کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

0
1208

فقیہان شہر اور غریب انجمن

ابو زید فارابی ،سابق اردو پروفیسرکشن گنج، مقیم حال شارجہ

[email protected]

ملت اسلامیہ پوری دنیا میں ایک انتہائی زبوں حالی اور بیچارگی کی صورتحال سے گذررہی ہے،تاریک وبارش زردہ رات میں بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہراساں ہے،ملک عزیز میں مختلف النوع مسائل سر اٹھا رہے ہیں،ایسے خطرناک مسائل وحالات ہیں جو مسلمانوں کے رہے سہے مستقبل اور ان کے تشخص کے لئے بھیانک خطرہ ہیں،اس صورتحال میں پرسنل بورڈ کے اجلاس میں پیش آنے والی غیر متوقع صورتحال نے مزید ملت کو ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا جہاں بیچارگی ومسکنت،اور یتیمی کا احساس بڑھتا جارہاہے،بابری مسجد کے قضیہ کے تناظر میں دو اختلافی موقف سامنے آئے،رائے کا مختلف ہونا فطری بات ہے،تاہم اس اختلاف کو ہمارے قائدین نے جس انداز واسلوب میں لیا،اور جو طریقہ اختیار کیا وہ بہت افسوسناک ہے۔ ہم دونوں موقف پر بعد میں تبصرہ کریں گے،پہلے بات کرتے ہیں پرسنل بورڈ کی موجودہ صورتحال کی،مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم ہے،جس کا قیام وطن عزیز میں اسلام کے عائلی قوانین کے تحفظ کے لئے ہوا تھا، اس ادارہ نے حضرت مولانا قاری طیب صاحبؒ ،حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ ، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ،حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمیؒ کی زیر قیادت واقعی زبردست ملت کی ناخدائی کی،ہر موڑ پر زندہ قائدانہ کردار ادا کیا،بالخصوص حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا دور قیادت بہت ذریں وتابناک عہد تھا،بورڈ کی قیادت اب حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ فرمارہے ہیں،حضرت مولانا انتہائی مخلص،صاحب دل، صاحب بصیرت،صاحب نظر اور بہت سیدھے سچے انسان ہیں،اپنی سادگی کی وجہ سے شاید ’’ عقل عیار‘‘ کے سو بھیس نہیں جانتے ، ’’مولویانہ شطرنج‘‘ اور اور شاطرانہ چالوں سے بہت زیادہ واقف اور ان سے مقابلہ آرائی کو نہیں جانتے۔ یہی وجہ  ہے کہ بورڈ میں اندر مختلف فکری دھڑوں کو موقع ملا،ادھر تقریبا ہر جاننے والا شخص کافی دنوں سے محسوس کر رہا ہے کہ بورڈ میں ان مختلف عناصر میں سے ایک خاص عنصر کی اجارہ داری زیادہ نظر آرہی ہے،صدر محترم کرسی صدارت کی آبرو ہیں، باقی ریموٹ کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہے، چنانچہ اسی اجارہ داری اور ڈکٹیٹر شپ کا نتیجہ وقتا فوقتا سامنے آتا رہا ہے،اور آرہا ہے، مثالیں دینے کی ضرورت نہیں،سب الم نشرح ہیں،اس طرح یہ ادارہ جو اسلامیان ہند کا ایک سائبان تھا داخلی سیاست کے انتشار کا شکا رہوگیا، اور عباء وتسبیح کے پیچھے قیادت کچھ اورا فسانہ کہنے لگی ۔

قاسم رسول الیاس،کمال فاروقی جیسے منہ پھٹ ہنگامہ باز اگر آج حسینی صاحب پر ہلڑ مچا سکتے ہیں، تو آپ اس پر خوش کیوں ہیں،کل ان کی انہی دریدہ فکروں کی انگلی آپ کے جبہ وعصا، عمامہ سفید ریش بارعب پر بھی اٹھ سکتی ہے،اعظم خان نے زبان طعن کھول کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی تو اس میں چٹخارہ لینے والوں کو سوچنا چاہئے کہ سیاست وسماج کے گٹر میں رہنے والوں کو آج علماء ربانیین پر زبان دراز کرنے کا موقع دیا جارہاہے تو یہ ہفوات کل آپ کے دامن سفید پر بھر تو آسکتے ہیں،

 بابری مسجد کے قضیہ سے متعلق ایک موقف مولانا سلمان حسینی ندوی صدر جمعیت شباب الاسلام لکھنو نے پیش کیا ،جو ظاہر ہے کہ ان کی ایک رائے ہے،جس کوحقیقت ومعقولیت کی میزان میں تولا جاسکتا ہے،اس کی افادیت اور مثبت ومنفی پہلؤوں پر غور کیا جاسکتا ہے،مولانانے اپنی رائے کو ابتداء کسی پر تھوپا نہیں تھا،بلکہ اپنے بیانات میں صاف کہا تھا کہ یہ ہماری کوششیں ہیں، تاہم پرسنل بورڈ،اور جمعیت العلماء کے اتفاق کے بعد ہی کوئی حتمی شکل اختیار کی جائے گی، دوسرا موقف مسلم پرسنل بورڈ نے اختیا ر کیا ہے، مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر بابری مسجد کا مسئلہ باہم گفت وشنید سے حل کرنا چاہئے،سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ اس مسئلہ کو ہمیشہ مدعا بنایاہے،اور اپنے اپنے مقاصد حاصل کرتے رہے،فسادات کرائے گئے،ہزاروں لوگ اس کی بھینٹ چڑھ گئے،عدلیہ کے جو حالات ہوتے جارہے ہیں، اس سے غیر جانبدارانہ فیصلہ کی توقع کم ہے، طلاق کے موضوع پر اس کا تجربہ ہوچکا،پھر اگر عدالت سے فیصلہ آبھی جائے تو مسلمان وہاں نہ مسجد تعمیر کرسکتے ہیں، اور نہ ہی موجودہ حالت کو بدل سکتے ہیں، بلکہ محسوس یہ ہورہا ہے کہ مندر کو وہاں روکنا بہ ظاہر ممکن نہیں ہے، اس کے لئے اگر عدالت سے باہر ہندو مسلم رہنما آپس میں بات چیت کرلیں، کسی نتیجہ پر پہونچ جائیں، اور ممکنہ حل پر متفق ہوجائیں تو زیادہ بہتر ہوگا،ممکنہ حل یہ ہے متنازعہ جگہ جس کو حاصل کرنا بہ ظاہر اب آسان نہیں ہے،مسلمان اس جگہ کے بدلے دوسری جگہ مسجد بنالیں، اور ساتھ میں ایک یونیورسٹی بھی بنائیں، تاکہ تعلیم کے مواقع میسر آئیں،اور باہم اتفاق کیا جائے کہ اب آئندہ کسی مسجد ،کسی قبرستان، کسی مدرسہ ،کسی خانقاہ سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا،اور ہندومسلمان ایک ذہنی تناؤ کی فضا سے نکل کر باہم خوشگوار ماحول میں زندگی گذاریں گے،اس طرح سیاسی پارٹیوں کے لئے بھی اپنی روٹیاں سینکنے ،اور استحصال کرنے کا موضوع ختم ہوجائے گا،اس مقصد کے لئے مولانا نے روی روی شنکر کے ساتھ بہت اچھی طرح داعیانہ اسلوب میں بات چیت کا سلسلہ شروع کیا تھا، کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی،کوئی سودے بازے یا ملت کی آبرو سے کھلواڑ نہیں تھا،نہ حکومت سے پیسہ کھایا تھا،نہ کسی کے ہاتھ بکے تھے، اور نہ چوری چھپے کوئی راز داری تھی، جو تھا سب سامنے تھا ، یہ موقف ایک موقف تھا ،جس کے وزن کو ،اس کے مثبت ومنفی اثرات کو،مختلف پہلؤوں کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھنا چاہئے تھا، مگر بھلا ہو ان عطائیان وقت کا جنہوں نے سننے سے پہلے ہنگامہ کھڑا کردیا،اور فتنہ بھڑکانے میں کامیاب رہے،اور وہ بھی دو ایسے لوگ جن کا کردار سماجی افق پر زیادہ صاف نہیں ہے،تعجب اس پر نہیں کہ انہوں نے ایساکیا ،تعجب اس پر ہے کہ ایسا کونسا فتنہ ارتداد کا فارمولہ مولانا حسینی نے پیش کرنا چاہا تھا،یا کون سی آتش گیر فکر تھی جس نے یہ ہنگامہ برپا کروایا،اور ان عطائیان وقت کے ساتھ عباء و عصا کے حاملین بھی انگشت بدنداں رہ گئے،اور مطالبہ ہوا کہ حسینی کو بورڈ سے نکالا جائے،کارروائی کی جائے، یہ صورتحال توکسی غارت گر حسن کی فتنہ گری کا پتہ دیتی ہے۔۔۔۔۔  ؎

شکست کھاکے وہ پانی میں زہر ڈال آیا

مولانا پر ہنگامہ آرائی کے بعد مولانا حسینی صاحب نے میڈیا میں اپنا بیان دیا،جو این ڈی ٹی وی پر نشر ہوا،مولانا نے جو بیان دیا وہ ایک طبعی رد عمل تھا اس سب کا جو بورڈ کے اجلاس میں پیش آیا، ’’ مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا‘‘ ۔۔۔ مولانا کے بیان کے بعد تو بیان بازیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ،بہت سے لوگ اظہار افسوس کرنے لگے، رد وقدح اور تنقید کا بازار گرم ہوا، جو لوگ مولانا حسینی صاحب سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں، وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے،جیسے دیوالی کے پٹاخوں کے شور میں بہت سے غیر قانونی دیسی اسلحہ رکھنے والے اپنے اپنے ہتھیار صاف کرلیتے ہیں ، ان کو بھی موقع مل گیا کہ کچھ نہ حصہ لیں، معقول بات یہ تھی کہ اگر کوئی شخص کچھ کہہ رہا ہے،رائے پیش کررہا ہے،تو ہماری ذمہ دار قیادت کو سنجیدگی کے ساتھ سننا چاہئے تھا،بات کا تجزیہ کرنا چاہئے تھا، مولانا حسینی صاحب کے موقف میں کوئی لچک یا کمزرو پہلو تھا تو اس پر بات کی جاتی،مناقشہ کیا جاتا،اور انہیں قائل کیا جاتا کہ آپ کے موقف میں یہ مذہبی،سماجی، سیاسی کمزوری ہے، یقیناًایک دماغ وہ نہیں سوچ سکتا جو سو دماغ سوچ سکتے ہیں،بات کو بات سے،دلیل کو دلیل سے، حجت وکو حجت سے ٹکراتے، مگر حیرت ہے کہ بڑے بڑے نکتہ سنج،چھوٹی چھوٹی باتوں پر دلائل کا انبار لگانے والے،فلسفیانہ باتوں میں ابن رشد وغزالی کوشرمادینے والے نہ سن رہے تھے،نہ معقولیت پر غور کررہے تھے، نہ موقف کاجائزہ تھا،جو بزعم خود حکومت کے کان کترنے،اور وکیلوں کو مباحثہ میں مات دینے کا دعوی کرتے ہیں، کہاں چلی گئی تھی ان کی دانائی وگویائی،؟ !! کہ حسینی صاحب کے موقف کا تجزیہ کرتے،مناقشہ کرتے ،اعتماد میں لیکر قائل کرتے ،قائل ہوتے، مگر افسوس کہ ہمارے زعماء ومفکرین نے عجیب نسوانی طریق اور زنانہ اسلوب اختیار کیا،!! آخر کیا مولانا حسینی کی بات ان کی نظر میں اتنی احمقانہ تھی کہ سننا بھی گوارا نہیں، یا ان کے پاس حسینی صاحب کے مقابلہ جرأت گفتار نہ تھی،!! کچھ تو تھا جس کی پردہ داری ہے۔ کاش کہ صدر محترم ہی اپنے صدارتی عہدہ کا استعمال کرتے ہوئے کہہ دیتے کہ : بتاؤ بھائی مولانا حسینی صاحب کیا بات ہے، کیا تفصیلات ہیں، ہم لوگ سنتے ہیں، اور پھر فیصلہ کریں گے،ظاہر ہے مولانا حسینی صاحب نے روی شنکر ہاتھوں مسلمانوں کی آبرو کا کوئی سودا تو نہیں کرکیا تھا، افسوس کہ گھنٹوں مفکرانہ تقریریں کرنے والے، دلیل وحجت سے شیطان کی دم میں نمدہ باندھنے والے، اپنی نگاہ ناز میں اصلاح وہدایت کی بجلیاں رکھنے والے کیا ہوا تھا کہ عجب سوقیانہ ماحول سے دوچار تھے،!! ادب اختلاف پر عمدہ وسنجیدہ لکچر دینے والوں سے پوچھا جائے کہ ٹھیک ہے سلمان ندوی صاحب سے ہزار اختلاف،،، ان کی فکر ورائے سے ہزار اختلاف تسلیم ہے، مگر ان جرأتمندوں نے جو دودو ہاتھ کرنے کا اسلوب اختیار کیا وہ کس چیز کا غماز ہے، ’’ بات کہنے کی نہیں تو بھی ہرجائی ہے‘‘۔                                                                            ایک شخص اور وہ بھی ایسا جو اپنے علمی رسوخ،روشن مواقف،میں مشہور ہے، وہ شخص جس کے موقف ورائے سے اختلاف آپ کرسکتے ہیں، مگر اس کی ذات کے خلوص وشفافیت،اور بے نفسی وبے غرضی ،بے لوث ذات پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ،اس کی بات نہ سننے ،اس کی رائے کا تجزیہ نہ کرنے کی وجہ کیا ہے،؟ !! وجہ بالکل صاف ہے کہ بورڈ کی گود میں وہ عناصر ہیں جنہوں نے اس کو یرغمال بنالیا ہے،ایسے بھی ہیں جن کو قرآن وحدیث پڑھانے والے علماء کی جوتیاں سیدھی کرنے کا موقع مل جائے تو بڑی بات تھی، آخر کمال فاروقی،اور قاسم رسول الیا س کے سوقیانہ رویہ کو کیوں اصحاب فکر وقیادت،عصاء وجبہ نے برداشت کیا،آخر کس کے اشارہ پر یہ سب ہورہا ہے تھا،؟ !! کیا ہم یہ سمجھیں کہ ایسی محترم قیادت میں اب کوئی ’’ رجل رشید ‘‘ نہیں ہے، اس واقعہ نے جہاں حسینی صاحب کے بارے میں بورڈ کا موقف واضح کیا ہے ، وہیں بورڈ میں اندرونی خلفشار،اور ناقابل گفتنی عناصر کے چہرے سے نقاب اٹھاکر بتایا ہے کہ بڑے دعوے کرنے والی اس قیادت کا اب اندرونی حال کیا ہوچکا ہے۔

جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں ،مشہور سیاسی رہنما اعظم خاں کی ایک آڈیو کلپ آئی ہے،اس میں شوخ چشم، گستاخ فکرودہن،سیاسی بازیگر بڑے آرام سے حسینی صاحب کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے’’ میں پرسنل لا بورڈ سے درخواست کروں گا کہ ایسے شخص کو ندوہ کے درودیوار سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے‘‘ ۔۔۔ اس جملے پر خوب تالیاں بجتی ہیں، کوئی اس سیاسی مصیبت زدہ سے پوچھے کہ اپنی قدیم ذاتی پرخاش کی بنیاد پر آج آپ دھڑلے سے ایسے مطالبہ کررہے ہیں کہ ندوہ نہیں بلکہ سماج وادی غنڈوں کا دفتر ہو ۔ بورڈ کی چاررکنی کمیٹی کا فیصلہ آیا جس کو ظفر یاب جیلانی صاحب کی زبان سے سنایا گیا،مولانا حسینی کی رکنیت کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا، چند تأییدی آوازیں گرمجوشی کے ساتھ بلند ہوئیں،ہاتھ لہرائے،تالیاں بجیں،ہمارے دیرینہ دوست مفتی عبدالقدوس (مقیم حال لندن) کا فون آیا انہوں نے جس درد کا اظہار کیا، میں خود شرمسار ہوگیا، کہنے لگے یہ امت کے قائدین اور جھوٹے ،مکار، دھوکہ باز سیاسی بازیگروں میں کیا فرق ہے، سمجھ میں نہیں آیا، مولانا نعمانی اپنی پیرانہ سالی،اعذار وبیماری کے باجودملک میں اتحاد کی فضا کا پرچم لیکر ایسے پھر رہے ہیں، کہ انہیں کسی اور چیز کی پروا نہیں،رات دن ایک کئے ہوئے ہیں، مولانا ارشد مدنی صاحب قومی یک جہتی کے لئے کرڑوں روپے کے اجلاس کررہے ہیں، اسٹیج پر گرجتے برستے نظر آتے ہیں، صدر باوقار غیرمسلموں تک کو پیام انسانیت کے نام سے اسلامی اخلاق ومودت دکھا رہے ہیں، کمبل ،کپڑا تقسیم کرکے انسانی برادری کی ہمدردی بٹورنے،اور اسلامی اخوت کا مظاہرہ کرنے میں لگے ہیں، غرض ہر ایک قائد کچھ نہ کچھ ایسا کرنے میں لگا ہے کہ ملت میں جوڑ پیدا ہو،انسانیت زندہ ہو،اتحاد کی فضاء قائم ہو،ان کا کہنا تھا کہ آخر ایسی محنتیں کرنے والے لوگ ایک شخص کو سنبھال نہ سکے،اور اتحاد کے سب سے بڑے نمائندہ ادارہ نے آنا فاناایک قدآور شخصیت کو صرف اختلاف رائے کی بنیاد پر الگ کردیا،اب یا تو یہ کہئے کہ جو کچھ تماشہ بازی اپنے اپنے اسٹیج سے یہ لوگ کررہے ہیں، اتحاد ویک جہتی کی آوازیں لگا رہے ہیں، وہ صرف ہوائے نفس،اور زبان وبیان کا تڑکا ہے،حقیقت میں تو ’’ سلطانی بھی عیاری اور درویشی بھی عیاری ہے‘‘ یا پھر کچھ خلش درون خانہ تھی اور موقع کی تلاش جاری تھی، دونوں میں جو بھی بات ہو، وہ بہر حال قیادتوں کا کھوکھلا پن ظاہر کرتی ہے،باادب عرض ہے یہ وقت تو ایسا ہے کہ اپنی ملت کے ایک ایک معمولی جزکی قدر کی جائے، اختلاف کو ،ذاتی خلش کو دبانے کا ہنر استعمال کیا جائے،ٹوپیاں وپگڑیاں پیروں میں ڈالنا پڑیں، اتحاد کی بقاء کے لئے تو کیا جائے،مولانا نعمانی صاحب تو بہت واقعات سناتے ہیں جن کو سن کر انسان آبدیدہ ہوجائے، کیا وہ صرف اسٹیج کی زینت کے لئے ہیں، مفتی عبدالقدوس صاحب نے اور بھی بہت کچھ کہا،میں نے اپنے اکابرین کی صفائی بادل نخواستہ دینے کی کوشش کی،مگرسچ پوچھئے تو میرے پاس ان کی اس گفتگو کا کوئی جواب نہ تھا۔                                              قاسم رسول الیاس،کمال فاروقی جیسے منہ پھٹ ہنگامہ باز اگر آج حسینی صاحب پر ہلڑ مچا سکتے ہیں، تو آپ اس پر خوش کیوں ہیں،کل ان کی انہی دریدہ فکروں کی انگلی آپ کے جبہ وعصا، عمامہ سفید ریش بارعب پر بھی اٹھ سکتی ہے،اعظم خان نے زبان طعن کھول کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی تو اس میں چٹخارہ لینے والوں کو سوچنا چاہئے کہ سیاست وسماج کے گٹر میں رہنے والوں کو آج علماء ربانیین پر زبان دراز کرنے کا موقع دیا جارہاہے تو یہ ہفوات کل آپ کے دامن سفید پر بھر تو آسکتے ہیں، تو کیا یہی سمجھا جائے کہ ہمارے علماء ودانشور صرف اپنے مخالف کو زیر کرنے،اور زیر ہونے پر ہاؤ ہلڑ کرتے نظر آئیں گے،آخر موٹی موٹی کتابیں پڑھنے والوں میں کوئی ایسا کیوں نہیں تھا جو اس صورتحال کو دیکھ کر بے تاب نظر آتا، قرآن وسنت کے نکات بیان کرنے والوں میں ایک بھی ایسا کیوں نہیں نظر آیا جو سلمان ندوی کے فکری اختلاف کی بنیاد پر علیحدگی کو اپنے جسم سے ناخن کی جدائی تصور کرتا، گھنٹوں گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرنے والوں،اور خرقہ وخلافت رکھنے والوں میں کوئی کیوں نہ اٹھا کہ مصلی تر کرکے دکھائے، استعجاب وحیرت ہے ، ’’ کچھ راز نہیں کھلتا رہبر ہے رہزن ہے‘‘۔ سلمان ندوی صاحب کی رکنیت کو ختم کردیا گیا،یہ ان کے لئے حسرت وافسوس کی بات نہیں، جنگل کے مور کو باغ وچمن کی جستجو نہیں ہوتی،وہ جہاں اپنے پر کھولتا ہے ایک چمنستان بوقلموں کھل اٹھتا ہے،ان کا بورڈ سے الگ کیا جانا خود بورڈ کی محرومی ہے،حیرت ہے کہ مدارس وخانقاہ،اصلاح وتربیت، اتحادی مراکز وانجمنوں کے ٹھیکیدار،اصحاب جبہ وتسبیح حضرات کی نگاہوں کے سامنے بورڈ میں جو سیاست رچی جارہی ہے اس پرکسی کو افسوس توکیا ہوتا،خود بہت سے لوگ سیاست سیاست کھیل رہے ہیں ۔ وہ کہ زمانہ میں دھوم تھی حضرت کے زہد کی میں کیا بتاؤں شیفتہ وہ رات کس کے گھر ملے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کس جگر گردے کے ساتھ بورڈ اپنی قیادت پر ایمان رکھتا ہے،جو ایک شخص کی رائے نہ سن سکے،سن کر اس کو اعتماد میں نہ لے سکے، اس ایک انفرادی رائے پر اجتماعی رائے کی برتری وترجیح نہ ثابت کرسکے،کشتی بھنور میں ہے اور ناخدا کو شیشہ وجام کی پڑی ہو،وہ آخر پوری ملت کے اعتماد کو کیسے بحال کرسکے گا؟جو آپس کی سیاست بازی کو لگام نہ لگا سکے،جو چند ڈکٹیٹروں کو نہ روک سکے وہ طوفان بلا خیز کا مقابلہ کیسے کرے گا،بورڈ کو یرغمال بنالیا گیا، اب شاید اس کی کسی دلیل کی ضرورت نہیں،جو صورتحال پیش آئی،بالخصوص مولانا حسینی کو جس انداز سے باہر نکالا گیا،ان سے کوئی گفت وشنید نہیں ہوئی،صرف ویڈیوبیان کو کافی سمجھا گیا،حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب بھی اپنے اخباری بیان میں یہ اشارہ کرچکے ہیں،کہ جو کچھ ہوا بہت غلط ہوا،مولانا حسینی کو اس کمیٹی نے سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش نہیں کی،مولانا مدنی کے بیان میں بین السطور سمجھداروں کے لئے بڑے اشارے موجود ہیں،مولانا حسینی کو باہر کرنے کے بعد کس اویسی صاحب کا بیان بلکہ ہرزہ سرائی،اور اس پر مستزاد اجلاس عام میں اخترالایمان کی تقریر وپذیرائی آخر کس بات کی غماز ہے،  ؎

صاف چھپتے بھی نہیں ،سامنے آتے بھی نہیں                                                                                 بہر حال ذرا موقف کا بھی جائزہ لیتے ہیں، مولانا حسینی نے جو موقف اختیار کیا یقیناًوہ ایک انفرادی رائے،اور انفرادی کوشش تھی، اور مانا کہ انفرادی رائے کو اجتماعیت کے مقابلہ ترجیح نہیں ہوتی،تاہم آج ملک کی صورتحال کس سے مخفی ہے،جب بابری مسجد کا تالا کھولا گیا تو کیا ہم روک سکے؟ جب مورتیاں رکھی گئیں، شیلا نیاس کیا گیا،مسجد شہید کی گئی، عدلیہ وانتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے کیا گیا ،کیاہم روک پائے؟ ہمیں سوائے درد وغم، قتل وخوں ریزی کے سوا کچھ ہاتھ آیا؟ لکھنو ہائی کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف آیا ،ہم نے کیا کرلیا؟ہمارے ملک کی موجودہ زہر ناک صورتحال روز بروز ہندو راشٹر کی جانب بڑھ رہی ہے،سنا گیا ہے کہ جمہوری دستور کو بدلنے کی تیاری کی جاچکی ہے،عدلیہ کو یرغمال بنالیا گیا ہے،طلاق کے مسئلہ میں ہمارے قائدین نے دستخطی مہم چلائی،نتیجہ کیا نکلا؟ سڑکوں پر مظاہرے ہوئے،؟ طلاق کے معاملہ میں کورٹ پر اعتماد کیا ،نتیجہ توقع کے خلاف تھا؟ کیا صورتحال اس کی متقاضی نہیں کہ ہم کسی اور سمت سوچ سکیں،ایک طرف تو ہم کہہ رہے ہیں کہ ملک کا دستور بدلنے اور ہندو راشٹر بنانے کی مکمل تیاری ہوچکی، اور دوسری طرف جمہوری دستور وعدالت پرصرف اعتماد کئے ہوئے ہیں،جب دشمن اپنے منصوبہ بنا رہا ہے، کیا ہم کوئی سیکنڈ پلان اپنے پاس نہیں رکھ سکتے؟؟؟                                بورڈ ایک طرف یہ اعلان کررہا ہے ’’ کہ جو مسجد کی جگہ ہے وہ قیامت تک مسجد رہے گی، اس جگہ غیر اللہ کی عبادت نہیں ہوسکتی، قطعا ناجائز وحرام ہے‘‘ تو جو اب تک ہورہا ہے وہ کیوں گوارا کیا گیا؟ وہ کیسے جائز ہے؟ اگر کورٹ کا فیصلہ کل ہمارے خلاف صادر ہوتا ہے ،اور اس جگہ مندر بنتا ہے ،۔ جس کوروکنا اب بہ ظاہر ہمارے بس میں نہیں۔ تو یہ حرام کا فتوی کیسے حلال میں تبدیل ہوگا؟ غیر اللہ کی عبادت کو کیسے گوارا کیا جائیگا؟ عدالت کے فیصلہ کا انتظار کرنے والے اب غیر اللہ کی پوجا کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ اس کے لئے یا تو اس وقت جہاد کے فرض عین ہونے کا فتوی دیں گے، جو فی الحال رخصت پسند،عزیمت فروش علماء واصحاب افتاء سے ممکن نہیں،یا پھر فقہ اسلامی کے ذخیرہ کتب میں حالت مجبوری کے کچھ جزئیات تلاش کئے جائیں گے،کتب فتاوی سے علتیں نکال نکال کر پیش کی جائیں گی،صلح حدیبیہ اور مکی دور کے حوالے دیتے دیتے یہ عطائیان وقت نہیں تھکیں گے،ہمارے دوست مفتی عبد القدوس کا کہنا ہے کہ قائدین الفاظ کی حرارت ومقصدیت پر غور کریں، آج پوری شدت سے یہ کہا جارہا ہے کہ ’’ اللہ کی جگہ غیراللہ کی پوجا نہیں ہوسکتی، مسجد کی جگہ کو اس کے لئے نہیں دیا جاسکتا‘‘ یہ عقیدہ ہے، اب اس کو عدالت عظمی تو کیا زمین وآسمان کی طاقت بھی نہیں بدل سکتی، پھر آپ کس منھ سے عدالت کے فیصلہ کو اس عقیدہ کے خلاف تسلیم کریں گے، ہم نے مفتی عبدالقدوس سے معلوم کیا کہ کیا مسجد کی جگہ کو شرعا تبدیل کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ مولانا حسینی صاحب کہہ رہے ہیں، آخر شریعت کی میزان میں اس کی کوئی حقیقت ہے، مفتی صاحب نے فرمایا ؛ ہاں فقہ حنبلی میں بالکل گنجائش ہے، مسجد کی جگہ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے،امام ابن تیمیہ ؒ نے امام احمد کے بیٹے کی زبانی اپنے فتاوی میں نقل کیاہے کہ انہوں نے اپنے والد محترم امام احمد ؒ سے معلوم کیا کہ ایک شخص مسجد بناتاہے، پھر اس کو دوسری جگہ منتقل کرناچاہتا ہے کیا اس کی اجازت ہے، امام موصوف نے فرمایا: اگر چور اچکوں کا خوف ہو،یا اس جگہ جہاں مسجد ہے گندی جگہ ہو تو مسجد کی جگہ تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘ چند سطور کے بعد مذکور ہے: ’’وسألت أبی عن مسجد خرب، نری أن تباع أرضہ وتنفق علی مسجد آخر أحدثوہ؟قال : اذا لم یکن لہ جیران،ولم یکن أحد یعمرہ،فلا أری بہ بأساأن یباع وینفق علی الآخر‘‘ میں نے اپنے والد سے معلوم کیا کہ اگر کوئی مسجد ویران ہوجائے کیا اس جگہ کو فروخت کرکے دوسری جگہ مسجد بنائی جاسکتی ہے،امام صاحب نے فرمایا: ہاں اگر مسجد آباد کرنے والے وہاں نہ ہوں، اور وہ ویران ہوجائے،تو کوئی حرج نہیں کہ اس جگہ کو فروخت کیا جائے،اور دوسری مسجدکی تعمیر میں وہ پیسہ خرچ کیا جائے‘‘( فتاوی ابن تیمیہ ج ۳۱؍ ۲۱۵)                          شیخ بن باز ؒ نے افریقہ سے ایک استفتاء کے جواب میں یہی فرمایاتھا،استفتاء میں دریافت کیا گیا تھاجنوبی افریقہ میں مسلمانوں نے ایک بستی میں مسجد تعمیر کی تھی،اب حکومت اس بستی کو خالی کرنا چاہتی ہے،اور دوسری جگہ آبادی کے لئے دی جائے گی، مسجد کا کیا کیا جائے؟کیا اس کو فروخت کردیا جائے؟ ، شیخ بن باز نے فتوی دیا کہ جب مسلمان اس علاقہ سے کوچ کرجائیں گے،اور مسجد کی منفعت معطل ہورہی ہے،تو صحیح قول کے مطابق اس کو فروخت کرنا اور اس کی قمیت کو دوسری مسجد میں لگانا جائز ودرست ہے،کیوں کہ حضرت عمرؓ نے کوفہ کی ایک مسجد کو برائے مصلحت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا، منفعت کا معطل ہونا مصلحت سے بھی زیادہ راجح ہے کہ مسجد کی جگہ کو منتقل کیا جائے،(فتوی3146) ۔۔         مفتی عبد القدوس کے اس جواب نے ہمارے لئے مزید غور وفکر کی راہ کھول دی،اس بنیاد پر ہمارا کہنا ہے کہ مولانا حسینی کا موقف صرف مجنوں کی بڑ نہیں ہے،بلکہ اگر غور کیا جائے تو مسئلہ کا واقعاتی حل ہوسکتا ہے، قائدین کو ضد کے بجائے ہر پہلو کا جائزہ لینا چاہئے، مگر انہوں نے مولاناحسینی کی اس بات کو کیوں گوارا نہ کیا کہ سن لیں، غور کریں، جبکہ اس میں قدرے معقولیت تھی، اور تردید کے نسوانی اسلوب کو اختیار کیا،اب ہماری سمجھ میں تو کچھ نہ آیا ،البتہ مفتی صاحب نے ایک لطیفہ سنا یا تو سمجھ میں آگیا، ایک خان صاحب اپنے گھوڑے پر سوار سیر کو نکلے،ہاتھ میں دو بڑے تربوز تھے،جو وہ دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھے،کھیت میں کام کرتے ایک کسان نے دیکھا اور باادب عرض کیا، حضور ! آپ کے گلے میں جو رومال ہے ،تربوز کو اس کے دونوں سروں میں باندھ کر گھوڑے کی گردن میں لٹکادیں،تو آپ یہ بوجھ اٹھانے کی زحمت سے بچ جائیں گے،ترکیب اچھی تھی، خان صاحب نے فورا ایسا ہی کیا، اور یوں ان کے دونوں ہاتھ آزاد ہوگئے، چند قدم جاکر خان صاحب کو خیال آیاکہ ایک گھاس کھودنے والے کسان کی بات میں کیوں مانوں ؟ میں خان وہ کسان ! اور فورا پھر کھول کر تربوز ہاتھ میں رکھ لئے، ہماری سمجھ میں پوری بات آگئی، ’’غالب کی وفا کیشی اور تیری ستم رانی‘‘

مولانا ارشد صاحب فرماتے رہیں کہ’’ کانگریس ہمارا عقیدہ ہے‘‘ اہل ندوہ کہتے رہیں کہ نجات کا راستہ صرف پیام انسانیت ہے، مولانا نعمانی صاحب فرمائیں کہ تاریخ ساز کام بامسیف کے ساتھ ملکر بھارت بچاؤ تحریک ہے، کوئی شورائی نظام کا علمبردار،کوئی امارت کے لئے کشت وخون کی بازی لگانے کو تیار،اور اب مولانا حسینی کے فارمولہ کے بعد اعلان جنگ،!!! سب اپنی جگہ چست وفٹ،واہ رے ملت !!! ہمارے قائدین کو خدا سلامت رکھے، ان کے عجیب وغیر متوقع رویہ سے ملت کی نیا مزید ڈوبتی نظر آرہی ہے،دل بیٹھے جارہے ہیں، کس سے کہیں کہ ’’ دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا‘‘

آرزو ،حسرت،اور امید،شکایت، آنسو

اک ترا ذکر تھااور بیچ میں کیا کیا نکلا

 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here