عشرت جہاں کے مجرم ۔۔۔

0
944
فائل فوٹو
All kind of website designing

ایم ودود ساجد

کیا آپ کو عشرت جہاں یاد ہے؟ مُمبرا کی وہی 19سالہ عشرت جہاں جس کا گجرات کے کوتار پور میں 15جون 2004 کو انکاؤنٹر کردیا گیا تھا۔۔؟ گزشتہ 30 مارچ 2021 کو اس انکاؤنٹر کے آخری تین ملزم پولیس افسروں کو بھی سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے بری کردیا۔
میں پچھلے ہفتہ اس موضوع پر میڈیا اسٹار کیلئے اپنا ہفتہ وار پروگرام ’آپ کے روبرو‘ بنا چکا ہوں،لیکن احباب کیلئے لکھنے میں کئی اسباب سے تاخیر ہوگئی۔ میں نے سوچا تھا کہ اس موضوع پر دوسرے لوگ لکھ چکے ہوں گے لیکن میری نظر سے ابھی تک اس سلسلہ کی کوئی تفصیلی خبر نہیں گزری ۔
گجرات پولیس نے الزام عاید کیا تھا کہ عشرت جہاں اور اس کے تین ساتھی جاوید شیخ‘ امجد علی اور ذیشان جوہر کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا اور وہ (اس وقت کے وزیر اعلی) نریندر مودی کو قتل کرنے کے ارادے سے گجرات آئے تھے۔۔ لہذا 15جون 2004 کو گجرات کے نواحی علاقے کوتار پور میں انہیں انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا گیا تھا۔۔ یہ انکاؤنٹر احمد آباد کی ڈٹیکشن کرائم برانچ کے سربراہ ڈی جی ونجارا کی قیادت میں انجام دیا گیا تھا۔۔ احباب ونجارا کے نام کوذہن میں رکھیں۔
اس انکاؤنٹر کے خلاف آوازیں اٹھیں اور اسے فرضی بتایا گیا۔عشرت جہاں کی والدہ شمیمہ کوثر ہمت کرکے آگے بڑھیں اور گجرات ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرکے اس انکاؤنٹر کی تحقیقات سی بی آئی سے کرانے کا مطالبہ کیا۔۔ 2006 میں گجرات ہائی کورٹ نے شمیمہ کوثر کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس انکاؤنٹر کی تحقیقات سی بی آئی کو سونپ دیں ۔۔ اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ آر آر ورما نے نئی ایف آئی آر درج کرائی اور سی بی آئی نے تحقیقات شروع کردیں۔
سات سال کی تحقیقات کے بعد سی بی آئی نے 2013 میں سات پولیس افسروں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ۔۔ اس میں بتایا گیا کہ احمد آباد کے پولیس کمشنر پی پی پانڈے‘ ڈی جی ونجارا‘ این کے امین‘ جے جی پرمار‘ جی ایل سنگھل‘ ترون باروت اور اناجو چودھری اس فرضی انکاؤنٹر میں ملوث تھے۔۔ان پر عشرت جہاں سمیت باقی افراد کے اغوا‘ قتل اور مجرمانہ سازش تیار کرنے اور ثبوتوں کو مٹانے کے الزامات عاید کئے گئے۔۔ سی بی آئی نے کچھ دنوں کے بعد ایک اور اضافی چارج شیٹ دائر کی اور بتایا کہ اس انکاؤنٹر میں SIB کے چار انٹلی جینس افسران بھی ملوث تھے اور انکاونٹر میں استعمال ہونے والے ہتھیار ایس آئی بی کے ہی دفتر سے لائے گئے تھے۔
اس سلسلہ میں یہ تمام افسران گرفتار بھی ہوئے اور عرصہ تک جیلوں میں بھی رہے۔۔ مثال کے طور پر سب سے کلیدی ملزم ڈی جی ونجارا کو سی بی آئی نے گرفتار کیا اور وہ 8 سال تک سلاخوں کے پیچھے رہا۔ احمد آباد کا پولیس کمشنر پی پی پانڈے 19 مہینے تک جیل میں رہا۔ وہ گجرات پولیس کا سب سے سینئر پولیس افسر تھا جو عشرت جہاں انکاؤنٹر میں گرفتار ہوا۔اسی طرح این کے امین 2007 میں ہائی ڈرامہ کے بعد گرفتار ہوا اور 8 سال تک جیل میں رہا۔۔ این کے امین اور مذکورہ پولیس افسروں میں سے کئی افسروں کو سہراب الدین شیخ کے انکاؤنٹر کے معاملہ میں بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
اب یہاں سے کہانی دوسرا موڑ لیتی ہے۔۔ چونکہ 16مئی 2014 تک مرکز میں دوسری حکومت تھی اور اس کے بعد الیکشن کے نتیجہ میں نریندرمودی وزیر اعظم ہوگئے لہذا سی بی آئی عدالت سے یہ ساتوں پولیس افسر ایک ایک کرکے چھوٹتے چلے گئے۔۔ 2018 میں پی پی پانڈے کو ڈسچارج کیا گیا۔۔ مئی 2019 میں ڈی جی ونجارا اور این کے امین کو بھی ڈسچارج کردیا گیا۔۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جس سی بی آئی نے ایک نہیں بلکہ دو چارج شیٹ دائر کرکے مذکورہ (سات+چار) پولیس افسروں کو اس فرضی انکاؤنٹر کا قصوروار اور عشرت جہاں کو بے قصور قرار دیا تھا اب اس نے مذکورہ ملزم پولیس افسروں کو ڈسچارج کرنے کے سی بی آئی عدالت کے فیصلہ کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی اور نہ اس فیصلہ کو چیلنج ہی کیا۔ ادھر گجرات حکومت کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے بھی ان افسروں کے خلاف مزید کارروائی چلانے کی اجازت نہیں دی۔
یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عشرت جہاں کی والدہ شمیمہ کوثر جو مستقل اس مقدمہ میں اپنی مقتول بیٹی کیلئے انصاف کی جنگ لڑ رہی تھی سی بی آئی کے اس تبدیل شدہ رویہ سے ٹوٹ گئی اور اکتوبر 2019 میں اس نے اس مقدمہ کی مزید پیروی کرنے سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔۔ اس نے ایک پریس کانفرنس کرکے اپنی بے بسی کی داستان سنائی اور بتایا کہ کس طرح وہ اکیلی اب تک انصاف کی جنگ لڑتی رہی ہے۔اس نے کہا کہ آج کے بعد وہ گواہی کے لئے عدالت کا رخ نہیں کرے گی۔۔ سی بی آئی کے رویہ اور شمیمہ کوثر کی دستبرداری کے بعد ملزم پولیس افسران جی ایل سنگھل‘ ترون باروت اور اناجو چودھری کا کیس اور مضبوط ہوگیا اور آخر کار 30 مارچ 2021 کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے انہیں بھی بری کردیا۔
عدالت نے ڈسچارج کرنے کے جو اسباب شمار کرائے ان میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ گجرات حکومت نے ان پولیس افسروں کے خلاف (مقدمہ چلاکر سزا دینے کیلئے) مزیدکارروائی کی اجازت نہیں دی۔۔ جج نے لکھا: کہ
1- پولیس والے اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے
2- ان کے خلاف سی بی آئی کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی
3- دوسرے افسروں کو ڈسچارج کرنے کے اس سے پہلے کے آرڈرس کو بھی چیلنج نہیں کیا گیا
4- فرضی انکاؤنٹر کا کوئی سوال ہی نہیں
5- یہ پولیس افسران اپنے فرائض کے تئیں Dedicated تھے
6- فرضی انکاؤنٹر کا کوئی ثبوت نہیں ہے
7- حملہ آوروں کو ان کے منصوبوں سے روکنا ضروری تھا
8- آئی بی کی رپورٹ درست نہیں تھی
9- اور یہ کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ عشرت جہاں اور اس کے ساتھی دہشت گرد نہیں تھے۔
9 ویں نکتے پر غور کیجئے کہ عدالت نے کس طرح بات کو گھماکر ان مقتولین کو دہشت گرد قرار دے دیا۔۔ حیرت ہے کہ یہاں سے لے کر وہاں تک پھیلے ہوئے ملت کے بہی خواہوں میں سے کسی ایک نے بھی اب تک یہ نہیں پوچھا کہ اس کا ہی کیا ثبوت ہے کہ یہ دہشت گرد تھے۔
اب آئیے کچھ اور حقائق کا جائزہ لیتے ہیں: 24 ستمبر 2002 کو احمد آباد کے اکشر دھام مندر پر دہشت گردانہ حملہ ہوا۔اس میں 30 شردھالو مارے گئے۔بتایا گیا کہ مندر کے اند ردو حملہ آور موجود ہیں۔لہذا اسپیشل گارڈز کو طلب کیا گیا جنہوں نے گھنٹوں تک ان سے نبرد آزما رہنے کے بعد انہیں مار گرایا۔۔ اگر حملہ آور صرف یہی دو تھے تو انہیں مار گرانے کے بعد یہ معاملہ یہیں ختم ہوجانا چاہئے تھا۔لیکن گجرات پولیس نے اپنی تفتیش شروع کی اور اسی ڈی جی ونجارا نے‘ جس پر عشرت جہاں کو فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کرنے کا الزام تھا POTA کے تحت گجرات کے 6 بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کرلیا۔
ان پر الزام عاید کیا گیا کہ اکشر دھام حملہ کی سازش میں وہ بھی ملوث تھے۔۔ ان گرفتار شدگان میں ایک عالم دین مفتی عبدالقیوم منصوری بھی شامل تھے۔ ان تمام کو ایک روز کیلئے بھی ضمانت نہیں ملی۔ مقامی عدالت نے محض چار سال کی کارروائی کے بعد ان میں سے تین کو عمر قید اور تین کو موت کی سزا سنادی۔موت کی سزا پانے والوں میں مفتی عبدالقیوم منصوری بھی تھے۔گجرات ہائی کورٹ میں ان درماندہ لوگوں نے اپیل کی، لیکن یہاں بھی ان کی سزائے موت کی توثیق کردی گئی۔اب صرف یہی باقی تھا کہ انہیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔۔ جمعیت علماء نے سپریم کورٹ میں اپیل کی اور آخر کار جس روز لوک سبھا الیکشن کے نتائج میں نریندر مودی نے 2014 میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اسی روز (16مئی 2014 کو) سپریم کورٹ نے ان تمام 6 افراد کو باعزت بری کردیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اے کے پٹنایک اور جسٹس وی گوپالا گوڈا کی دو رکنی بنچ نے مفتی عبدالقیوم منصوری سمیت تمام ملزموں کو جیل سے فوری طور پر رہا کرنے کے احکامات دئے۔۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پولیس افسروں نے اپنی چھاتیوں پر بہادری کے تمغے سجانے کے لئے ان بے گناہوں کو پھنسایا۔۔ عدالت نے گجرات پولیس اور حکومت گجرات کو بھی سخت سست سنائیں۔
11سالوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے اور موت کی سزا سنائے جانے کے بعد سپریم کورٹ سے باعزت رہا ہونے والے مفتی عبدالقیوم منصوری نے ایک کتاب لکھی:” 11سال سلاخوں کے پیچھے”۔ انہوں نے اس کتاب میں ڈی جی ونجارا اور این کے امین کے لرزہ خیز مظالم کی داستانیں ان کا نام لے کر بیان کی ہیں۔انہوں نے وقت‘ دن تاریخ اور مقام کی واضح نشاندہی کے ساتھ بتایا ہے کہ 11سال اور خاص طورپر تفتیش کے کئی مہینے ان پر کیسے گزرے۔۔ مظالم کی یہ داستان پڑھنے والا اگر پتھر کا نہ ہو تو روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here