آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔ Aage Aage Dekhiye…

0
553
All kind of website designing

سپریم کورٹ کا کمز ور فیصلہ ‘ کسانو ں کا عزم بالجزم

عبدالعزیز

سپریم کورٹ نے 11 جنوری سے کسان اور حکومت کی کشمکش کو ختم کرنے کے لئے شنوائی شروع کی۔ پہلے دن سپریم کورٹ کا تیور اور انداز کچھ ایسا تھا کہ واقعی سپریم کورٹ حکومت کی نا کامی اور نااہلی پر جو زبردست تبصرہ کیا ہے اور پھٹکار لگا ئی ہے کوئی بڑا فیصلہ کر کے معاملے کو ختم کر کے دم لے گی مگر دوسرے دن کی سماعت اور فیصلہ سپریم کورٹ نے نرالا کیا ہے۔ جس سے بہتوں کو سخت مایوسی ہوئی ہے اور سپریم کورٹ کی ساکھ بھی مجروح ہوئی ہے۔ تینوں متنازع قوانین پر محض دو مہینے کے لیے روک لگا دی اور ایک ایسی پینل کمیٹی کی تشکیل کی جس سے فیصلہ کی جان نکل گئی چار ایسے اشخاص پر مشتمل کمیٹی بنائی جس میں سب کے سب کسان قوانین کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ بہت جانے پہچانے وکیل اور مبلغ ہیں اس کمیٹی کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کسانوں کی شکایات سنے گی اور مسائل اور مشکلات جاننے کی کوشش کرے گی اور دو ماہ کے دوران کورٹ کو رپورٹ پیش کرے گی۔ ایسی کمیٹی جس کا ہر فرد حکومت کی حاشیہ بردار ی میں مضامین لکھے ہوں بیانات اور انٹر ویو دیئے ہوں حکومت کو خط لکھے ہوں کہ کسانوں کے قوانین بہت اچھے اور کار آمد ہیں انہیں واپس لینا تباہی کا باعث ہوگا اس سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ جو رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کی جائے گی سپریم کورٹ کو پہلے سے معلوم ہے اور کسان بھی نا واقف نہیں ہیں کسان تو پہلے دن سے ہی سپریم کورٹ سے غیر مطمئن ہونے کا برملا اظہار کر چکے ہیں اور یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ وہ نہ کسی کمیٹی میں شامل ہوں گے اور نہ کسی کمیٹی سے ربط و تعلق رکھیں گے۔ سپریم کورٹ کو تو معلوم ہے کہ مودی حکومت کے وزرا قوانین کی خوبی اور بہتری کا درس کسانوں کو چالیس پچاس دن سے پڑھا رہے ہیں مگر سمجھا نے اور پڑھا نے میں نا کام ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ماہرین کے ذریعے کسانوں کی تعلیم اور تربیت کا بندوبست کیا ہے کسان سپریم کورٹ کو دہلی کی سرحدوں سے آواز دے رہے ہیں کہ ماہرین یہاں بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں سمجھنا ہے وہ یہاں آئیں سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ حکومت بغیر وسیع تر مشاورت کے آناًفاناً کسان بل کورونا کال میں اپوزیشن کی مزاحمت اور مخالفت کے باوجود پاس کر لیا یہی وجہ ہے کہ وہ کسانوں کو سمجھا نے میں نا کام ہے۔
حکومت کے سامنے وہ چند پونچی پتی ہیں جن کے مفاد میں یہ قوانین بنائے گئے ہیں کہا جاتا ہے کہ کاپریٹ ہائوسز نے بل بناکر حکومت کے سپرد کیا ہے۔ مودی اور شاہ نے وعدے کے مطابق بل پاس کرا لیا ہے ۔شاہ اور شہنشاہ نے شاہین باغ کے احتجاج کو جس طرح بے اثر کرنے کی کوشش کی اور عدالت کے ذریعے اس کو ملیا میٹ کیا اسی طرح وہ سمجھ رہے تھے کہ کسانوں کو بھی رام کرلیں گے یا زور زبردستی ختم کر کے دم لیں گے لیکن یہاں پانسہ پلٹ گیا ہے ۔کسان پورے ملک میں ایک ہوگئے ہیں چند لوگ جو حکومت کے زرخرید ہیں وہ بے اثر اور بے معنی ہیں ان کی حیثیت کسانوں میں نہیں کے برابر ہے ۔ حکومت کے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کبھی ان کے وزرا اور ساتھی براتی یہ کہتے ہیں کسان اندولن چین اور پاکستان کی سازش کا نتیجہ ہے کبھی اربن نکسل کا الزام دے رہے ہیں کبھی خالصتا نی کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کبھی اپوزیشن پر الزام لگا رہے ہیں۔ راج ناتھ سنگھ پریوار کے ارکان کو سمجھا رہے کہ یہ کہہ کر کسانوں پر شک و شبہ ظاہر کرنا غلط ہے۔
سپریم کورٹ کا معیار اور انداز دن بدن گراوٹ کی طرف جا رہا ہے جس سے کورٹ کی ساکھ مجروح ہوتی جارہی ہے کسانوں کے قوانین میں تھوڑی بہت حرکت بھی دیکھنے میں آئی مگر سی اے اے معاملے میں سپریم کورٹ کو سانپ سونگھ گیا ہے ۔یہی حال کشمیر کے معاملے میں تھا۔سپریم کورٹ کا رویہ بہت سے معاملے میں قابل اطمینان نہیں ہے۔ کورٹ کے دروازے کے سامنے بہت سے سنگین معاملے کھڑے چیخ اور چلا رہے ہیں مگر سپریم کورٹ کی آنکھ اور کان دونوں بند ہیں لیکن ارنب گوسوامی کیلئے فوراً آنکھوں اور کانوں کا کھلنا انصاف پسند وں کو حیرت زیادہ کر دیا۔ آج کے بہت سے قومی اخبارات میں سپریم کورٹ نے جس طرح سے سی اے اے، سیڈیسن ایکٹ کے غلط استعمال، لوجہاد، کشمیر کے معاملے اور دیگر افراد کی ضمانتیں کو سرد خانے میں ڈال رکھا ہے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور عدالت کے معیار پر بہت بڑا سوال کھڑا کیا ہے ایک طرح سے حبیب جالب کی آواز کو دہرایا ہے:

لگتا ہے اس دیس میں عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انساں کی حفاظت نہیں ہوتی

عدالت کا حال اور رویہ یہی کچھ رہا تو عدالت سے لوگوں کا اعتماد اور اعتبار ختم ہوجائے گا۔
سپریم کورٹ نے کسان قانون کو سمجھنے کیلئے تین قوانین کے حامیوں پر مشتمل کمیٹی کی تشکیل کی ہے۔ حکومت بھی کمیٹی بنانا چاہتے ہی جو حکومت نہیں کرسکی وہ سپریم کورٹ نے کر دکھایا کمیٹی کا ہر فرد قونین کی وکالت میں بڑھ چڑھ کر تحریر ی اور غیر تحریری رائے دے چکا فرق صرف اتنا ہوگا کہ کمیٹی کے چاروں افراد کی رائے اجتماعی طور پر لکھی جائے گی کہ قانون کسانوں کے بہت فائدہ مند ہے انہیں رد کیا گیا تو ہندو ستان کے کسانوں کی ترقی میں زبردست رکاوٹ ہوگی ۔یہ سارے لوگ حکومت اور دولتمند وں کے حامی اور مددگار ہیں سپریم کورٹ کو یہ سارے نام حکومت کے وکلا نے دیے ہوں گے۔سپریم کورٹ کی یہ کمیٹی آزادانہ رائے دینے اور پیش کرنے کی اہل نہیں ہے۔ لہذا ایسی کمیٹی کا م کرنے سے پہلے ہی اپنا معیار کھو چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے کھل کر حکومت کی معاونت کی ہے لیکن مسئلہ کے حل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

()()()
E-mail:[email protected]

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here