ولیمہ کا وقت؟

0
1981
All kind of website designing

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

نکاح کے موقع کا ایک اہم عمل ولیمہ ہے، _ یہ اصلاً خوشی کا اظہار ہے _ نکاح کے نتیجے میں ایک اجنبی مرد اور عورت یکجا ہوتے ہیں اور ایک خاندان وجود میں آتا ہے، _ دو خاندان جڑتے ہیں اور ان کے درمیان قریبی تعلقات استوار ہوتے ہیں _ ،یہ نہ صرف نئے جوڑے کے لیے ، بلکہ پورے خاندان کے لیے بہت خوشی کا موقع ہوتا ہے ، اس کے اظہار کے لیے ولیمہ کیا جاتا ہے، _ اللہ کے رسول ﷺ سے ولیمہ ثابت ہے _ ۔آپ نے جتنے نکاح کیے ان کے بعد ولیمہ کیا اور صحابۂ کرام کو بھی ان کے نکاح کے بعد ولیمہ کرنے کا حکم دیا۔ _ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا تو آپ نےارشاد فرمایا :’’ولیمہ کرو ، چاہے ایک بکری ہی کیوں

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

نہ ہو‘‘۔ (بخاری :3781 ، مسلم :1427) اسی لیے ولیمہ کو مسنون یا مستحب کہا گیا ہے _۔
ولیمہ کا لغوی معنیٰ ہے ‘اجتماع ، یعنی میاں بیوی کا جمع ہونا،اس لحاظ سے ولیمہ کا صحیح وقت بیوی کی رخصتی اور شبِ زفاف ، یعنی میاں بیوی کی ملاقات کے بعد کا ہے، _ بہتر ہے کہ شبِ زفاف کے اگلے دن ولیمہ کیا جائے،حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کے اگلے دن ولیمہ کیا تھا _ (بخاری :5466) ولیمہ ایک سے زائد بار یا ایک سے زائد دن کیا جاسکتا ہے۔ _ بعض روایات میں ہے کہ حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد تین دن تک برابر آپ نے ولیمہ کیا تھا۔ _
بعض علاقوں میں نکاح اور رخصتی کے درمیان خاصا وقفہ رکھا جاتا ہے، _ بسا اوقات یہ وقفہ کئی برس کا ہوتا ہے _ اس صورت میں کیا نکاح کے بعد ولیمہ کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولیمہ یوں تو رخصتی کے بعد مسنون ہے ، لیکن نکاح کے بعد بھی اس کی گنجائش ہے۔ _
بعض حضرات آج کل یہ تحریک چلا رہے ہیں کہ نکاح کی تقریب کے فوراً بعد ولیمہ کردیا جائے ۔ _ اس کا سبب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آج کل نکاح کی تقریب کے بعد لڑکی والوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے ، _ سماجی رسوم کی وجہ سے وہ ایسا کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں _ اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ زیر بار ہوجاتے ہیں۔ان کو اس سے بچانے کا طریقہ وہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ نکاح کے فوراً بعد ، یعنی رخصتی سے قبل، لڑکے والوں کی طرف سے ولیمہ کردیا جائے۔ _ میرے نزدیک یہ طریقہ درست نہیں ۔ _ غلط رسوم سے لڑکے والوں کو روکنا چاہیے اور لڑکی والوں کو بھی _ نکاح کے موقع پر دعوت کا اہتمام کرنا لڑکی والوں کی ذمے داری نہیں _ ۔نکاح کی تقریب سادگی سے انجام دی جانی چاہیے ۔البتہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سماجی قدروں کو بھی متاثر کررہے ہیں، _ آج کل نکاح کے لیے میرج ہال بک کیے جاتے ہیں، _ رشتے دار دور دور سے آتے ہیں ۔آمد و رفت کے ٹکٹ بہت پہلے سے بک کرائے جاتے ہیں _۔ ممکن ہے نکاح ہی کے دن واپس جانا بعض رشتے داروں کی مجبوری ہو، _ اس بنا پر اگر نکاح ہی دن لڑکے والے ولیمہ کرنا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے _، مسنون طریقہ اگرچہ رخصتی اور شبِ زفاف کے بعد ولیمہ کا ہے ، لیکن رخصتی سے قبل ولیمہ کرنا ناجائز نہ ہوگا۔ _
ولیمہ رخصتی کے کتنے دنوں کے بعد تک کیا جاسکتا ہے؟ اور اس کی آخری حد کیا ہے؟ بعض علماء نے اس کی مدّت تین دن قرار دی ہے ، لیکن یہ تحدید شاید درست نہ ہو، _ حسب سہولت اس کے بعد بھی ولیمہ کیا جاسکتا ہے _ ،لیکن اگر ولیمہ خوشی کا اظہار ہے تو ظاہر ہے کہ اسے جلد از جلد کرنا چاہیے، _ اللہ کے رسول ﷺ کا اسوہ بھی اس کے جلد کرنے کا ہے۔ _
ہمارے رشتے داروں میں ایک لڑکی کا نکاح ہوا _ اس کی رخصتی ہوئی،_ دو تین دن سسرال میں رہ کر وہ واپس میکے آگئی ، لیکن لڑکے والوں نے ولیمہ نہیں کیا، _ خاندان میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں _ ایک صاحب نے مجھ سے دریافت کیا : ولیمہ کب تک ہوسکتا ہے؟ اس سے پہلے کہ میں کچھ جواب دیتا ، میری اہلیہ بول پڑیں : ’’ جلدی نہ کریں _ وہ لوگ ولیمہ اور عقیقہ ساتھ ہی کرلیں گے‘‘۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here