محبوبہ کی نظر بندی کے ایک دن بعد خاندان کے ہمراہ عمر عبد اللہ بھی نظربند

0
827
File Photo
File Photo
All kind of website designing

کل جمو ں و کشمیر کی سا بق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی کی نظر بندی کے بعد عمر عبداللہ نے اتوار کے روز ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انھیں اور ان کے ضعیف العمر والد فاروق عبد اللہ سمیت خاندان کے دیگر افراد کو بھی گھر میں نظربند کردیا گیا ہے ،وہیں انہوں نے بتایا ہے کہ گھرمیں کام کرنے والے ملازمین اور اسٹاف کو بھی اندر نہیں آنے دیا جارہا ہے۔عمر عبد اللہ نے اس کارروائی پر طنز کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’ کیا یہی آپ کی جمہوریت ہے‘‘

نئی دہلی : جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی اور نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے ٹوئٹر کے ذریعے اطلاع دی ہے کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو ایک بار پھر گھر میں نظربند کردیا گیا ہے۔ اس طعنہ شاہی پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے اتوار کے روز ٹویٹ شدید احتجاج درج کرایا ہے۔ اپنے ٹوئٹر پر انہوں نے کچھ تصاویر بھی شیئر کی ہیں، جن میں پولیس کی کچھ گاڑیاں اس کے گھر کے باہر کھڑی ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ٹویٹ کیا ہے5 اگست 2019 کے بعد یہ نیا جموں وکشمیر ہے۔ ہمیں بغیر کوئی وجہ بتایے اپنے گھر میں نظر بند کردیا گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا برا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اور میرے والد (سیٹنگ ایم پی) کو گھر میں پھر نظربند کردیا گیا ہے، میری بہن اور اس کے بچوں کو بھی ان کے گھر میں بند کردیا گیا ہے۔عمرعبد اللہ نے اپنے ٹویٹ کی سات تصویریں شیئر کیں ہیں، جس میں یہاں شہر کے گوپکار علاقے ان کی رہائش گاہ کے صدر دروازے پر بھاری تعداد میں پولیس کی گاڑیاں باہر کھڑی نظر آ رہی ہیں۔
انہوں نے ایک دوسرے ٹویٹ میں مودی سرکار پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ چلو! (لوک تنتر) جمہوریت آپ کے نئے ماڈل کا مطلب ہے کہ ہمیں بغیر کوئی وجہ بتایے اپنے گھروں میں نظربند کردیا جائے اور ہمارے گھر میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ دی جایے۔ اس کے باوجود آپ کو اس بات پر حیرانی ہے کہ مجھے اب بھی غصہ اور تلخی کیوں ہے۔
اس سے اس سے ایک روز قبل پی ڈی پی کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے بھی ہفتے کے روز بتایا تھا کہ گزشتہ سال دسمبر یہاں کے پاریمپورا علاقے میں مبینہ طور پر پولیس کے مشتبہ تصادم میں ہلاک ہونے والے تین عسکریت پسندوں میں سے ایک اطہر مشتاق کے اہل خانہ سے ملنے جانے سے پہلے ہی یہاں ان کو نظر بند کردیا گیا ہے۔
انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا”مجھے اطہر مشتاق جنہیں ایک مبینہ فرضی انکوائنٹر میں مارا گیا، کے اہلخانہ سے ملنے سے باز رکھنے کے لئے حسب معمول خانہ نظر بند رکھا گیا۔ اطہر کے والد پر اپنے بیٹے کی لاش مانگنے پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہی وہ نارملسی ہے جو حکومت ہند کشمیر کا دورہ کرنے والی یورپی یونین کے وفد کو دکھانا چاہتی ہے“۔
محبوبہ مفتی نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ایک ویڈیو بھی اپ لوڈ کیا ہے جس میں انہیں انتطامیہ کے ایک افسر سے مخاطب ہو کر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے”مجھے روز کیوں روکا جا تا ہے، مجھے جب بھی کہیں جانا ہوتا ہے تو جانے نہیں دیا جاتا ہے آج یہاں جانا تھا ایک تو اس بیچارے کے بچے کو مار دیا گیا اور اوپر سے اس کی لاش بھی نہیں دی جا رہی ہے اور اسی کے خلاف کیس درج کیا جاتا ہے“۔
ویڈیو میں موصوفہ کہتی ہیں”مجھے کیوں نہیں جانے دیا جا رہا ہے میں کیا کوئی قیدی ہوں، کوئی مجرم ہوں، مجھے وہ حکمنامہ دکھائے جس کے تحت مجھے بند کر دیا گیا ہے۔ آپ یورپی یونین کے وفد،جو یہاں آنے والا ہے، کی سیکورٹی کیسے ممکن بنا سکتے ہیں جب آپ یہاں کے رہنے والوں کو سیکورٹی نہیں دے سکتے ہیں“۔
ویڈیو میں محبوبہ مفتی کے سوالوں کے جواب میں انتظامیہ کے افسر کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے”میں ضلع انتظامیہ سے آیا ہوں، میں تحصیلدار ہوں سیکورٹی پرابلم ہے جس کی وجہ سے آپ کو روکا جا رہا ہے“۔ قبل ازیں وہ اپنے ایک ٹویٹ میںانہوں نے کہا ہے”کشمیر میں ظلم کی حکومت وہ تلخ حقیقت ہے جس کو حکومت ہند ملک کے باقی حصوں سے چھپانا چاہتی ہے۔ ایک 16 سالہ لڑکے کو مارا جاتا ہے اور اس کوعجلت میں دفن کرکے اہلخانہ کو آخری رسومات انجام دینے کے حق سے محروم کیا جاتا ہے“۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here