شیواجی کون تھے !

0
509
All kind of website designing

کیا شیواجی برہمنی ہندوتوا کے علمبردار اور مسلم دشمن تھے ؟

سمیع اللّٰہ خان
جنرل سکریٹری: کاروان امن و انصاف

آج ہمارے ملک میں نہایت جوش و خروش کے ساتھ شیوجنتی منائی جارہی ہے، آر ایس ایس نواز حکمراں طبقہ ایک مخصوص نظریہ کے ساتھ اس دن کا استعمال کرتاہے، عام مسلمان اور عام ہندوستانی شیواجی کے متعلق بہت کم جانتے ہیں، اس لیے ان کے ذہنوں میں شیواجی کی وہ شبیہ ہے جو برہمنی عناصر نے پھیلائی ہے، مصیبت یہ ہیکہ ایک طویل عرصے سے بھارتی لوگ برہمنوں کی لکھی ہوئی تاریخ پڑھتےہیں، ہمارے ملک میں شیواجی کی جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، وہ غیر محسوس طریقے سے شیواجی کی مسلم مخالف اور کٹّر شبیہ قائم کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بے شمار فسادات اس حوالے سے وجود میں آیے ہیں ۔
افسوس کی بات یہ ہیکہ مہاراشٹر میں بھی شیواجی کی حقیقی تاریخ کا بڑا فقدان ہے، منظم سازش کے تحت شیواجی کو ہندوتوا کا ہوّا بنایا گیا ہے، خاص طور پر مسلم علاقوں میں اس کے حوالے سے ریلیاں اور بھگوائی انداز اختیار کیا جاتاہے، اس حوالے سے بے شمار غلط فہمیاں عقائد کی طرح جڑ پکڑ چکی ہیں ۔
آج شیوجینتی ہے، میرا بھی حق بنتا ہے کہ اس بابت کچھ حق ادا کروں کہ شیواجی ہمارے مہاراشٹر کے ضلع رائے گڑھ کی نسبت سے میرے پڑوسی بھی ہیں، شیواجی عوامی راجا تھے، ہمارے یہاں مراٹھی میں انہیں जणते चा राजा کہا جاتا ہے۔
اور یقینًا شیواجی ایک مثالی راجہ تھے، وہ عہد ساز حکمرانوں میں سے ایک تھے، شیواجی کو سلطنت وراثت میں نہیں ملی تھی ،انہوں نے خود ایک سلطنت تعمیر کی تھی ،وہ بانئ سلطنت تھے، اور سلطنت تعمیر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، موروثی ریاست پر حکومت کرنے اور ایک نئی ریاست قائم کرکے اس پر حکومت کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شیواجی کا یہ کارنامہ ہیکہ انہوں نے ایسے وقت میں سلطنت کی بنیاد ڈالی جب اس کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اُس وقت شاہوں کی کاسہ لیسی ان کی خوشامد اور غلامی سے آگے کا کوئی تصور نہیں تھا، لیکن شیواجی پرعزم تھے اور انہوں نے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا، ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ ان کے منصوبوں اور عزائم میں عوام کے لیے واقعی سچائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت جلد فدائیان کا ایک گروہ ان کا ہمرکاب ہوگیا اور کئی مراحل ریاست کی تشکیل سے قبل کئی ایسے آئے جب عوام نے اپنے اس لیڈر کے لئے جانیں قربان کیں، نظریات اور اہداف پر کام کرنے والوں کی یہ پیشگی کامیابی ہوتی ہے کہ عوام کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ فلاں تحریک ہماری ہے، ہمارے لیے ہے، اس کی روح ان ارواح کو کھینچتی ہے۔
شیواجی کو یہ پیشگی کامیابی بہت جلد حاصل ہوگئی تھی، شیواجی کے سپاہیوں میں موت کو چومنے کا جذبہ کہ:” ہم مرجائیں گے مگر جس کام کی ابتداء ہوئی وہ پورا ہوناچاہئے،” یہ جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
شیواجی سے پہلے راجہ اور رعیت میں کوئی تال میل نہیں ہوتا تھا، عوام کو اس کی فکر نہیں ہوتی تھی کہ کون راجہ ہوا؟ اور کون گیا؟ دیہاتوں کا اپنا نظام ہوا کرتاتھا، پاٹل اور کلکرنی جیسی اصطلاحات ہوا کرتی تھیں ان منتظمین کے لیے جو نظام چلاتے تھے، محصول وصول کرنے والا ‘” وطن دار عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑتا تھا۔ ان کی داد رسی کے لیے کوئی ہوتا نہیں تھا، حکومتیں بدلتی رہتی تھیں لیکن، کلکرنی، پاٹل، وطن دار اور جاگیردار نہیں بدلتے تھے، شیواجی نے اس سمت بڑے بدلاؤ لائے، راجہ اور رعیت میں تعلق پیدا ہوا، ان کی فریادیں باقاعدہ سنی جانے لگیں اور ظلم کرنے والے افسران پر لگام کسی گئی، پاٹل، کلکرنی، وطن دار، جاگیردار اور دیشمکھ حکومتی نوکر قرار پائے، شیواجی کی سلطنت میں حکومت کی طرف دیکھنے کا عوامی نظریہ تبدیل ہوگیا ۔
شیواجی کے متعلق آر ایس ایس کے تاریخ سازوں نے بے شمار مغالطے پھیلائے ہیں۔ اسے کٹر وادی اور اپنا لوگو بنا کر پیش کیا ہے۔ ہندوؤں کو رجھانے اور مذہبی فائدہ اٹھانے کے لیے شیواجی کا بدترین استحصال کیا جاتاہے، جبکہ واقعات و حقائق بالکل برعکس ہیں ۔
تاریخ کی کتب سے واضح ہوتاہے کہ : شیواجی کے سوچنے کا زاویہ آر ایس ایس اور پجاریوں کی برہمنی بالادستی کی فکر سے پوری طرح متصادم ہے، آر ایس ایس طبقاتی استحصالی نظام کی علمبردار ہے، جبکہ شیواجی سیکولر منصفانہ نظام کا علمبردار تھا، آر ایس ایس کا قبلہ و کعبہ منواسمرتی ہے جس کے مطابق صرف ایک خاندان کے افراد معزز ہوسکتےہیں، ترقی اور پذیرائی صرف انہی کی ہوسکتی ہے، لیکن شیواجی اس کے قائل نہیں تھے ۔
آر ایس ایس کا برہمنی نظام عورتوں کے تئیں جاہلانہ تصورات رکھتا ہے، جبکہ شیواجی کے یہاں حالت جنگ میں بھی یہ سخت تاکید ہوتی تھی کہ لڑائی کے وقت مسلمان یا ہندو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والی خاتون ہاتھ آجائے تو اسے ہرگز ستایا نہ جائے، شیواجی نے اپنے افسران کو اس بابت حالت امن میں بھی کڑی سزائیں دیں ۔
اورنگ زیب کے ہمعصر مؤرخ خافی خان جو کہ شیواجی کا سخت مخالف تھا، اس نے اعتراف کیا ہے کہ شیواجی نے اپنی فوج کو حکم دے رکھا تھا کہ لڑائی کے وقت مسجد کا احترام کیا جائے، قرآن شریف ملنے پر اسے احترام کے ساتھ اپنی فوج کے مسلم سپاہیوں کے حوالے کیا جائے اور عورت کی عزت و عصمت کا خیال رکھاجائے، شیواجی کے وقت کے مہاراشٹر اور آج کے مہاراشٹر کا ذرا جائزہ لیں۔ کیا آج شیواجی ہوتے تو ان شیو بھگتوں کو بخش دیتے؟ آج جس طرح یہ حکومتیں شیواجی کا نام لے لے کر مرہٹوں کا استحصال کرتی ہیں وہ ظاہر ہے ۔
شیواجی کے دور میں مہاراشٹر کی صنعت و تجارت نے بھی ترقی کی، تاجروں کو بیوپار کے لیے اجازت دی گئی اور شرح ترقی کو تیز کیا گیا،
*شیواجی کا مذہبی نقطہٴ نظر*
آر ایس ایس اور بھاجپا نے ملکر پورے ملک میں یہ فضا بنائی ہے کہ: شیواجی کی لڑائی مذہبی تھی،شیواجی ہندوراشٹر کے لیے لڑتے تھے ،شیواجی گئو رکشک تھے ،شیواجی برہمنوں کے پاسبان تھے،شیواجی مسلمانوں کے مخالف تھے، شیواجی پرمیشور کے اوتار تھے ، شیواجی شیو یا وشنو کے اوتار تھے اور شیواجی اس لئے کامیاب ہوئے کیونکہ ان کی لڑائی مذہبی تھی۔
اس قسم کے تصورات ہندوستانی عوام کے ذہنوں میں دانستہ طور پر گھولے گئے، اور اب یہ عوامی سطح پر اندھے عقائد کی طرح پھیلے ہوئے ہیں ۔ جبکہ ان کا حقیقت اور واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ پوری طرح من گھڑت ہیں۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ آر ایس ایس اور اس کا برہمنی تھنک ٹینک شیواجی کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ آر۔ایس۔ایس شیواجی کی تقریب بھی نہیں مناتا اور یہ حقیقت ہندو عوام سے اوجھل ہے، شیواجی ان کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں، لیکن جس طرح امبیڈکر کی توقیر ان کی مجبوری ہے، اسی طرح بھاجپا کے لیے اب شیواجی کی پذیرائی بھی ان کی مجبوری ہے، وگرنہ شیواجی تو پوری طرح برہمنی نظام کے باغی تھے، وہ عوامی نظام پر یقین رکھتے تھے اور برہمنوں کی پوری بنیادیں طبقاتی نظام پر قائم ہیں، مذکورہ پروپیگنڈوں پر ہی غور کیا جائے تو ان میں سے شیواجی کی بے عزتی نکل کر آتی ہے،
شیواجی طبقاتی نظام کے خلاف تھے اور پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ شیواجی برہمنوں کے پاسبان تھے۔ یہی وہ گندی اور مکروہ ذہنیت تو برہمنوں کی جس نے اس بھارت کے کئی عظیم راجاؤں کی کردار کشی کی تاریخ سے کھلواڑ کیااور ان میں ایسی بدترین تحریفات کی ہیں کہ حقائق جاننے والی آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں، یہ تاریخ سازی صرف شیواجی کے ہی ساتھ نہیں بلکہ کئی راجاؤں کے ساتھ یہ ظلم کیا گیا ہے اور یہ برہمنوں کی گھٹیا، خود پرستانہ ذہنیت اور بالاتری کے زعم کی کارستانیاں ہیں ۔
ایک پروپیگنڈہ یہ ہیکہ، شیواجی کی لڑائی مذہبی تھی، اور اس کی کامیابی کی وجہ بھی یہی مورتیاں اور خود ساختہ مذہب اور اس کے دیوتا تھے۔ ہم ایسے لوگوں سے صرف یہ جاننا چاہتےہیں کہ اگر شیواجی کی کامیابی کا سہرا آپ کے خود ساختہ مذہب کے سر جاتا ہے، تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ: پرتھوی راج چوہان اور پرتاپ سنگھ جیسے راجاؤں نے شکست کیوں کھائی؟ یہ بھی تو اسی مذہب سے وابستہ تھے پھر یہ ناکام کیوں ہوئے؟
شیواجی کے متعلق صرف یہ پہلو عام کیا جاتاہے کہ وہ مسلمانوں سے لڑتے تھے اور اس وقت شیواجی کی بعض مسلم حکمرانوں سے جنگ کو خوب مرچ مسالہ کے ساتھ ہندوراشٹر کے اسٹیج سے بیان کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مسلم حکمرانوں نے شیواجی کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں ۔جو بالکل غلط اور سراسر بے بنیاد ہے۔
مہاراشٹر کے جن علاقوں میں شیواجی نے فتوحات حاصل کیں ان علاقوں میں مسلم بادشاہوں نے ہندوؤں کے ساتھ بہترین سلوک کیا، مراٹھے سردار، نامی کتاب میں ہے کہ:
نظام شاہی، قطب شاہی اور عادل شاہی حکومتوں میں مراٹھوں کو بہت رسوخ حاصل تھے، شیواجی کے والد، بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت میں خود افسر رہ چکے تھے،عادل شاہی اور مرہٹہ سلطنتوں میں رواداری کے قصے بھی بہت مشہور ہیں، شیواجی کے توپ خانے کا سردار مسلمان تھا، اور توپ خانہ فوج کا سب سے اہم شعبہ ہوتا تھا، جس طرح شیواجی کے پاس مسلمان سردار تھے ، اسی طرح مسلم حکمرانوں کی ماتحتی میں بے شمار مرہٹے سردار رہا کرتے تھے، جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، شاہ جی بیجاپور کی عادل شاہی میں نمایاں سردار تھے، اور یہ شیواجی کے والد تھے۔
مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ، کوکن اور دیگر خطوں میں چلے جائیں شیواجی ان علاقوں کے لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں، بلاتفریق یہ جو تاریخ سازی کی جاتی ہیکہ اس وقت شیواجی مسلمانوں سے لڑتے تھے اور مسلم حکمران شیواجی یا اور راجاؤں سے لڑتے تھے، اس کو جس طرح ہندو ہردیہ سمراٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
اس وقت مسلم حکمران مسلمانوں سے بھی لڑتے تھے، دہلی کے حکمران ابراہیم لودی سے بابر نے جنگ کی، ہمایوں اور شیرشاہ سوری میں خونریز تصادم رہا، بیجاپور اور گولکنڈہ مسلم شاہی تھی،لیکن اورنگ زیب نے ان سے جنگ کی۔ رانا پرتاپ اور اکبر کی جنگ کو مسلم بنام راجپوتانہ کی جنگ کہا جاتا ہے، لیکن اسی جنگ کا مرکزی پہلو اس پروپیگنڈے کی ہوا نکال دیتا ہے، اکبر کی فوجی قیادت راجپوت سردار مان سنگھ نے کی تھی ۔
سردیسائی اپنی تصنیف ” ریاست ” میں لکھتے ہیں :
“بیجاپور سے شیواجی کی لڑائی مذہبی نہیں تھی شیواجی کی مشکل یہ تھی کہ بیجاپور والوں کے تحت بڑے مراٹھا سرداد گھرانے تھے اور ان کے دلوں میں شیواجی کی کسی بھی طرح کوئی عزت نہیں تھی۔اسی طرح جب شائستہ خان سے شیواجی کی جنگ ہورہی تھی مہاراشٹر کے قدآور مرہٹے سردار شیواجی کے خلاف شائستہ خان کے ساتھ لڑرہے تھے ۔
بات طویل ہوتی جارہی ہے مختصریہ کہ:جو طبقہ اس وقت شیواجی کی جے جے کار کرتا ہے، ملک بھر میں اس کے پتلے سجاتا ہے، وہ درحقیقت شیواجی کا سب سے بڑا معاند ہے، ان لوگوں سے ذرا پوچھا جائے کہ جب شیواجی راجہ ہوئے تو مہاراشٹر کے برہمنوں نے شیواجی کی تاج پوشی کی مخالفت کیوں کی؟
ان کے مطابق ہندودھرم میں راجہ بننے کا حق صرف برہمنوں اورچھتریوں کو حاصل ہے اور شیواجی نے حکومت بہادری کی بنیاد پر حاصل کی تھی،جو لوگ شیواجی کو ” گئو برہمن پتی پالک ” کے نام سے منسوب کرتے ہیں، ان سے پوچھنا چاہیے کہ شیواجی نے خود کبھی اپنے لیے یہ طبقاتی غلامی کے القاب پسند نہیں کیے تو تم کیوں انہیں ایسے القاب سے منسوب کرتے ہو؟
شیواجی کے کئی مسلمہ مراسلے آج بھی دستیاب ہیں، شیواجی نے کہیں بھی خود کو ان القاب سے موسوم نہیں کیا ہے، وہ ان تمام مراسلات میں خود کوچھتریہ کلونت شری راجہ شیواجی ” سے موسوم کرتےہیں۔اس وقت قدیم اور معاصر تاریخ پوری طرح مسخ کی جارہی ہے۔ عظیم راجاؤں اور گنگا جمنی تہذیب کی علمبردار ہستیوں کی تاریخ مسخ کی جارہی ہے، ان کے افکار میں تحریف کی جارہی ہے۔
جس طرح گاندھی کو قتل کرنے والے گوڈسے کا مندر بنایا جارہاہے اور دوسری طرف یہ بھی کہا جارہاہے کہ ” ہم گاندھی وادی سماج وادی ہیں۔ ” بالکل اسی طرح شیواجی کے بشمول اصل عظیم بھارتی راجاؤں اور شخصیتوں کی تاریخ مسخ کی جارہی ہے اور خود کو شیو بھکت کہا جارہاہے ۔
یہ سنگین اور تباہ کن صورتحال ہے، اس وقت ہمیں اپنے ملک کے متعلق اور اپنے ملک کی قدیم تاریخ کےمتعلق حقائق نہیں معلوم ہیں، ۹۹ فیصد بھارتی پروپیگنڈوں کے شکار ہیں اور آپس میں لڑرہے ہیں، جبکہ لڑانے والے خود ہمارے اصل دشمن ہیں، وہ کل مغلوں اور مرہٹوں کے دشمن تھے ،راجپوتوں اور سرداروں کے دشمن تھے اور آج بھی وہ ہندوؤں یا مسلمانوں کے نہیں بلکہ شاہوں، سرداروں، راجا ؤ ں اور مرہٹوں کے ہی دشمن ہیں ۔
مصیبت یہ ہیکہ ہمارے یہاں تعلیم و تحقیق سے اب کوئی تعلق کسی کو بھی نہیں رہا ہے، ان موضوعات پر سیر حاصل مطالعہ عملی میدان میں اتر کر تحقیقی کام کرنا روزمرہ کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اس مضمون میں ہم نے شیواجی کا ایک حقیقی خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ہماری مذکورہ سطروں کو مزید محقق کرنے کے لیے آپ گووند پانسرے، نریندر دابھولکر اور رام پنیانی کو اس باب میں پڑھیں یہ حقائق آپ بہت سارے حوالوں سے مرتب کرلیں گے۔
اور ویسے بھی نعروں سے کچھ نہیں ہوگا، ہندوراشٹر کے جھوٹے غبارے کی ہوا نکالنا ہے تو، اپنے ملک کی سچائی پڑھیں، اُس سچائی کو پھیلائیں اپنے راجاؤں اور شاہوں سے واقفیت حاصل کریں، اور پھر انہیں ان کی حقیقی حیثیت سے عام کریں، ہندوراشٹر کے غبارے سے ازخود ہوا نکل جائے گی۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here