوٰۃ دے سکتی ہے؟
* کیا شادی شدہ بیٹی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ؟
* کیا زکوٰۃ مسجد کے مصارف کے لیے دی جاسکتی ہے ؟
* کیا کورونا وبا کے زمانے میں زکوٰۃ کی رقم سے کسی کو آکسیجن سیلنڈر دیا جاسکتا ہے؟
* کیا سیّد خاندان کے کسی فرد کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ؟
* کیا غیر مسلم کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ؟
میں نے حسبِ توفیق ان سوالات کے جوابات دیے ، لیکن ہر بار یہ خیال آیا کہ بیوی ہو یا شوہر ، بیٹی ہو یا رشتے دار ، سیّد ہو یا غریب مسلم ، مسجد ہو یا مدرسہ ، کووِڈ سینٹر ہو یا آکسیجن سینٹر ، ہر موقع پر لوگوں کو زکوٰۃ ہی میں سے ادا کرنے کا خیال کیوں آتا ہے؟
زکوٰۃ سے آگے بڑھ کر دوسرے مال میں سے خرچ کرنے کی ترغیب کیوں نہیں ہوتی؟
قرآن مجید میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی خوب تلقین کی گئی ہے اور اس کے لیے مختلف دل کش تعبیرات استعمال کی گئی ہیں _ ،اس سلسلے میں سورۂ بقرہ کی دو آیتیں پیش ہیں: _
لوگوں کے ایک سوال کا تذکرہ کیا گیا : وہ پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ (يَسۡــئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ) پھر ایک ہی سوال کے دو جوابات دیے گئے _، پہلے بتایا گیا کہ کیا خرچ کرو؟ اس سے پہلے یہ جان لو کہ کس پر خرچ کرو؟ چنانچہ کہا گیا :
قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ فَلِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ (البقرۃ : 215)
” (اے پیغمبر!
) آپ کہیے : جو مال بھی تم خرچ کرو ، اپنے والدین پر ، رشتے داروں پر ، یتیموں پر ، مسکینو ں پر اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہوگا ۔ “
تین آیات کے بعد اسی سوال کو پھر دہرایا گیا تو اس کے جواب میں خرچ کی جانے والی مقدار بیان کی گئی _ کہا گیا :
وَيَسۡــئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الۡعَفۡوَؕ
(البقرۃ :219)
” لوگ پوچھتے ہیں : ہم کیا خرچ کریں ؟ کہو : جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو ۔”
اس سے معلوم ہوا کہ انفاق کے معاملے میں آئیڈیل تو یہ ہے کہ انسان کی ضرورت سے جو کچھ زیادہ ہو اسے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردے ، لیکن جب اسے خرچ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس کی طبیعت کی بھی رعایت کی گئی _ وہ مال محنت سے کماتا ہے ، اس لیے اس سے اس کی محبت ہونا فطری ہے _، وہ مال و دولت سینت سینت کر رکھتا ہے ، کیوں کہ اسے یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر اس نے اِس وقت خرچ کردیا اور دوسروں کو دے دیا تو آئندہ اسے خود ضرورت پڑ سکتی ہے۔ _ اس صورت حال میں اگر وہ کچھ خرچ کرتا ہے تو محض اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں ، اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے مقصد سے اور اس کی محبت میں۔
قرآن مجید میں زکوٰۃ کے صرف آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں ، _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ سلم نے واضح کیا ہے کہ اس کا نصاب (سونے اور چاندی میں) کیا ہے؟ اور یہ کہ زکوٰۃ اس وقت فرض ہوتی ہے جب کسی مال پر ایک برس گزر جائے ، _ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ سلم نے یہ بھی بتایا ہے کہ مال پر ڈھائی فی صد (2.5٪)زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔ _ ان آٹھ مصارف کے علاوہ بے شمار مصارف ہیں، جن میں انسان اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرسکتا ہے۔ _ ڈھائی فی صد کے اندر ہی سے خرچ کرنا ضروری نہیں ، بلکہ اگر وہ اللہ کی رضا کا خواہاں ہے اور جنت میں اپنے لیے اعلیٰ منازل ریزرو کرنا چاہتا ہے تو اسے باقی ساڑھے ستّانوے فی صد میں سے بھی خرچ کرنا چاہیے۔ _ اگر زکوٰۃ (جو صرف ڈھائی فی صد ہے) میں سے کچھ لوگوں کو نہیں دیا جاسکتا ، مثلاً سیّد ، غیر مسلم ، ماں باپ ، اولاد وغیرہ تو کیا مسئلہ ہے ، انہیں ساڑھے ستّانوے فی صد میں سے تو دیا ہی جا سکتا ہے۔ _ اگر آدمی یہ سوچ لے تو پھر کوئی الجھن باقی نہ رہے۔
انسان جو کچھ خرچ کرتا ہے ، حقیقت میں اسے آخرت میں اپنے لیے اسٹاک کرتا ہے، _ اِس دنیا میں جو کچھ مال وہ اپنے پاس رکھے گا وہ صرف یہاں اس کے کام آئے گا ، لیکن جو کچھ وہ آگے بھیجے گا وہ آخرت میں اس کے کام آئے گا ، جب کہ نہ بیوی بچے اس کے مددگار ہوں گے اور نہ کوئی دوسرا اس کا تعاون کرنے کے لیے آگے بڑھے گا۔ _ اگر یہ عقیدہ انسان کے ذہن میں تازہ رہے تو پھر وہ ڈھائی فی صد کے چکّر میں نہیں رہے گا ، بلکہ اپنا زیادہ سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی کوشش کرے گا _۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں