مالک اشتر
25فروری تاریخ تھی اور دن جمعرات کا تھا۔ احمد آباد کے لئے ایک عام سی صبح رہی ہوگی لیکن اس کے لئے وہ زندگی کا سب سے نازک دن تھا۔ 23 سال کی عائشہ گھر سے نکلی اور سابرمتی ریور فرنٹ پر جاکر بیٹھ گئی۔ اپنا ایک مختصر ویڈیو بنایا، ماں باپ کو فون کیا اور پھر دریا میں چھلانگ لگا دی۔ چار دن سے سوشل میڈیا پر اس کی موت کا ماتم ہے۔ کوئی جہیز کی روایت کی مذمت کر رہا ہے تو کچھ واعظین مر چکی لڑکی کو مشورہ دے رہے ہیں کہ حالات جیسے بھی تھے اسے صبر کرنا چاہئے تھا۔ ایک اچھے خاصے مشہور عالم دین سے منسوب بیان بھی وائرل ہے جس میں انہوں نے خودکشی کرنے والی لڑکی کے سیدھے جہنم میں جانے کی بات فرمائی ہے۔ عائشہ کا آخری ویڈیو میں نے کئی بار کی کوشش کے بعد دیکھا۔ ایک دو جملے سن کر ہی ہمت جواب دینے لگتی تھی۔ سب سے زیادہ خوفزدہ کرنے والی چیز اس لڑکی کی وہ مسکراہٹ تھی جسے وہ اپنے درد کے اوپر پہنے ہوئے تھی۔ میں نے اس کی وہ فون کال بھی سنی جو اس نے مرنے سے پہلے ماں باپ کو کی تھی۔ اس کے بے بس ماں باپ کی منتیں اور بیٹی کا زندگی سے مایوس لہجہ ہر اس آنکھ کو رلا دینے والا تھا جو پتھر کی نہ ہو۔ عائشہ تو جان سے گذر کر اندوہ وفا سے چھوٹی لیکن ہمیں سوالوں کے عذاب میں دھکیل گئی۔ ویسے ہماری طبعتوں سے امید رکھنی چاہئے کہ چند دن اور اس موت کا تذکرہ ہوگا، جہیز پر تبرا کیا جائے گا اور خودکشی کے مسئلے پر گفتگوئیں ہوں گی اور پھر اگلے حادثے تک کے لئے سوشل میڈیا کا یہ اجلاس ملتوی ہو جائے گا۔ ابھی چونکہ بحث چل رہی ہے تو دو ایک باتیں ہم بھی کئے لیتے ہیں۔ عائشہ کی خودکشی پر ہونے والی بحثیں جہیز کے مسئلے پر زیادہ مرکوز ہیں۔ یہ بات کسی حد تک جائز بھی ہے کیونکہ عائشہ کے والدین کے مطابق اس کا شوہر سسرال سے بڑی رقم کا مطالبہ کیا کرتا تھا۔ میرے خیال میں اس معاملے کا ایک اور پہلو ہے جس پر ذرا کم توجہ دی جا رہی ہے وہ ہے ہماری بچیوں کے بارے میں ہمارا اجتماعی رویہ۔ بات کو کھول کر کہتا ہوں تاکہ سمجھ میں آ سکے۔ آپ اس بات سے لاکھ انکار کریں لیکن واقعہ یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر ماں باپ بیٹی کو صرف ایک امانت تصور کرتے ہیں۔ یہ عام بول چال کے محاورے ہیں کہ بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔ مائیں بچیوں کو یہ سنا سنا کر بڑا کرتی ہیں کہ تمہیں تو دوسرے گھر جانا ہے۔ یہ عمل لاکھ نیک نیتی سے کیا جاتا ہو لیکن اس سے بچیوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ گھر ان کا اپنا گھر نہیں ہے۔ یہاں انہیں بس اتنی اجازت ہوگی کہ کبھی کبھار آ جایا کریں۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے یہاں بچیوں کو یہ بتانا بڑی اچھی بات سمجھی جاتی تھی کہ جس گھر میں تمہاری ڈولی جائے وہاں سے تمہارا جنازہ ہی اٹھنا چاہئے۔ اس ذہنیت کی وجہ سے ہمارے سماج میں سب سے معیوب باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی لڑکی اپنے سسرال سے ‘نکل کر’ میکے میں آ جائے۔ دیہاتی معاشروں میں ان لڑکیوں کے لئے خود خواتین جس قسم کی باتیں کرتی ہیں ان میں یہ جملہ عام ہے کہ فلاں لڑکی تو ‘نکلی ہوئی بیٹھی ہے’۔ میں کسی مسئلے کو صنفی عصبیت سے کبھی نہیں دیکھتا لیکن یہ تلخ بات کہتے ہوئے مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں مجھ پر یہ الزام نہ لگ جائے۔ واقعہ یہ ہے عورتوں کی آپسی بات چیت میں اس طرح کی باتوں کو بڑے چاؤ سے کہا سنا جاتا ہے۔ ‘نکلی ہوئی’ لڑکیوں کی مائیں جب محفلوں میں عورتوں کے طنزیہ جملوں سے گھائل ہونے لگتی ہیں تو وہ کوشش کرتی ہیں کہ لڑکی کسی بھی طرح سسرال واپس چلی جائے۔ ان کے یہاں یہ سوچنے کی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ معاشرتی دباؤ سے اپنی جان بچانے کی خاطر بیٹی کو کس اذیت میں واپس کھدیڑ رہے ہیں؟۔ ضروری نہیں کہ معاشرہ لفظوں میں ہی کچھ کہے بلکہ بنا بولے بھی اس کا وہ آتنک قائم ہو چکا ہے کہ ماں باپ کا خون خشک ہوا رہتا ہے۔ عائشہ کے معاملے میں جو تفصلات میسر ہیں ان کے مطابق بھی وہ میکے سے سسرال اور سسرال سے میکے دوڑائی جاتی رہی۔ مائیں بچیوں کی تربیت کرتے ہوئے، رخصت کرتے ہوئے اور شادی کے بعد بار بار کہتی ہیں ‘بیٹی ماں باپ کی عزت رکھ لینا’۔ آپ اور ہم بھلے ہی نہ سمجھیں لیکن بچیاں خوب جانتی ہیں کہ اس ‘عزت رکھ لینے’ کا کیا مطلب ہے؟۔ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ چاہے جو ہو جائے تمہیں سسرال میں نباہ کرنا ہے۔ ظاہر ہے بچیاں سماج کی ذہنیت، ماں باپ کے لاچار چہرے اور ‘عزت رکھ لینے’ کی التجا کو نظروں میں رکھے ہوتی ہیں اس لئے بہت سی لڑکیاں عائشہ کی طرح ہر زخم سینے پر لئے لئے چلتی رہتی ہیں اور جب ایک دن لگتا ہے کہ اب کسی نئے آبلے کے لئے جگہ نہیں بچی تو ہمیشہ کو سو رہتی ہیں۔ چلتے چلتے دو باتیں جہیز پر بھی سن لیجئے۔ جہیز کے بارے میں ہمارے سماج کو پہلے یہ طے کرنا چاہئے کہ کیا یہ واقعی کوئی بری روایت ہے؟۔ اگر ہاں تو پھر اس کو یکسر ختم کرنے کی راہیں کھوجی جانی چاہئیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی سماج میں مالداروں کو جہیز کی ریل پیل کی اجازت دی جائے اور غریب ماں باپ کے لئے مشکلات کھڑی نہ ہوں؟۔ ‘جہیز تو تحفہ ہے’، ‘اپنی خوشی سے ماں باپ جو چاہے دیں’ وغیرہ وغیرہ۔۔اس ٹائپ کے جملے کچھ اور نہیں بلکہ جہیز کی روایت باقی رکھنے کی تاویلیں ہیں۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ ‘جہیز کے مسئلے کا حل لڑکیوں کو جائداد میں حصہ دینا ہے’۔ بظاہر یہ بات کانوں کو بھلی لگتی ہے لیکن اس میں بھی جہیز کے ادارے کا دفاع ہی پنہاں ہے۔ بچیوں کو میراث میں حصہ تو ان کا قانونی اور مذہبی حق ہے ہی لیکن اس کا جہیز سے کیا تعلق؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اب بچیاں جہیز کے بجائے میراث میں سے حاصل اپنا حصہ اپنے سسرال والوں کے قدموں میں رکھ دیں؟۔ جہیز کے ادارے کو کسی بھی چاشنی یا کپڑے میں لپیٹ کر جائز بتانے کی کوشش ہی بچیوں کے لئے خندق کھودنے کے لئے چلایا گیا پہلا پھاؤڑا ہے۔ جہیز اور گھویلو تشدد کے خلاف کم از کم بھارت میں بہت سخت قوانین موجود ہیں لیکن تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ان کا ناجائز استعمال اتنا زیادہ ہوا ہے کہ اب جینوئن متاثرین کی شکایت کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ویسے عائشہ کے معاملے میں تو اس قانون کے تحت پولیس میں کی گئی شکایت بھی کارگر نہیں ہوئی۔ ایسے فرضی معاملوں میں پھنسائے گئے بہت سے لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان قوانین کو نرم کیا جائے۔ ایسے لوگوں سے تمام تر ہمدردی کے باوجود ابھی ہمارے سماج میں خواتین جس قدر Vulnerable ہیں اس وجہ سے ان قوانین کو نرم کیا جانا مناسب نہیں ہوگا۔ البتہ ان کو نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ احتیاط اور توجہ سے کام ضرور لینا چاہئے۔ وہ لڑکیاں جو ان قوانین کا ناجائز کا استعمال کرتی ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی انا یا انتقام کی خاطر کتنی ہی واقعی مظلوم لڑکیوں کی حق تلفی کر رہی ہیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں