کورونا وائرس (COVID-19) سے متعلق نئے فقہی مسائل

0
1589
All kind of website designing

 

یورپی کونسل برائے افتاء و تحقیق کا تیسواں ہنگامی اجلاس

 (یکم تا ۴؍ شعبان ۱۴۴۱ھ بمطابق ۲۵؍ تا ۲۸؍ مارچ ۲۰۲۰ء) کے فتاویٰ

                     تلخیص و ترجمہ : محمد رضی الاسلام ندوی                      

سکریٹری شریعہ کونسل ، جماعت اسلامی ہند

(آخری قسط)

فتویٰ ۱۱ : کورونا میں مبتلا مریضوں سے نفرت کرنا
سوال: بعض لوگ کورونا میں مبتلا ہوجانے والے مریضوں اور ان کے گھر والوں سے انقباض محسوس کرتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں۔ کیا یہ رویّہ درست ہے؟
جواب: جو شخص کورونا میں مبتلا ہوگیا ہو، یا کسی اور وبا کا شکار ہو گیا ہو اس سے انقباض محسوس کرنا ،یا اس سے نفرت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ کوئی شخص کسی کو پریشان حال، مصیبت کا مارا یا کسی مرض کا شکار دیکھے تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اسے محفوظ رکھا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ کوئی شخص کسی کو کسی پریشانی میں مبتلا دیکھے تو یہ کہے: اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس پریشانی سے محفوظ رکھا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات سے بہتر بنایا۔‘‘ اللہ تعالیٰ اسے اس پریشانی سے محفوظ رکھے گا۔‘‘( ترمذی:۳۴۳۱، ۳۴۳۲، ابن ماجہ:۳۸۹۲)
اس کا عین امکان ہے کہ جو شخص کسی پریشانی میں مبتلا ہو اس کا درجہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس شخص سے زیادہ بلند ہو جو اس پریشانی سے محفوظ ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو بلند مرتبے پر فائز کرنا چاہتا ہے ، جس تک وہ اپنے اعمال سے نہیں پہنچ سکتا تھا، تو اس کے جسم یا مال یا اولاد کے معاملے میں اسے کسی پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس پر وہ بندہ صبر کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ اس کا درجہ بلند کردیتا ہے۔‘‘( ابو داؤد:۳۰۹۰، احمد:۲۲۳۳۸)
جو شخص کسی پریشان حال کی مدد کرسکے، کسی مریض کے مرض کی شدّت کو کم کرسکے، کسی بزرگ کا تعاون کر سکے، اسے اس کام سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے:’’انسانوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو دوسرے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے۔‘‘( طبرانی)
کسی وبا کی صورت میں لوگوں سے ملنے جلنے سے احتیاط کرنا اور وبا زدہ کسی شخص کے بارے میں رویّہ بدل لینا، دونوں میں فرق ہے۔ جو ڈاکٹر ایسے کسی مریض کا علاج کرتا ہے وہ جانچ اور علاج کے لیے ایسے مریض سے قریب ہوتے وقت تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے، لیکن اس سے انقباض محسوس نہیں کرتا اور اس سے متنفّر نہیں ہوتا۔ یہی رویّہ دوسرے انسانوں کا بھی ایسے مریضوں کے سلسلے میں ہونا چاہیے۔ اگر وہ ان کی کچھ مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے لیے شفا کی دعا کریں، انہیں نرمی اور احترام سے مخاطب کریںاور ان سے ملاقات کے وقت خندہ پیشانی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں۔
فتویٰ ۱۲: وبا کا روحانی علاج
سوال : وبائی امراض کے علاج کے لیے بعض لوگ اوراد و وظائف اور روحانی علاج بتاتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟
جواب: وبائی امراض کے علاج کے لیے جو اوراد و وظائف اور روحانی علاج کی جو صورتیں بعض لوگ تجویز کرتے ہیں ان میں سے بیش تر شرعی اعتبار سے درست نہیں ہیں، بلکہ وہ مقاصدِ شریعت سے ٹکراتی ہیں۔ لوگوں کو ان سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور جھاڑ پھونک کرنے اور وظیفے پڑھنے والے ایسے لوگوں کے پاس جانے سے بچنا چاہیے، جنھوں نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور کم زور اعتقاد رکھنے والوں کا بری طرح استحصال کیا ہے۔
امراض کی صورت میں اور خاص طور پر وبا کے موقع پر صحیح طریقہ یہ ہے کہ ماہر ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔ مسلمانوں اور دیگر تمام لوگوں کو چاہیے کہ وہ صحت کے ماہرین کی ہدایات اور حکومت کی ایڈوائزری کی سختی سے پابندی کریں۔ روحانی علاج کا جائز طریقہ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالی سے صحت اور شفا کی دعا کرے۔ اس میں اصل یہ ہے کہ یہ کا م آدمی خاص طور پر اپنے لیے کرے۔
فتویٰ ۱۳ : لاک ڈاؤن کے موقع پر گھر سے باہر نکلنا
سوال: لاک ڈاؤن کے موقع پر بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ کورونا کی وبا لوگوں کے ملنے جلنے سے پھیلتی ہے۔ اسی بنا پر لوگوں کی بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہو گئی ہے اور ان میں سے بہت سے وفات پا گئے ہیں۔ اس لیے جو شخص جان بوجھ کر یہ حرکت کرے گا وہ خطا کار، بلکہ گناہ گار ہوگا۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہیں، شدید ضروریات کے بغیر باہر نہ نکلیں اور دوسروں سے ملنے جلنے سے لازماً پرہیز کریں۔ جو شخص اس کے خلاف کرے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس وبائی مرض کا شکار ہوجائے گا اور اس کے ذریعے یہ مرض دوسروں میں منتقل ہوگا تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کا یہ عمل’ قتل شبہ عمد‘ کے درجے میں ہوگا۔
فتویٰ ۱۴: وبائی علاقوں کا یا وہاں سے نکل کر دوسرے مقامات کا سفر کرنا
سوال:جن علاقوں میں وبا پھیلی ہوئی ہو وہاں کا سفر کرنے یا وہاں سے نکل کر دوسرے مقامات پر جانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: کورونا وائرس ، جسےCOVID-19 کا بھی نام دیا گیا ہے، ایسا مہلک وائرس ہے جو لوگوں کے اختلاط سے پھیلتا ہے۔ کسی شخص کو یہ مرض لاحق ہو اور دوسرا اس سے ہاتھ ملائے یا اس کی کوئی چیز چھو لے تو اسے بھی یہ لاحق ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت بھی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ(البقرۃ: ۱۹۵)
’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً( النساء:۲۹)
’’ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو کہ اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے۔‘‘
حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ جس جگہ طاعون پھیلا ہوا ہو وہاں کوئی شخص نہ جائے اور وہاں موجود ہو تو وہاں سے نہ نکلنے۔( بخاری:۵۷۳۰، مسلم: ۲۲۱۹)
ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ جن مقامات پر کوئی وبا پھیلی ہوئی ہو وہاں جانا یا وہاں سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ اس کا سبب جان کی حفاظت ہے، جس کا شمار مقاصدِ شریعت میں ہوتا ہے۔ مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے شہر کے حکم رانوں اور صحتی محکموں کی ہدایات کی پابندی کرے اور بلا ضرورت اپنے گھر سے باہر نہ نکلے۔ اگر کسی شدید ضرورت سے نکلنا پڑے تو تمام احتیاطی ضوابط پر عمل کرے اور تحفّظ و سلامتی کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھے۔ صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وباؤں کے زمانے میں گھروں میں ٹِک کر رہنا واجب ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ سے طاعون کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’ یہ ایک عذاب تھا، جسے اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا تھا ،بھیجتا تھا۔ اسے اس نے اہل ِ ایمان کے حق میں رحمت بنا دیا ہے۔ جو شخص طاعون کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد صبر کرکے اپنے گھر میں بیٹھا رہے، اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھے اور اس کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ نے جو کچھ لکھ رکھا ہے وہ ہو کر رہے گا، اس کی اگر اس مرض میں موت ہوگئی تو اسے شہید کے برابر اجر ملے گا ۔‘‘( احمد:۲۶۱۳۹)
فتویٰ ۱۵: وباؤں کے زمانے میں مصافحہ اور معانقہ کرنا
سوال: وباؤں کے زمانے میں اگر مصافحہ اور معانقہ کرنے سے تعدیہ(Infection)کا اندیشہ ہو تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:ایک مسلمان کا اپنے بھائی سے ملاقات کے وقت اس سے مصافحہ کرنا مسنون ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے:
انّ المسلم اذا صافح أخاہ تحاتت خطایاھما کما یتحاتّ ورق الشجر( البزار)
’’ ایک مسلمان جب اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت سے پتّے۔‘‘
اگر مصافحہ اور معانقہ تعدیہ کا سبب بن رہا ہو ، جیسا کہ ڈاکٹروں اور ماہرین نے صراحت کی ہے تو اس صورت میں مصافحہ اور معانقہ کرنا حرام ہوگا۔ شرعی قاعدہ ہے: لا ضرر و لا ضرار( نہ خود نقصان اٹھاؤ اور نہ دوسرے کو نقصان پہنچاؤ۔) ما لا یتمّ الواجب الا بہ فھو واجب( جس کام کے بغیر کسی واجب پر عمل ممکن نہ ہو ، وہ بھی واجب ہو جاتا ہے۔)
حدیث میں ہے کہ قبیلۂ ثقیف کا ایک وفد نبی ﷺ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ اس میں ایک شخص کو جذام تھا۔آپؐ نے اس سے بیعت نہیں کی اور فرمایا:’’ تم واپس جاؤ۔ یہ سمجھو کہ میں نے تم سے بیعت کرلی۔‘‘( نسائی:۴۱۸۲)
اس میں شک نہیں کہ وائرس کا تعدیہ جذام کے تعدیہ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔
فتویٰ ۱۶: تعدیہ (Infection) کے سبب کسی شخص کی موت کی ذمے داری
سوال: اگر یہ ثابت ہوجائے کہ مجھے کورونا کا مرض تھا اور میرے ذریعے وہ کسی دوسرے شخص کو منتقل ہوا ہے تو کیا اس کا شمار قتل یا قتل ِخطا میں ہوگا ؟ شرعی طور سے مجھ پر کیا ذمے داری ہوگی؟
جواب: انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسی تما م تدابیر اختیار کرے جن کا اختیار کرنا اس کی اپنی جان اور دوسرے انسانوں کی جانوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اسے کورونا کا مرض ہے تو ضروری ہے کہ وہ دوسروں سے دور رہے، ورنہ گناہ گار اور بارگاہِ الٰہی میں جواب دہ ہوگا۔ اس لیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:’’ جب تم سنو کہ کسی جگہ طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس جگہ موجود ہو تو وہاں سے نہ نکلو۔‘‘(بخاری:۳۴۷۳، مسلم:۲۲۱۸) یہ حکم ہے اور مطلق حکم وجوب کا فائدہ دیتا ہے۔ بعض فقہائے احناف نے فتویٰ دیا ہے کہ اگر کوئی شخص طاعون میں مبتلا ہو، اس کی اسے خود بھی خبر ہو، پھر بھی وہ سفر کرے، جس سے یہ مرض دوسرے شخص کو لاحق ہوجائے اور وہ مر جائے تو اسے قتل بالسبب قرار دیا جائے گا اور اس پر دیت لازم ہوگی۔ لیکن اگر وہ تمام لازمی طبّی احتیاطی تدابیر اختیار کرے ، اس کے باوجود اس کا تعدیہ دوسرے شخص کو ہوجائے اور اس میں اس کی موت ہوجائے تو وہ قصور وار نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَا أَخْطَأْتُم بِہِ وَلَکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُکُمْ ( الاحزاب:۵)
’’نادانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو،‘‘
فتویٰ ۱۷: ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں کا بڑھانا
سوال: وبا کے موقع پر بعض حضرات غذائی اشیا کا ضرورت سے زیادہ ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ اسی طرح تاجر حضرات ایسے مواقع پر غذائی اشیا کو مہنگے داموں میں فروخت کرتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: اصل یہ ہے کہ مسلمان صرف اپنی معمول کی ضروری چیزیں خریدے اور حتّیٰ الامکان میانہ روی اختیار کرے، خاص طور پر بحرانوں اور وباؤں کے موقع پر۔ ضرورت سے زیادہ غذائی اشیا کا ذخیرہ کرنے میں مبالغہ سے کام لینا دوسروں کو ضرر پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔ لوگ غذائی کمی کے خوف کا شکار ہوجاتے ہیں اور اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ کسی مسلمان تاجر کے لیے جائز نہیں کہ وہ قیمتیں بڑھا کر یا قیمتیں بڑھنے کے انتظار میں ذخیرہ اندوزی کرکے لوگوں کا استحصال کرے۔ نبی ﷺ نے ذخیرہ اندوزی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
لا یحتکر الا خاطیٔ ( مسلم:۱۶۰۵)
’’ کوئی غلط کار ہی ذخیرہ اندوزی کرے گا۔‘‘
بحرانوں کے اوقات میں ضروری ہے کہ مسلمان خود غرضی کے بجائے ایثار اورانانیت کے بجائے رحم و کرم کا نمونہ بن جائے۔
فتویٰ ۱۸ : بہت سے مریض ہوں تو علاج میں کس کو مقدّم رکھا جائے؟
سوال: اگر بہت سے مریض موجود ہوں اور ونٹیلیٹر کم پڑ جائیں تو مسلمان ڈاکٹر کیا کرے؟مثال کے طور پر اگر ڈاکٹر کے سامنے دو مریض ہوں: ایک کا علاج کرنے سے اسے شفا ملنے کی امید ہو اور دوسرے کی گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر اس کے شفا پانے کی امید بہت کم ہو تو اس موقع پر ڈاکٹر کیا کرے ؟
جواب: مسلمان ڈاکٹروں کو چاہیے کہ وہ جن اسپتالوں میں کام کر رہے ہوں ان کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں ۔ اگر وہ بااختیارہوں تو طبی ، اخلاقی اور انسانی قدروں کی رعایت کریں۔ مثلاً کسی مریض کا علاج ہو رہا ہو تو اس سے طبی آلات اور مشینوں کو ہٹا کر بعد میں آنے والے کسی مریض کو لگا دینا جائز نہیں ہے ۔ اگر کسی ڈاکٹر کے سامنے دو مریض ہوں اور اس کے پاس کسی ایک ہی مریض کا علاج کرنے کا موقع ہو تو وہ اس کا علاج کرے جو پہلے آیا ہو ، الّا یہ کہ اس کے شفا پانے سے مایوسی ہو۔ جس کا علاج کچھ تاخیر سے کیا جا سکتا ہو اس پر اس مریض کو ترجیح دے جسے فوری فرسٹ ایڈ کی ضرورت ہو۔ جس مریض کے شفا پانے کی امید نہ ہو اس پر اس مریض کو ترجیح دے جس کے شفا پانے کی امید ہو۔ یہ فیصلہ غالب گمان اور طبی جانچوںکے بعد کیا جا سکتا ہے۔
فتویٰ ۱۹ : کورونا کے تناظر میں جنازہ کے احکام
سوال: کسی شخص کا کورونا کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال ہوجائے تو اسے غسل دینے، کفن پہنانے ، نماز جنازہ پڑھنے اور دفن کرنے کے سلسلے میں کیا احکام ہیں؟
جواب: زمان و مکان اور حالات بدلنے سے فتویٰ میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔ فقہ اسلامی میں متعدد ایسے قواعد بیان کیے گئے ہیں جن میں استثنائی صورتوں اور ناگزیر حالات کی رعایت کی گئی ہے۔ نعشوں کو دفن کرنے کے سلسلے میں ممالک کے قوانین اور متعلقہ محکموں کی ہدایات کی پابندی ضروری ہے۔ ان کی روشنی میں کورونا کے مرض میں ہلاک ہونے والے شخص کے جنازہ کے احکام درج ذیل نکات میں بیان کیے جائیں گے:
۱۔ جہاں تک کورونا کے مرض میں وفات پانے والے شخص کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں طویل بحثوں اوروبائی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں سے معلومات حاصل کرنے کے بعد کونسل اس رائے تک پہنچی ہے کہ میّت کو اسی بیگ اور تابوت میں ، جس میں اسے اسپتال سے نکالا گیا ہے، بغیر غسل یا تیمم کے ( چاہے قانونی طور پر اس کی اجازت ہو) دفن کرنا بہتر ہے۔
٭ مسلمان میّت کے غسل کا کیا حکم ہے؟ اس سلسلے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ جمہور اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ مالکیہ اور احناف کے ایک قول کے مطابق یہ سنّت ہے۔ یہ اختلاف معتبر ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غسل قول سے نہیں ، بلکہ عمل سے منقول ہے اور عمل کا کوئی ایسا صیغہ نہیں ہوتا جس سے وجوب کا پتہ چلتا ہو۔ راجح یہ ہے کہ میّت کو غسل دینا واجب ہے ، لیکن یہ حکم عام حالات کے لیے ہے۔ استثنائی حالات میں ، مثلاً وباؤں کے موقع پر میّت کو غسل دینے یا تیمّم کرانے کو ترک کرنا جائز ہے۔
٭ صحتی حلقوں میں آج کل یہ معروف بات ہے کہ میّت کو غسل دینے یا تیمّم کرانے والے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کریں ، اس کے باوجود تعدیہ کا خطرہ باقی رہتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں غسل دینے والے کو احتیاطی تدابیر کے سلسلے میں ٹریننگ اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا اب موقع نہیں ہے۔ جب طبی عملہ ٹریننگ اور انتہائی احتیاط کے باوجود تعدیہ کا شکار ہو رہا ہے تو غسل دینے والے ، جنہیں اس کی مہارت نہیں ہوتی ہے اور جو میّت کے براہ راست رابطہ میں رہتے ہیں ، وہ کیوں کر محفوظ رہ سکتے ہیں؟
٭ فقہی قواعد اور شرعی نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ صحت مند شخص کی زندگی کی حفاظت کو میّت کے حق میں سنّت یا واجب پر عمل کے مقابلے میں ترجیح دی جائے گی۔ احکام کے سلسلے میں غسل دینے والوں کے تعدیہ کا شکار ہوجانے اور ان سے دوسرے لوگوں کو تعدیہ ہوجانے کے ظن ّغالب کا اعتبار کیا جائے گا۔
کونسل اس جانب بھی متوجہ کرنا چاہتی ہے کہ اس وبا میں وفات پا جانے والے شخص کو اگر بغیر غسل دیے اور کفن پہنائے دفن کر دیا جائے گا تو اس کے اجر میں کچھ کمی نہیں آئے گی اور اس کے اہل خانہ اور مسلمان اس کے غسل و تکفین سے بری الذمہ ہوں گے۔ نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص بارگاہِ الٰہی میں شہید کے درجے میں ہوگا۔( بخاری:۵۷۳۴)
۲۔ جمہور کے نزدیک نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے۔ اگر بعض لوگ اسے انجام دے لیں تو تمام لوگوں سے اس کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ کفایت کرے گا کہ قانون جتنے لوگوں کو اجازت دے اتنے لوگ نماز جنازہ پڑھ لیں، خواہ ان کی تعداد صرف تین ہو۔
البتہ جو مسلمان چاہیں وہ غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھ سکتے ہیں، چاہے تنہا پڑھیں۔ بعض شوافع اور حنابلہ غائبانہ نماز جنازہ کے جواز کے قائل ہیں۔
۳۔ جہاں تک دفن کا معاملہ ہے ، اس سلسلے میں اصل یہ ہے کہ مسلمان کو وہیں دفن کیا جائے گا جہاں اس کا انتقال ہو ۔ صحابۂ کرام کو وہیں دفن کیا گیا جہاں ان کا نتقال ہوا۔ اسی طرح اصل یہ ہے کہ مسلمان کی تدفین مسلمانوں کے لیے مخصوص قبرستان میں ہو۔اگر اس میں کوئی دشواری ہو تو جہاں ممکن ہو وہاں اس کی تدفین کردینی چاہیے، چاہے غیر مسلموں کے قبرستان میں اسے دفن کرنا پڑے۔ آخرت میں انسان کا عمل اس کے کام آئے گا، اس کی تدفین کہاں ہوئی ہے ؟اس سے اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کا قول ہے: ’’کوئی زمین کسی کو مقدّس نہیں بناتی، بلکہ اس کا عمل اس کو مقدّس بناتا ہے۔‘‘(موطا امام مالک:۲۲۳۲)
فتویٰ ۲۰ : وبا میں مرنے والے کی نعش کو جلانا
سوال: جن لوگوں کا انتقال کورونا کے مرض میں ہوگیا ہو ، کیاان کی نعشوں کو جلایا جا سکتا ہے، اگر متعلقہ محکمے اس کا حکم دیں؟
جواب: مردوں کو قبروں میں دفن کرنا انسان کی عظمت و حرمت کے مطابق ہے۔ کتاب اللہ میں اس کا تذکرہ ہے:
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ کِفَاتاً ،أَحْیَاء وَأَمْوَاتاً ( المرسلات:۲۵۔۲۶)
’’ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا، زندوں کے لیے بھی اور مُردوں کے لیے بھی ۔‘‘
نبی ﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک مسلمانوں کے تمام علاقوں اور ان کے سماجوں میں اسی پر عمل ہورہا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اپنے مُردوں کے حق میں اسی سنّتِ محمّدی کو اختیار کرنے پر اصرار کرنا چاہیے۔
مسلمانوں کی دینی تنظیموں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ مسلمانوں کے نزدیک مُردوں کو دفن کرنے کے عمل کو کتنی اہمیت حاصل ہے؟ اور ان کی نعشوں کو جلانے کی صورت میں ان میں کتنا اضطراب پیدا ہوگا؟ اس کی وضاحت کریں اور متعلقہ محکموں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ نعشوں کو جلائے جانے کا فیصلہ نہ کریں۔
فتویٰ ۲۱ : دفن کی وصیت پر عمل کرنے سے معذوری
سوال : میری والدہ کا کورونا کے مرض میں انتقال ہوگیا۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں ان کے وطن ِ اصلی میں دفن
کیا جائے۔ آمد و رفت کے ذرائع پر پابندی کی وجہ سے ان کی نعش کو ان کے وطن ِ اصلی لے جانا ممکن نہیں ہے۔ پھر کیا جہاں ان کا نتقال ہوا، وہیں انہیں دفن کرنے سے ہم گناہ گار ہوں گے؟
جواب: اصل یہ ہے کہ انسان کا جہاں انتقال ہو وہیں اسے دفن کیا جائے۔ سنّت یہ ہے کہ حتّیٰ الامکان تدفین میں جلدی کی جائے۔ یہ حکم عام حالات میں ہے۔ پھر استثنائی حالات میں ، جب کہ نعش کو کہیں دوسری جگہ لے جانا اور وصیت کو پوری کرنا ممکن نہ ہو ، بہ درجۂ اولیٰ یہی حکم ہوگا۔ اس لیے وبائی حالات میں جس شخص کا جہاں انتقال ہو وہیں اسے دفن کردینا چاہیے۔ بعض صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جس شخص کا انتقال اپنے وطن سے دور کسی اور جگہ ہو، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل فرمائے گا۔ایک شخص ، جو مدینہ کا رہنے والا تھا، وہیں اس کا انتقال ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی، پھر فرمایا:’’ کاش اس کا انتقال وطن سے باہر کہیں اور ہوتا۔‘‘ لوگوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیوں؟ آپؐ نے فرمایا:’’ کسی شخص کا انتقال وطن سے باہر کہیں اور ہوتو جنّت میں اسے اتنی جگہ دی جائے گی جتنا فاصلہ اس کے وطن اور اس کے مقام ِ وفات کے درمیان ہوگا۔‘‘( نسائی:۱۸۳۲، ابن ماجہ:۱۶۱۴)
٭٭٭

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here