آہ! ڈاکٹر نیاز احمد داؤدی بھی نہیں رہے

0
650
All kind of website designing

حکیم نازش احتشام اعظمی کا اظہار تعزیت

نئی دہلی :بات نومبر 2016 کی ہے ۔فاطمہ گرلز کالج داؤد پور اعظم گڑھ میں عالمی شہرت یافتہ اردو ادیب و محقق ڈاکٹر ملک زادہ منظورکی حیات و خدمات پر مربوط دوروزہ عالمی سیمنار کا انعقاد ہوا تھا، میں بھی اس پروگرام میں ایک مقالہ نگار کی حیثیت سے شرکت کے لیے حاضر ہوا تھا۔ اسی موقع پر علم و اہل علم کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کرنے والی عظیم شخصیت فاطمہ گرلزکالج کے بانی و روح رواں ڈاکٹر نیاز احمد داؤدی کو قریب سے دیکھنے اور ان کے الطاف و عنایات کی ٹھنڈی چھاؤں میں کچھ ساعتیں گزارنے ، ان کی دعائیں لینے اور دوروزتک حسن اخلاق سے مستفید ہونے اور ان کی ضیافت سے مستفید ہو نے کا بھرپور موقع ملا ۔
سیمینار میںڈاکٹر نیاز احمد داؤدی نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بے حد مسرت ہورہی ہے ۔انھوں نے ملک زادہ صاحب نے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تعلق کا یہ ایک معمولی اظہار ہے ۔ہم نے جب بھی انھیں کالج کے کسی بھی پروگرام کے لیے دعوت دی، انھوں نے نہ صرف بخوشی قبول کیا، بلکہ مسلسل مصروفیتوں اور ناسازی صحت کے باوجود تشریف لایا کرتے تھے ۔یہ تو رہی ملک زادہ منظور صاحب سے ان کے مخلصانہ تعلقات کا اعتراف جسے انہوں نے ظاہر کردیا۔ورنہ ہندوستان کی شاید ہی کوئی علمی و دینی شخصیت ایسی ہو جن سے ان کے مخلصانہ روابط نہ رہے ہوں۔
اس تاریخی عالمی سیمینار کے اصل محرک و کنوینر اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن کے بانی و جنرل سکریٹری اور ملت کے آفت رسیدہ ،مصیبت زدگان
حکیم نازش احتشام اعظمی
اور غریب و نادار افراد کے بے لوث معاون و خادم حکیم نازش احتشام اعظمی تھے۔ظاہر سی بات ہے کہ مرحوم نیاز احمد داؤدی صاحب سے ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی کے دیرینہ اور والہانہ تعلقات تھے۔ مگر قدرت شاید یہی منظور تھا کہ جنہیں ہمیشہ فاؤنڈیشن نے اپنے لیے سایہ رحمت باور کیا گزشتہ 5 مئی 2021 کو اخلاص و مؤدت اور مکارم اخلاق کا چلتا پھرتا پیکر تہِ خاک ہوگیا اور ہمیشہ کے لیے اپنے محبین و مخلصین و متعلقین یکہ و تنہا چھوڑ کر راہی ملک بقا ہوگیا۔انا للہ و انا للہ راجعون۔
مرحوم کی رحلت سے افسردہ خاطر حکیم نازش احتشام اعظمی کہتے ہیں کہ داؤدی صاحب سے میری پہلی ملاقات شبلی کالج کے گیسٹ ہاؤس میں ہوئی تھی، میں شبلی کالج سیرت سمینارمیں شرکت کے لئے دہلی سےگیا تھا ،وہیں میرا تعارف ہوا اسکے بعد داؤدی صاحب سےمستقل رابطہ میں رہا۔ ان کے قائم کردہ کالج میں مختلف سمینار اورپروگرام میں حاضری رہی۔ داؤدی صاحب کو جب بھی دہلی آنا ہوتا تو مجھے پہلے سے ہی باخبر کردیتے اور دہلی پہنچنےکے بعد چاربجے شام کو گھر پہ آجاتے، جہاں ہم لوگ مستقبل کے سمینار یا پروگرام پے تبادلہ خیال کرتےاور بعدمیں اسکو عملی جامہ پہناتے ۔ان کے کالج کے پروگراموں میں ملک زادہ منظور سمینار،بیکل اتساہی سمینار،انوراعظمی سمینار بہت ہی کامیاب سمینار ہوئے۔
داؤدی صاحب مرحوم بہت ہی ملنسار غمگسار اور جفاکش انسان تھے سب کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے ان کا ہمارے گھرانے سے کافی گہرا تعلق تھا خوشی اورغم میں برابر شریک رہتے تھے
اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ان کے ذریعہ قائم کئے ہوئے اسکول و کالج کو صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین

خدا رحمت کرے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here