ایک پرانی تحریر ، جو اِس رمضان میں بھی قابلِ غور ہے :
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ہر سال رمضان شروع ہوتے ہی ایک صورت حال کا سامنا ہم میں سے ہر ایک کو ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ مائک کا بے محابا استعمال ہوتا ہے، اس سے نہ صرف مساجد سے متّصل رہنے والے، بلکہ دور کے لوگ بھی پریشان رہتے ہیں۔ آبادی اگر مخلوط ہو اور وہاں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی رہتے ہوں تو معاملہ اور بھی سنگین اور حسّاس ہوجاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب مائک کا استعمال مسجد کے اندر بھی ناجائز سمجھا جاتا تھا ، پھر اس کے جواز کی راہ نکال لی گئی ، اور اب تو اس کا استعمال اس حد تک ہونے لگا ہے کہ ہر سنجیدہ اور شریف آدمی اس سے پریشانی محسوس کر رہا ہے۔
مساجد میں نصف شب ہی سے مختلف اعلانات شروع ہوجاتے ہیں ، اب ڈیڑھ گھنٹہ بچا ہے ، اب ایک گھنٹہ باقی ہے، اب نصف گھنٹہ رہ گیا ہے ، اب پانچ منٹ میں سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے ، درمیان میں کبھی قرأت اور کبھی نعت کی ریکارڈنگ لگا دی جاتی ہے۔ یہ سب اس صورت میں ہوتا ہے جب کہ وقت جاننے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ہر ایک کے پاس موجود ہے، گھڑی، الارم، موبائل وغیرہ۔ متعیّن وقت پر اٹھنے کا ہر شخص کے پاس نظم ہوتا ہے ، بلکہ ہر شخص رات کے پچھلے پہر اٹھ کر کچھ نہ کچھ نوافل پڑھنے کی خواہش رکھتا ہے اور اس کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ ایسے عبادت گزاروں کی عبادت میں مائک کے پُر شور استعمال سے کتنا خلل واقع ہوتا ہے ، اس کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ رمضان المبارک کا مہینہ عبادت، تقرّب الہی، تضرّع اور تلاوت قرآن کریم کا مہینہ ہے۔ یہ معمولات سکون و طمانینت کا تقاضا کرتے ہیں۔ بے جا شور و شغب سے ان میں خلل پڑتا ہے۔ پھر اگر آبادی مخلوط ہو تو اس معاملے میں اور بھی احتیاط ضروری ہے۔ جہاں دیگر مذاہب والے بے اطمینانی محسوس کریں ،وہاں ان کی رعایت کرنا ہی دین اسلام میں پسندیدہ ہے۔ بعض شرپسند اور فتنہ پرور ایسی چیزوں کو بنیاد بنا کر فساد کرانے پر تلے رہتے ہیں، اس لیے بھی بیدار مغزی کا ثبوت دینا چاہیے۔
پرُانے زمانے میں جنگ کے موقع پر نعرے لگانے سے فوجیوں میں جوش و خروش پیدا ہوتا تھا ، لیکن اس وقت بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے تکبیر کے پُر شور نعروں کو پسند نہیں کیا اور صحابہ کرام کو ایسا کرنے سے روکا ، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے :
حضرت ابو موسی اشعری بیان کرتے ہیں کہ جب صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ معرکۂ خیبر کے لیے کوچ کیا تو ایک وادی میں پہنچ کر وہ تکبیر کے نعرے بلند کرنے لگے ۔ پوری وادی اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کے نعروں سے گونجنے لگی۔ اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
ٹھہرو! تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو ، بلکہ تم ایسی ذات کو پکار رہے ہو جو سننے والی اور قریب ہے ، بلکہ وہ تمہارے ساتھ ہے۔ (بخاري:4205)
ماہ رمضان المبارک میں بہت سے مسلمانوں سے بعض ایسے اعمال سرزد ہوجاتے ہیں جو اس کے تقدّس اور عظمت کو پامال کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک مائک کا پُر شور استعمال بھی ہے۔ ہمیں اس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں