پوجا کی وجہہ سے سبھی دفاتر بند تھے اور میں اشوک راج پتھ سے گزر رہا تھا۔اردو اکادمی کے دفتر کے سامنے کافی بھیڑ تھی اور سبھی لائن میں کھڑے تھے۔میں نے سلطان سے کہا اپنی گاڑی اکادمی میں لے چلو پتہ کرو یہ بھیڑ کیسی ہے۔اندر کا نظارہ دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔لائن میں کھڑے سبھی ادیب اور شاعر اور کچھ صحافی بھی تھے۔میں نے ایک سے پوچھا ۔۔۔
’کیا بات ہے بھائی،کیا بریانی کی پیکٹ تقسیم ہونے والی ہے؟‘
’نہیں ہم بریانی کے لیے نہیں بلکہ پٹنے کے لیے جمع ہیں۔‘ان میں سے ایک شاعر نے سمجھاتے کہا ’آپکو معلوم ہی ہے کہ اردو کے نامور افسانہ نگار شموئل احمد کی اکادمی کے کانفرنس ہال میں پٹائی کر دی گئی ہے۔اکادمی کے سکریٹری جناب نوری صاحب جو ایک پہنچے ہوئے عالم بھی ہیں نے فتویٰ دیا ہے کہ پٹنے کی وجہہ شموئل احمد کی مقبولیت آسمان پر پہنچ گئی ہے۔اردو کا کون ایسا شاعر اور ادیب ہے جو شہرت نہیں چاہتا ہے۔ہم سب یہاں پٹنے کے لیے جمع ہوے ہیں!‘
’پہلے یہ بتائیں کہ شموئل صاحب کو کسنے پیٹا اور کیوں پیٹا؟‘ میں نے اپنے رپورٹر والے ذہن کا استعمال کیا اور دریافت کیا۔’ شموئل صاحب نے کیا کیا ہے؟‘
’شموئل کی ایک کہانی لنگی سے لوگ خفا تھے۔‘
’وہ لنگی کہاں ہے؟‘
’وہ تو کھل گئی۔‘ اس جواب پر ایک ادیب نے تقریر شروع کر دی ۔’اس بات کی جانچ ہونی چاہیے کہ لنگی کس نے کھولی؟ ‘ بغل میں کھڑے ایک نوجوان نے ٹھمکا لگایا۔’ لنگی کے اندر کیا ہے؟‘ دوسرے نے ڈانٹ کر کہا ۔گانا میں لنگی نہیں بلکہ ’چولی کے اندر کیا ہے‘ لنگی کی بکواس بند کرو۔‘
اسی درمیان پیر بہور تھانہ سے پولس آچکی تھی۔سپاہیوں نے پوزیشن سنبھال لی۔پٹنہ کے سینیر ایس پی منو مہاراج بھی آ دھمکے۔مجھ سے پوچھا۔یہ سب کیا ہے پترکار جی؟‘ میں نے شموئل صاحب کے پٹنے اور نوری صاحب کے فرمان کے بارے بتایا تو منو مہاراج چلا پڑے اور اپنے سپاہیوں سے کہنے لگے۔’خبر دار جوانوں اپنی لاٹھیاں اپنے قبضے میں رکھو! یہ بیچارے کوی اور لیکھک ہیں ۔انہیں شہرت کی بھوک ہے۔ہم لاٹھی چلا کر انکی شہرت کی وجہہ نہیں بن سکتے۔ایک بھی کوئی لیکھک اور پترکار گھائل ہو گیا تو تم سبھی سسپنڈ کر دیے جاؤ گے۔یہ لوگ تو یہی چاہتے ہیں۔اگر یہ شعر بھی ماریں تو برداشت کر لو مگر لاٹھی نہ چلاؤ۔‘ اسی درمیان نوری صاحب بھی آچکے تھے۔حالات کا جائزہ لینے کے مجمع کو سمجھانے لگے۔’شموئل نے ایک فحش کہانی لنگی لکھی تھی اس لیے پٹے۔آپ لوگوں نے ایسا کچھ لکھا ہے تو پٹنے کی بات کی جا سکتی ہے۔‘ نوری صاحب کی تقریر سنکر مایوسی پھیل چکی تھی۔مجمع میں شہرت کی تمنا لیے خواتین بھی تھیں۔ ان میں سے ایک نے تقریر شروع کر دی،’ہم میں سے کسی نے بھی لنگی نہیں پڑھی ہے۔ میری تجویز ہے کہ اکادمی لنگی کو چھپواکر تقسیم کرائے۔اگر فحش ہوئی تو ہم خواتین ایک بار جم کر پٹائی کریں گی کہ وہ افسانہ لکھنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔‘
میں سوچتا رہا کہ اگر پولس لاٹھی چارج کر دیتی تو بے چارے شاعر اور ادیب مفت میں پٹ جاتے اور اکادمی کی بدنامی الگ ہو جاتی۔
’کیا بات ہے بھائی،کیا بریانی کی پیکٹ تقسیم ہونے والی ہے؟‘
’نہیں ہم بریانی کے لیے نہیں بلکہ پٹنے کے لیے جمع ہیں۔‘ان میں سے ایک شاعر نے سمجھاتے کہا ’آپکو معلوم ہی ہے کہ اردو کے نامور افسانہ نگار شموئل احمد کی اکادمی کے کانفرنس ہال میں پٹائی کر دی گئی ہے۔اکادمی کے سکریٹری جناب نوری صاحب جو ایک پہنچے ہوئے عالم بھی ہیں نے فتویٰ دیا ہے کہ پٹنے کی وجہہ شموئل احمد کی مقبولیت آسمان پر پہنچ گئی ہے۔اردو کا کون ایسا شاعر اور ادیب ہے جو شہرت نہیں چاہتا ہے۔ہم سب یہاں پٹنے کے لیے جمع ہوے ہیں!‘
’پہلے یہ بتائیں کہ شموئل صاحب کو کسنے پیٹا اور کیوں پیٹا؟‘ میں نے اپنے رپورٹر والے ذہن کا استعمال کیا اور دریافت کیا۔’ شموئل صاحب نے کیا کیا ہے؟‘
’شموئل کی ایک کہانی لنگی سے لوگ خفا تھے۔‘
’وہ لنگی کہاں ہے؟‘
’وہ تو کھل گئی۔‘ اس جواب پر ایک ادیب نے تقریر شروع کر دی ۔’اس بات کی جانچ ہونی چاہیے کہ لنگی کس نے کھولی؟ ‘ بغل میں کھڑے ایک نوجوان نے ٹھمکا لگایا۔’ لنگی کے اندر کیا ہے؟‘ دوسرے نے ڈانٹ کر کہا ۔گانا میں لنگی نہیں بلکہ ’چولی کے اندر کیا ہے‘ لنگی کی بکواس بند کرو۔‘
اسی درمیان پیر بہور تھانہ سے پولس آچکی تھی۔سپاہیوں نے پوزیشن سنبھال لی۔پٹنہ کے سینیر ایس پی منو مہاراج بھی آ دھمکے۔مجھ سے پوچھا۔یہ سب کیا ہے پترکار جی؟‘ میں نے شموئل صاحب کے پٹنے اور نوری صاحب کے فرمان کے بارے بتایا تو منو مہاراج چلا پڑے اور اپنے سپاہیوں سے کہنے لگے۔’خبر دار جوانوں اپنی لاٹھیاں اپنے قبضے میں رکھو! یہ بیچارے کوی اور لیکھک ہیں ۔انہیں شہرت کی بھوک ہے۔ہم لاٹھی چلا کر انکی شہرت کی وجہہ نہیں بن سکتے۔ایک بھی کوئی لیکھک اور پترکار گھائل ہو گیا تو تم سبھی سسپنڈ کر دیے جاؤ گے۔یہ لوگ تو یہی چاہتے ہیں۔اگر یہ شعر بھی ماریں تو برداشت کر لو مگر لاٹھی نہ چلاؤ۔‘ اسی درمیان نوری صاحب بھی آچکے تھے۔حالات کا جائزہ لینے کے مجمع کو سمجھانے لگے۔’شموئل نے ایک فحش کہانی لنگی لکھی تھی اس لیے پٹے۔آپ لوگوں نے ایسا کچھ لکھا ہے تو پٹنے کی بات کی جا سکتی ہے۔‘ نوری صاحب کی تقریر سنکر مایوسی پھیل چکی تھی۔مجمع میں شہرت کی تمنا لیے خواتین بھی تھیں۔ ان میں سے ایک نے تقریر شروع کر دی،’ہم میں سے کسی نے بھی لنگی نہیں پڑھی ہے۔ میری تجویز ہے کہ اکادمی لنگی کو چھپواکر تقسیم کرائے۔اگر فحش ہوئی تو ہم خواتین ایک بار جم کر پٹائی کریں گی کہ وہ افسانہ لکھنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔‘
میں سوچتا رہا کہ اگر پولس لاٹھی چارج کر دیتی تو بے چارے شاعر اور ادیب مفت میں پٹ جاتے اور اکادمی کی بدنامی الگ ہو جاتی۔
پٹنے کی تمنا لیے شاعر ادیب اپنے گھروں کو لوٹنے لگے اور نوری صاھب بھی منو مہاراج کا شکریہ اداکر علی نگر روانہ ہو گئے۔*
(رابطہ9431421821)
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں