ایک عظیم داعئ اسلام کی رحلت : ڈاکٹر محمد حمید اللہ

0
1318

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

جیسے کوئی تسبیح ٹوٹ جائے اور اس کے دانے تیزی سے ایک ایک کرکے گرنے لگیں ، اسی طرح کا مشاہدہ آج کل ہورہا ہے _ روزانہ کسی نہ کسی کی وفات کی خبر دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے _ یا اللہ! رحم فرما _ اب علی گڑھ سے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی وفات کی خبر موصول ہوئی ہے _
علی گڑھ میں جن شخصیتوں سے میں بہت متاثر ہوا ان میں سے ایک حمید اللہ صاحب تھے _ انتہائی شریف ، وضع دار ، متقی و پرہیزگار، نماز باجماعت کے انتہائی پابند ، ہمیشہ مسکراکر بات کرنے والے ، بہت مُخَیّر ، جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آجائے _ 2001 کے اواخر میں مستقل رہائش کے لیے علی گڑھ آگئے تھے _ میری دہلی منتقلی (2011) تک دس برس برابر ان کا ساتھ رہا _ آخری برسوں میں بہت زیادہ بیمار رہنے لگے تھے ، یہاں تک کہ وقتِ موعود آگیا اور انھوں نے جان جان آفریں کے حوالے کردی _ وہ 92 برس کے تھے _ للہ ما أعطى و لہ ما أخذ _۔
حمید اللہ صاحب کی پیدائش یکم جون 1929 میں گورکھ پور سے متصل ضلع کُشی نگر (اترپردیش) میں ہوئی _ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی _ 1948 میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے انٹرمیڈیٹ کیا _ پھر شبلی کالج اعظم گڑھ سے BA اور گورکھ پور یونی ورسٹی سے MA کرنے کے بعد 1960 میں شبلی کالج میں ہی لیکچرر ہوگئے _ 1967 میں مسلم یونی ورسٹی سے انگلش میں .Ph.D کیا _ آپ کے تحقیقی مقالے کا موضوع تھا :Influence of Oriental Romamces on English Poetry with special reference to Byron & Moor _ اس کے کچھ دنوں کے بعد آپ شعبۂ انگریزی ہی میں لیکچرر ہوگئے ، جہاں 1981 تک بارہ برس تدریسی خدمت انجام دی _ اس کے بعد سعودی عرب چلے گئے ، جہاں 6 برس ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY) کے جدہ آفس اور ریاض ہیڈ کوارٹر میں بہ طور کنسلٹنٹ خدمت انجام دینے کے بعد آپ کو رابطۂ عالم اسلامی کی جانب سے افریقی ملک یوگنڈا بھیج دیا گیا _ وہاں آپ 1996 تک رہے _ اس کے بعد تقریباً 4 برس امریکہ میں اپنے بچوں کے پاس گزار کر واپس علی گڑھ آگئے _۔
حمید اللہ صاحب کا اصل تعارف داعئ اسلام کا ہے _ انھوں نے پوری زندگی اسلام کی تعلیمات عام کرتے ، انسانوں کو اسلام کی طرف بلاتے اور اس کا کلمہ بلند کرتے ہوئے گزاری _ جن دنوں وہ اعظم گڑھ میں تھے انھوں نے مشہور عالم دین مولانا مجیب اللہ ندوی کے ساتھ مل کر مضافات کی بستیوں میں دینی تعلیم کے فروغ کا منصوبہ بنایا _ روزانہ سنیچر کی شام کسی گاؤں میں نکل جاتے ، جہاں سے اگلے دن اتوار کی شام کو واپس آتے _ گاؤں کے مرد اور عورتیں جمع ہوجاتے تو انہیں اسلام کی بنیادی باتیں بتاتے ، دینی تعلیم کی اہمیت واضح کرتے اور عہد لیتے کہ اپنے بچوں کو ضرور دینی تعلیم دیں گے _ ان سے کہتے کہ پڑھانے والوں کا انتظام ہم کریں گے ، آپ لوگوں کو ان کے مصارف برداشت کرنے ہوں گے ، اس کی ترکیب یہ بتاتے کہ ہر گھر میں دو گھڑے رکھ لیجیے _ روزانہ جب کھانا پکانے لگیں تو دو مٹھی اناج اس میں ڈال دیں _ اس طرح مہینے بھر میں جو کچھ اکٹھا ہوجائے ، گھر گھر سے اسے جمع کرکے فروخت کردیا جائے ، اس طرح پڑھانے والے

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

کے مشاہرہ کا انتظام ہوجائے _ اس کوشش سے بہت سی بستیوں میں دینی تعلیم کا معقول نظم ہوگیا تھا _ WAMY آفس میں رہتے ہوئے انھوں نے اسلام کی بنیادی تعلیمات پر 11 کتابچے تیار کیے تھے ، جن کا دنیا کی 55 زبانوں میں ترجمہ کراکے لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیا گیا تھا _ یوگنڈا میں حمید اللہ صاحب کی دعوتی سرگرمیاں بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھیں _ انھیں رابطہ عالم اسلامی کی جانب سے ڈپلومیٹ کا درجہ دے کر بھیجا گیا تھا _ وہاں انھوں نے مسلم سپریم کونسل کا دستور تیار کروایا ، اس کے مفتی کا انتخاب کروایا ، اسلامک سینٹر ، یتیم خانہ اور مسلمانوں کے بہت سے ادارے قائم کروائے ، ان کے ہاتھ پر وہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا ، انھوں نے ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا ، ان کے تربیتی کیمپس منعقد کیے _ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے بہت سے داعی تیار کیے اور ان کی تربیت کی _ جیلوں میں بند مسلم قیدیوں کی خبر گیری کی ، ان کے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا _ وہاں بڑھتی ہوئی اسلامی سرگرمیوں پر امریکہ اور برطانیہ کے حکم رانوں کو تشویش ہونے لگی ، چنانچہ رابطہ عالم اسلامی پر دباؤ ڈال کر مالی امداد رکوادی گئی ، جس کے نتیجے میں تبلیغی کام سمٹ کر رہ گیا _۔
ڈاکٹر حمید اللہ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے جماعت اسلامی ہند کے مرکز رام پور میں عصری جامعات کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے قائم ثانوی درس گاہ سے استفادہ کیا تھا _ وہ 1848 میں انٹر کرنے علی گڑھ پہنچے ہی تھے کہ جماعت اسلامی والوں کے ‘ہتھّے’ چڑھ گئے _ چنانچہ اسی زمانے میں انھوں نے جماعت کا پورا لٹریچر پڑھ ڈالا اور اس سے وابستہ ہوگئے _ 1950 میں انھوں نے جماعت کے اجتماعِ رام پور میں شرکت کی _ اسی موقع پر نجات اللہ صدیقی صاحب نے امیر جماعت مولانا ابو اللیث ندوی اصلاحی سے اصرار کیا کہ ان کی دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے _ درس گاہ قائم ہوئی تو اس کے ابتدائی چار طلبہ میں نجات اللہ صدیقی صاحب ، عبد الحق انصاری صاحب اور شمس الہدی صاحب کے ساتھ حمید اللہ صاحب بھی تھے _ ثانوی درس کا نصاب 4 سالہ تھا ، جس میں قرآن ، حدیث ، فقہ اور ادب کی تعلیم دی جاتی تھی _ اس کے اساتذہ میں مولانا صدر الدین اصلاحی ، مولانا جلیل احسن ندوی ، مولانا سید احمد عروج قادری ، مولانا عبد الودود صاحب ، مولانا محمد ایوب اصلاحی جیراج پوری اور خود مولانا ابو اللیث صاحب بھی تھے _ حمید اللہ صاحب نے الگ سے رام پور رضا لائبریری کے لائبریرین مولانا امتیاز علی خاں عرشی سے بھی استفادہ کیا _ یہ تمام طلبہ ٹیوشن پڑھا کر اپنا خرچ پورا کرتے تھے _ طلبہ کے اس بیچ (Batch) نے آخری سال میں چند ماہ مدرسہ الاصلاح ، سرائے میر ، اعظم گڑھ میں گزارے ، جہاں مولانا حمید الدین فراہی کے شاگردِ رشید مولانا اختر احسن اصلاحی ، مولانا احتشام الدین اصلاحی اور مولانا محمد نظام الدین اصلاحی سے استفادہ کیا _۔
ملک میں 1975 میں ایمرجنسی نافذ ہوئی تو اس وقت حمید اللہ صاحب جماعت اسلامی ہند ، اے ایم یو ایریا کے امیر تھے _ سیاسی پارٹیوں کے ممبران کے ساتھ جماعت اسلامی کے ارکان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو انھوں نے بہت پامردی کا ثبوت دیا _ انھوں نے اپنے ساتھیوں کی ڈھارس بندھائی _ وہ خود گرفتاری سے بچے رہے ، اس لیے کہ اس زمانے میں علی گڑھ کے ڈی ایس پی (انٹیلیجنس) سری واستو صاحب ان کے والد صاحب کے جاننے والوں میں سے ، بلکہ ان کے احسان مند تھے _ چنانچہ حمید اللہ صاحب نے رفقاء کی پوری مدّتِ اسیری میں ان کا بہت خیال رکھا ، ضرورت کی چیزیں جیل میں پہنچاتے رہے اور ان کے گھر والوں کی بھی خبر گیری کی _
ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ سے ڈاکٹر صاحب کا خصوصی تعلق تھا _ 1981 میں اس کی تشکیلِ نو ہوئی تو اس کی مجلسِ منتظمہ کے رکن بنائے گئے _ ادارہ کی سرگرمیوں میں وہ بہت دل چسپی لیتے تھے _ ادارہ کے اس وقت کے سکریٹری مولانا سید جلال الدین عمری سے ان کا قریبی تعلق تھا _ ادارہ کے دفتر (پان والی کوٹھی) سے قریب ہی مزّمّل منزل کمپلیکس میں ان کا مکان تھا _ دفترِ ادارہ ہی میں مقامی جماعت کا ہفتہ وار اجتماع ہوتا تھا _ ادارہ میں وقتاً فوقتاً توسیعی خطبات کا بھی انعقاد ہوتا رہتا تھا _ ان تمام پروگراموں میں وہ بہت پابندی سے شرکت کرتے تھے _ جماعت کے اجتماعات میں بارہا ان کے دروسِ قرآن اور خطابات سننے کا موقع ملا ہے _ 2007 تک وہ ادارہ کی مجلسِ منتظمہ کے رکن رہے _ بعد میں صحت خراب رہنے لگی تو انھوں نے معذرت کرلی _۔
ڈاکٹر حمید اللہ کا ایک بڑا علمی کارنامہ مشہور مسلم فلسفی اور طبیب شیخ الرئیس ابن سینا (م1037) کی شہرہ آفاق تصنیف ‘القانون فی الطب کی جلد اول کا انگریزی ترجمہ ہے _ یہ جلد کلیاتِ طب پر ہے اور دقیق مباحث پر مشتمل ہے _ بانئ ہمدرد حکیم عبد الحمید نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسن اینڈ میڈیکل ریسرچ نئی دہلی کے تحت اس کا پروجکٹ تیار کیا تھا اور حکیم کبیر الدین کو اس کا نگراں بنایا تھا _ ان کی نگرانی میں حمید اللہ صاحب نے القانون کا عربی زبان سے براہ راست انگریزی میں ترجمہ کیا _ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی ، صدر شعبۂ فارسی و عربی ، کلکتہ یونی ورسٹی نے اس ترجمہ کا evaluation کیا تو اسے بہترین قرار دیا _ حکیم کبیر الدین صاحب نے ان سے کہا کہ میں نے القانون کا اردو ترجمہ کیا ہے ، اسے سامنے رکھ لیا کیجیے _ ان کی ہدایت پر ایسا کیا تو اردو ترجمہ میں بعض اغلاط دکھائی دیں، _ حکیم کبیر الدین صاحب سے بہت ادب کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے ان غلطیوں کو تسلیم کیا اور بہت محبت کا اظہار کیا _ ،لیکن جب ترجمہ پر بحیثیت مترجم ان کا نام شائع نہیں ہوا تو بددل ہوگئے _ بعد میں حکیم عبد الحميد صاحب نے آگے کام کرنے کے لیے بہت اصرار کیا ، یہاں تک کہا کہ میں blank check دے رہا ہوں ، اس پر بہ طور اجرت جتنی رقم چاہیں تحریر کر لیجیے _ لیکن حمید اللہ اس کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔
یوگنڈا سے واپسی کے کچھ زمانے کے بعد ڈاکٹر اصغر عباس ، ڈائریکٹر سرسید اکیڈمی ، مسلم یونی ورسٹی نے ان سے خواہش کی کہ سرسید کے کچھ مضامین کا انگریزی میں ترجمہ کردیں _ اس پروجکٹ کے تحت انھوں نے 27 مضامین کا ترجمہ کیا ، جو Selected Essays of Sir Syed Ahmad Khan کے نام سے 2004 میں سرسید اکیڈمی سے شائع ہوئے _۔
2010کے قریب حمید اللہ صاحب نے ایک پروجکٹ بنایا ، جس کے تحت ان کا منصوبہ تھا کہ انگریزی زبان میں سماجی اور اخلاقی موضوعات پر منتخب احادیثِ رسول کی تشریح کی جائے _ اس پروجکٹ کو انھوں نے Salience of Prophetic Guidance vis – a-vis Modern Thought کا نام دیا تھا _ خاکہ کی تیاری اور بعد کے مراحل میں وہ برابر مجھ سے مشورہ کرتے رہتے تھے _ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ پروجکٹ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکا تھا یا نہیں۔ _
ڈاکٹر صاحب راقمِ سطور سے بہت محبت کرتے تھے _ میری تحریریں ان کی نظر سے گزرتیں تو تحسین و ستائش کے کلمات کا اظہار کرتے _ میرا ان کے گھر بار بار جانا ہوتا تھا _ خوب تواضع کرتے _ چائے ناشتے کی ٹرے خود اپنے ہاتھ میں اٹھاکر لاتے اور اصرار کرکے خوب کھلاتے _ میں دہلی آگیا تو یہاں سے اپنی پسند کی کتابیں منگواتے _۔
آخری دنوں میں ڈاکٹر صاحب کا ذوقِ عبادت بہت بڑھ گیا تھا _ جب تک سکت رہی مسجد حاضری کا خوب اہتمام کرتے اور صفِ اوّل میں شامل ہوتے _ تہجد گزار بہت پہلے سے تھے۔شبلی کالج میں جب لیکچرار ہوگئے تھے تب حفظِ قرآن کا شوق پیدا ہوا ، چنانچہ کچھ پارے وہاں حفظ کیجیے ، بعد میں علی گڑھ پہنچنے کے بعد تکمیلِ حفظ کی _ WAMY کی مسجد میں مغرب کی نماز کی امامت کرتے تھے، _ وہاں ایک حلقۂ قرآن قائم کرلیا تھا ، جہاں روزانہ بعد نمازِ فجر درسِ قرآن کا اہتمام کرتے تھے _۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر موصوف کی تمام دینی خدمات کو قبول کرے ، ان کی سیئات سے درگزر فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے ، تحریک اسلامی اور امّتِ مسلمہ کو ان کا نعم البدل نصیب کرے اور تمام پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ، آمین ، یا رب العالمین!

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here