ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ایسے ماحول میں جب روزانہ ہی دور و نزدیک کے اعزا اور متعلقین کے انتقال کی خبریں مسلسل آرہی ہیں ، آج بعد نمازِ تراویح خالہ جان (مولانا سید جلال الدین عمری کی اہلیہ محترمہ) کی وفات نے تڑپا دیا _
إنّ للّهِ مَا أخَذَ وَلَهٗ مَا اَعْطَى ، كَلُّ شَيءٍ عِنْدَهٗ بِأجَلٍ مُسمّى (اللہ کے لیے ہے جو اس نے لیا ، اور اس کے لیے ہے جو اس نے دیا اور ہر چیز اس کے نزدیک متعین مدّت کے لیے ہے _)
روایات میں ہے کہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کی لونڈی تھیں _ وہ آپ سے اور آپ ان سے بہت محبت کرتے تھے _ انھیں دیکھ کر فرمایا کرتے تھے : اُمّی بعد اُمّی (یہ میری
دوسری ماں ہیں _) مولانا کی اہلیہ بھی میرے لیے ‘اُمّی بعد اُمّی'(ماں کے بعد دوسری ماں) تھیں _ میری حقیقی امّی جان کا انتقال چار برس پہلے ہوا تھا _ آج لگ رہا ہے کہ میری دوسری امی جان کا انتقال ہوگیا ہے اور میں پھر یتیم ہوگیا ہوں _ میں 1983میں انیس برس کی عمر میں علی گڑھ پہنچا تو مولانا جلال الدین عمری نے خصوصی سرپرستی کی _ دس برس طبیہ کالج ، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں رہتے ہوئے ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی میں آنا جانا رہا _ پھر 1994 سے ادارہ کا رکن بن گیا _ مجھے مولانا عمری کی سرپرستی کے ساتھ ان کی اہلیہ کی بھر پور اپنائیت حاصل رہی _ ادارہ کے ارکان اور اسکالرس انہیں ‘خالہ’ کہتے تھے _ ( ادارہ کے پڑوس میں ایک بزرگ بیوہ خاتون رہتی تھیں ، جن کے تمام بچے دیگر ممالک میں رہتے تھے _ انہیں ہم ‘انٹرنیشنل خالہ’ کہا کرتے تھے _ ) خالہ واقعی ہمیں اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتی تھیں _ ان کی رہائش گاہ میں ایک امرود کا درخت لگا ہوا تھا _ ہمیں ان کی مہربانی سے کبھی کبھی امرود کھانے کو ملتے تھے _ 1990 کے اواخر میں میری شادی ہوگئی اور اہلیہ بھی علی گڑھ آگئیں تو وہ بھی خالہ کی نوازشوں میں شامل ہوگئیں _ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دراز نہ رہ سکا ، اس لیے کہ چند برس کے بعد مولانا عمری کو نائب امیر جماعت اسلامی ہند کی حیثیت سے مرکزِ جماعت دہلی بلا لیا گیا _
میں ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ سے وابستہ رہا ، لیکن حالات کچھ ایسے بنے کہ ستمبر 2011 میں مجھے مرکزِ جماعت منتقل ہونا پڑا _ سات آٹھ مہینے میں مرکز میں تنہا رہا اور اہلیہ علی گڑھ میں ، پھر وہ بھی دہلی آگئیں تو خوش قسمتی سے ہمیں رہائش کے لیے مولانا عمری کا پڑوس مل گیا _ اس سے اہلیہ کی باچھیں کھل گئیں _ وہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کو میری کوئی نیکی پسند آگئی ہے ، جس کا بدلہ اس نے اس شکل میں دیا کہ مجھے خالہ کا پڑوس مل گیا ہے _
مرکز میں میرے اور مولانا عمری کے گھروں کا دروازہ ملا ہوا تھا _ مولانا کا اور میرا بھی زیادہ تر وقت دفتر میں گزرتا تھا _ اس چیز نے اہلیہ کو خالہ سے اور قریب کردیا تھا _ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر وقت ہی نہیں کٹتا تھا _ کبھی اہلیہ خالہ کے پاس پہنچ جاتیں تو کبھی خالہ ان کے پاس آجاتیں _ اہلیہ کہتی ہیں کہ خالہ انہیں بالکل اپنی بیٹی سمجھتی تھیں اور ویسا ہی برتاؤ کرتی تھیں جیسا کوئی ماں اپنی بیٹی کے ساتھ کرتی ہے _ اہلیہ دوپہر کا کھانا بنانے کی تیاری کر رہی ہیں _ اتنے میں خالہ آگئیں _ کہنے لگیں : لاؤ ، میں پالک کاٹ دوں _ دونوں باتیں بھی کررہی ہیں اور کام بھی ہورہا ہے _ اہلیہ گھر میں کوئی ڈِش بناتیں تو لازماً خالہ کو بھجواتیں _ خالہ کی طرف سے بھی ہمیں وقتاً فوقتاً تحائف ملتے ، جن میں ڈرائی فروٹ ، تازہ پھل اور دیگر چیزیں ہوتیں _
چار برس قبل مرکز میں مسجد اشاعتِ اسلام کی توسیع ہونے لگی تو مولانا کا مکان بھی اس کی زد میں آگیا _ انہیں دوسرا مکان الاٹ کیا گیا _ اب مسجد کے ایک طرف میرا مکان تھا اور دوسری طرف مولانا کا مکان _ اس کی وجہ سے خالہ اور اہلیہ کی ملاقاتیں تو کم ہوگئیں ، لیکن اس کی تلافی وہ وقتاً فوقتاً فون کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتیں اور تحائف بھیجنے کے لیے مجھے واسطہ بناتیں _ چوں کہ اہلیہ بھی بیمار رہنے لگی تھیں ، اس لیے خالہ ہر بار ان کی خیریت دریافت کرتیں اور اس سے پہلے یہ ضرور کہتیں : ” اس کی کیا ضرورت تھی _” مرکز میں رہتے ہوئے میں نے اپنے لڑکے کا نکاح کیا تو وہ میری بہو کے لیے تحائف لے کر آئیں _ پوتا ہوا تو اس کے لیے کپڑے لائیں _ کس کس چیز کو یاد کروں؟ یادیں ہیں کہ ایک قطار سے کھڑی ہوئی ہیں اور منّت سماجت کررہی ہیں کہ میرا بھی تذکرہ کردو _
خالہ انتہائی صابر و شاکر خاتون تھیں _ مولانا کا وطن تامل ناڈو تھا _ وہ اپنی نوجوانی ہی میں اُس وقت کے مرکزِ جماعت رام پور آگئے تھے _ پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے _ خالہ نے ان کے ساتھ خندہ پیشانی سے زندگی کے تمام سرد و گرم برداشت کیے اور کبھی کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں _ رام پور میں تیرہ چودہ برس ، علی گڑھ میں پچیس برس ، اس کے بعد دہلی میں تقریباً پچیس برس ، ہر جگہ مولانا نے بہت قناعت کی زندگی گزاری اور اسبابِ تعیّش سے بہت دور رہے اور خالہ نے ان کا بھر پور ساتھ دیا _ انھیں وراثت میں کچھ رقم ملی تو حج کا ارادہ کیا اور مولانا کے ساتھ اس سعادت سے بہرہ ور ہوئیں _ مولانا نے اپنے سفرِ حج کی روداد ( سوئے حرم چلا) میں جابجا ان کا تذکرہ کیا ہے _
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خالہ جان کی مغفرت فرمائے ، ان کی تقصیرات سے درگزر فرمائے ، انہیں اعلیٰ العلّیّین میں جگہ دے اور ان کے پس ماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے ، آمین یا رب العالمین _
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں