ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
نکاح کے موقع کا ایک اہم عمل ولیمہ ہے، _ یہ اصلاً خوشی کا اظہار ہے _ نکاح کے نتیجے میں ایک اجنبی مرد اور عورت یکجا ہوتے ہیں اور ایک خاندان وجود میں آتا ہے، _ دو خاندان جڑتے ہیں اور ان کے درمیان قریبی تعلقات استوار ہوتے ہیں _ ،یہ نہ صرف نئے جوڑے کے لیے ، بلکہ پورے خاندان کے لیے بہت خوشی کا موقع ہوتا ہے ، اس کے اظہار کے لیے ولیمہ کیا جاتا ہے، _ اللہ کے رسول ﷺ سے ولیمہ ثابت ہے _ ۔آپ نے جتنے نکاح کیے ان کے بعد ولیمہ کیا اور صحابۂ کرام کو بھی ان کے نکاح کے بعد ولیمہ کرنے کا حکم دیا۔ _ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا تو آپ نےارشاد فرمایا :’’ولیمہ کرو ، چاہے ایک بکری ہی کیوں
نہ ہو‘‘۔ (بخاری :3781 ، مسلم :1427) اسی لیے ولیمہ کو مسنون یا مستحب کہا گیا ہے _۔
ولیمہ کا لغوی معنیٰ ہے ‘اجتماع ، یعنی میاں بیوی کا جمع ہونا،اس لحاظ سے ولیمہ کا صحیح وقت بیوی کی رخصتی اور شبِ زفاف ، یعنی میاں بیوی کی ملاقات کے بعد کا ہے، _ بہتر ہے کہ شبِ زفاف کے اگلے دن ولیمہ کیا جائے،حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کے اگلے دن ولیمہ کیا تھا _ (بخاری :5466) ولیمہ ایک سے زائد بار یا ایک سے زائد دن کیا جاسکتا ہے۔ _ بعض روایات میں ہے کہ حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد تین دن تک برابر آپ نے ولیمہ کیا تھا۔ _
بعض علاقوں میں نکاح اور رخصتی کے درمیان خاصا وقفہ رکھا جاتا ہے، _ بسا اوقات یہ وقفہ کئی برس کا ہوتا ہے _ اس صورت میں کیا نکاح کے بعد ولیمہ کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولیمہ یوں تو رخصتی کے بعد مسنون ہے ، لیکن نکاح کے بعد بھی اس کی گنجائش ہے۔ _
بعض حضرات آج کل یہ تحریک چلا رہے ہیں کہ نکاح کی تقریب کے فوراً بعد ولیمہ کردیا جائے ۔ _ اس کا سبب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آج کل نکاح کی تقریب کے بعد لڑکی والوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے ، _ سماجی رسوم کی وجہ سے وہ ایسا کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں _ اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ زیر بار ہوجاتے ہیں۔ان کو اس سے بچانے کا طریقہ وہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ نکاح کے فوراً بعد ، یعنی رخصتی سے قبل، لڑکے والوں کی طرف سے ولیمہ کردیا جائے۔ _ میرے نزدیک یہ طریقہ درست نہیں ۔ _ غلط رسوم سے لڑکے والوں کو روکنا چاہیے اور لڑکی والوں کو بھی _ نکاح کے موقع پر دعوت کا اہتمام کرنا لڑکی والوں کی ذمے داری نہیں _ ۔نکاح کی تقریب سادگی سے انجام دی جانی چاہیے ۔البتہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سماجی قدروں کو بھی متاثر کررہے ہیں، _ آج کل نکاح کے لیے میرج ہال بک کیے جاتے ہیں، _ رشتے دار دور دور سے آتے ہیں ۔آمد و رفت کے ٹکٹ بہت پہلے سے بک کرائے جاتے ہیں _۔ ممکن ہے نکاح ہی کے دن واپس جانا بعض رشتے داروں کی مجبوری ہو، _ اس بنا پر اگر نکاح ہی دن لڑکے والے ولیمہ کرنا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے _، مسنون طریقہ اگرچہ رخصتی اور شبِ زفاف کے بعد ولیمہ کا ہے ، لیکن رخصتی سے قبل ولیمہ کرنا ناجائز نہ ہوگا۔ _
ولیمہ رخصتی کے کتنے دنوں کے بعد تک کیا جاسکتا ہے؟ اور اس کی آخری حد کیا ہے؟ بعض علماء نے اس کی مدّت تین دن قرار دی ہے ، لیکن یہ تحدید شاید درست نہ ہو، _ حسب سہولت اس کے بعد بھی ولیمہ کیا جاسکتا ہے _ ،لیکن اگر ولیمہ خوشی کا اظہار ہے تو ظاہر ہے کہ اسے جلد از جلد کرنا چاہیے، _ اللہ کے رسول ﷺ کا اسوہ بھی اس کے جلد کرنے کا ہے۔ _
ہمارے رشتے داروں میں ایک لڑکی کا نکاح ہوا _ اس کی رخصتی ہوئی،_ دو تین دن سسرال میں رہ کر وہ واپس میکے آگئی ، لیکن لڑکے والوں نے ولیمہ نہیں کیا، _ خاندان میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں _ ایک صاحب نے مجھ سے دریافت کیا : ولیمہ کب تک ہوسکتا ہے؟ اس سے پہلے کہ میں کچھ جواب دیتا ، میری اہلیہ بول پڑیں : ’’ جلدی نہ کریں _ وہ لوگ ولیمہ اور عقیقہ ساتھ ہی کرلیں گے‘‘۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں