اپوزیشن کا مجرمانہ کردار اجا گر، الیکشن سے پہلے کشمیر میں دھماکہ منصوبہ بند تھا؟
سمیع اللہ خان
دو دنوں سے انٹرنیٹ پر ارنب گوسوامی نامی ایک سَنگھی اینکر کی واٹس ایپ چیٹ نے ہلچل مچا رکھی ہے۔ ارنب گوسوامی کی جو گفتگو طشت ازبام ہوئی ہے، وہ سابق BARC سی۔ای۔او پارتھ داس گپتا کےساتھ کی گئی گفتگو ہے ۔
خفیہ گفتگو کے جو حصے افشا ہوئے ہیں وہ ملکی سلامتی کے حوالے سے نہایت سنگین سوالات کھڑے کررہےہیں، خبروں کےمطابق ارنب گوسوامی کی مذکورہ واٹس ایپ گفتگو ممبئی پولیس کی چارج شیٹ کا حصہ ہے، یہ چارج شیٹ ارنب گوسوامی کےخلاف ٹی آر پی اسکیم میں داخل کی گئی ہے۔ ٹی۔آر۔پی گھوٹالہ کیس یہ ہیکہ ارنب گوسوامی نے اپنے بھاجپائی چینل ری پبلک کی ٹی آر پی یا مقبولیت زیادہ بڑھا چڑھا کر دکھانے اور خود کو نمبر ون پوزیشن پر دکھلانے کے لیے غیرقانونی طور طریقے اختیار کیے جس میں پارتھ داس گپتا نے اس کی مدد کی تھی ۔
گفتگو کا جو حصہ افشا ہوا ہے وہ بہت طویل ہے، اس نے جہاں مرکزي وزرا ، مین اسٹریم میڈیا، مشہور فلمی و گودی میڈیائی شخصیات کے آپسی بھیدبھاؤ کو ننگا کردیا ہے، وہیں یہ طشت ازبام دستاویز قومی سیکوریٹی سسٹم پر سنسنی خیز خلاصہ کررہی ہے۔
واٹس ایپ گفتگو یہ انکشاف کرتی ہےکہ:
’’ارنب گوسوامی بالاکوٹ فوجی کارروائی سے پہلے ہی واقف تھا اور پلوامہ کشمیر میں بمبار حملے پر خوشی سے جھوم اٹھا تھا‘‘۔
ارنب گوسوامی پلوامہ کشمیر میں ہونے والے حملے سے بہت خوش ہوا،اس حملے میں 40بھارتی فوجی مارے گئے، لیکن گوسوامی نے اس حملے پر یہ تبصرہ کیا: ” اس حملے سے ہماری بڑی جیت ہوئی ہے۔ ” آپ سوچتے ہوں گے کہ ہمارے ملک کے 40 جوانوں کی موت سے اس خونریزی پسند سنگھی کی کیا جیت ہوئی ہوگی؟ حتمی طورپر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔البتہ ایک تجزیہ یہ ہیکہ: کشمیر میں یہ حملہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے فروری ۲۰۱۹ میں ہوا تھا جس میں آر۔ایس۔ایس کی سیاسی پارٹی کی جیت ہوئی تھی اور مودی کی قیادت میں بھاجپا نے انتخابی ریلیوں میں فوجیوں کی اموات اور کشمیر میں حملے والے ایشوز کو مذہبی رنگ دےکر پرزور طورپر بھنایا تھا۔
ارنب گوسوامی کی مذکورہ واٹس ایپ گفتگو میں عدالت کے ججز پر بھی کچھ بات چیت ہے جس میں سنسنی خیز طورپر جج کو خریدنے کی بات کی جارہی ہے۔
ان کے علاوہ ارنب گوسوامی کی مذکورہ گفتگو سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ، مرکزی وزرا اسے بھرپور مدد دیتےہیں یہاں تک وزارت عظمیٰ سے بھی وہ مربوط ہے، نیز یہ کہ مرکزی وزیروں جیسے کہ اسمرتی ایرانی وغیرہ کو بلا کر ایوارڈ پروگرام کے ڈرامے کیسے ترتیب دیتےہیں، گفتگو سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ، گودی میڈیا خود آپس میں زبردست اندرونی کھینچاو رکھتی ہے، اس میں رجت شرما، نویکا کمار، اور کنگنا راناوت کےمتعلق بھی دلچسپ اور ان کی بے عزتی کرنے والے کمنٹس موجود ہیں۔ اس سے یہ بالکل واضح ہورہاہے کہ مودی بھکت گودی میڈیا کے قلوب آپس میں پھٹے پڑے ہیں _۔ہمیں اس گفتگو کے اس حصے سے کوئی مطلب نہیں جس میں یہ چاپلوس لوگ ایک دوسرے کو ننگا کررہےہیں۔ ہمیں سخت تشویش اس حصے سے ہورہی ہے جس میں ارنب گوسوامی کو قومی سلامتی اور سیکوریٹی سرحدی کارروائیوں کی اطلاعات پہلے سے ہیں، جس میں ججوں کی خریدوفروخت کےمتعلق گفتگو ہورہی ہے ۔
یہ جانکاری کسی غیرمعتبر فرم کی قیاس آرائی نہیںہے کہ اسے نظرانداز کردیا جایے، یہ واٹس ایپ گفتگو ممبئی پولیس کی عدالتی چارج شیٹ کی قانونی دستاویز کا حصہ ہیں۔ _
سوال یہ ہے کہ ارنب کے لیے کون سے خفیہ ادارے مخبری کررہےتھے؟ اور اگر پہلے سے ان کارروائیوں کا علم تھا تو انہیں وقوع پذیر کیوں ہونے دیاگیا؟ سلامتی معاملات ارنب تک کون پہنچاتا رہا؟
کیا ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ بھارت میں دہشت گردانہ کارروائیاں اقتدار پرقابض برہمنوں کی ریشہ دوانیوں کا حصہ ہوتےہیں… تاکہ ان کا اقتدار باقی رہے ؟ خواہ اس میں مالیگاؤں کا بم بلاسٹ ہو ،جس میں عام انسانوں کی جانیں چلی جائیں، یا ہیمنت کرکرے جیسے افسران کے قتل کے ليے بنایا گیا 26/11 کا منصوبہ ہو یا کشمیر میں ہونے والی خونی کارروائیاں جو فوجیوں اور عوام کی اموات پر منتج ہوتی ہیں… کیا یہ سبھی سازشیں اور ایسی خطرناک کارروائیاں سیاسی فائدوں اور متوقع عالمی نظام میں بھارت کی حیثیت طے کرنے کے لیے کے لیے نسل پرست برہمنوں کا دماغ ترتیب دے رہاہے؟ کیا ہم یہ سمجھیں کہ عدالتوں سے پرے بھی کوئی مارکیٹ ہے، جہاں انصاف کو کچل کر فیصلوں کی قیمتیں طے ہوتی ہیں؟ جہاں ضمیر کی بولیاں لگائی جاتی ہیں؟ اور سچائی پر جھوٹ کی نیلامی ہوتی ہے؟
یہ سب سوالات ارنب گوسوامی کی واٹس ایپ چیٹنگ سامنے آنے کی صورت میں کھڑے ہورہےہیں… ان کے جوابات یقینًا آئینی ادارے واضح کریں گے اور مزید تحقیقات کےبعد سامنے آئیں گے۔ البته یہ طے شدہ ہیکہ حکومت کا ایک بھی ریکارڈ، ایک بھی سروے، ایک بھی اعزازی تقریب، ایوارڈ کے ڈرامے اور اعدادوشمار صحیح نہیں ہوتے، یہ سب جھوٹ پر قایم سیاسی اسکرین ہوتی ہیں جوکہ جعلسازی پر مبنی ہوتی ہیں ۔
معروف قانون داں اور سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن کےمطابق جو باتیں ارنب گوسوامی کی افشا ہوئی ہیں، یہ معاملہ اگر کسی بھی قانونی اور اصولی ملک میں ہوتا تو ارنب جیل میں ہوتا… بعض مبصرین کےمطابق: اگر سرحدی معاملات پر قومی و ملکی سلامتی کے ايسے سنگین واقعات کا ایک سیاسی منصوبہ بند پس منظر طشت ازبام کرنے والی یہ دستاویز کسی اور ملک میں سامنے آتی تو عوام برسراقتدار پارٹی کو اب تک سوالات کے گھیرے میں نااہل قرار دے چکی ہوتی۔
ارنب گوسوامی کی واٹس ایپ گفتگو خطرناک ہے، اگر یہ صحیح ہے تو اس کا مطلب ملک انتہائی غلط ہاتھوں میں ہے، مسلمانوں کےخلاف پروپیگنڈے ہوں کہ نفرت انگیزی، یا خونی کارروائیاں، ان سب میں کہیں نہ کہیں حکومتی ادارے ملوث ہیں، ایسے کرپٹ ترین نظام کا نتیجہ رسوائی اور تباہی کے سوا اور کیا ہوگا؟ لیکن بھلا ہو سیکولرزم اور دیش بھکتی کے ٹھاٹھیں مارتے جذبات کا جو کارروائیوں کے وقت سڑکوں پر وطنیت کا سرٹیفکیٹ لیے چیختے پھرتے ہیں ، وہ شاید اب جان چکے ہوں گے کہ سرٹیفکیٹ دینے والے اوپر بیٹھے ٹھیکیدار انہیں کیسی نظروں سے دیکھتے اور زیرلب مسکراتے انہیں ………… کہتے ہوں گے _۔
اس معاملے پر بعض لوگوں نے جو لکھا ہے وہ راقم سطور کا بھی احساس ہے، اس موقع پر جو چیز سختی سے محسوس کی جانے والی ہے وہ یہ کہ: اب ہندوستان کی اپوزیشن کہاں ہے؟ اس قدر سنگین سیکورٹی کے راز طشت ازبام ہونے پر تو اپوزیشن کی ذمہ داریاں مزید ہوجاتی ہیں؟ اب تک انہیں اس معاملے کو لیکر سچائی کا شور اٹھا دینا چاہئے تھا، اور یہ سڑک پر اپوزیشن کا ہی موقع ہے، لیکن ٹوئٹر سے آگے ان کی بھی آواز گم ہے، یہ کوئی عام صحافی کی فیکٹ فائنڈنگ نہیں ہے، یہ تو وزیراعظم کے قریبی اینکر کی گفتگو کا حصہ ہے جسے ممبئی جیسے پولیس ڈپارٹمنٹ نے پیش کیا ہے، اس پر حکومت کو گھیرنے میں کیا باک ہے؟ ایسے ہی مواقع پر لگتاہے کہ اپوزیشن برائے نام بھی نہیں ہے، یہ سبھی آر۔ایس۔ایس کے کھیل میں شامل ہیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں