عبدالعزیز
اس وقت امریکہ اور اسرائیل کے دباؤ میں سارے عرب ممالک ہیں کچھ ممالک جیسے اردن اور مصر پہلے ہی اسرائیل کی جارحیت اور ظالمانہ اقدام کے باجود تسلیم کر چکے ہیں حال میں متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل سے امن معاہدہ کرلیا اس طرح اس ملک میں اسرائیل کا اڈہ ہوجائے گا جہاں سے اسرائیل عربوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر ے گا۔ بہت سے ممالک اپنے حکمرانوں اور عوام کی وجہ سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ زیادہ تعداد ایسے ممالک کی جو اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے تسلیم نہ کرنے والے ممالک ترکی کی سربراہی میں صف آرائی کر رہے ۔ابھی حال میں عمان کے وزیر خارجہ یوسف علوی نے عرب امارات اور اسرائیل کے مابین معاہدہ کی تائید میں بیان دے دیا تھا جس کی وجہ سے انہیں اپنے عہدے سے مستعفی ہو نا پڑا۔ علوی کے بیان کے بعد عمان کے مفتی اعظم جناب احمد خلیلی صاحب نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ بیت المقدس اور فلسطین جیسے مقامات جواغیار کے قبضے میں ہیں انہیں آزاد کرانا مسلمانوں کے فریضہ میں داخل ہے اس کے لیے سودا نہیں کیا جا سکتا ہے جو لوگ غاصبوں سے خوفزدہ ہیں یا لڑ نہیں سکتے وہ سودا بازی کے بجائے خاموش ر ہیں وہ تقدیر الہٰی پر چھوڑ دیں۔ اللہ اس کے لیے دوسروں کو پیدا کرے گا وہ بازیابی کے لیے کوشش کریں گے جیسے کہ ماضی میں ہوا ہے(صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو جیسے آزاد کرایا تھا) پھر انہوں نے قرآن مجید کے سورہ روم کا حوالہ دیا ’’رو می قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے اور اپنی اس مغبولیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہوجائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور وہ دن ہوگا جب اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے ۔اللہ نصر ت فرماتا ہے جسے چاہتا ہے، اور وہ زبردست اور رحیم ہے‘‘(آیت 1تا5)
اس فتویٰ کے بعدعمان میں زبر دست احتجاج ہوا جس کی وجہ سے وزیر خارجہ عمان یوسف علوی کو استعفیٰ دینا پڑا۔ سعودی عرب پر امریکہ اور اسرائیل کادبا ئو بڑھتا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اپنے تحفظ اور بقا کے لئے اپنے ملک میں امریکی فوج رکھنے پر مجبور ہے امریکہ کے اشارے پر سارا کام کر تا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی مدد کے بغیر سعودی بادشاہ دو ہفتے بھی اپنے ملک میں نہیں ٹھہر سکتے ۔ سعودی عرب کے عوام اسرائیل اور امریکہ کے سخت خلاف ہیں اس لیے بادشاہ سعودی عرب سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان کو اسرائیل کو تسلیم کرنا آسان نہیں ہے۔
علامہ اقبال نے بہت پہلے سچ کہا تھا کہ ؎
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دَھَن جاتا ہے دَھَن
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے مَیں نے شیخ و برہَمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن
غوروفکر اور تحقیق وتنقید سے کام لیا جائے تو آسا نی سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی تنزلی یا زوال کے کیا اسباب ہیں۔ پچھلی تاریخ کے مفصل جائزہ کیلئے ضروری ہو گا، ہماری غلامی کے اسباب،دینی حالت، اخلاقی حالت، ذہنی حالت، مغربی تہذیب کی بنیاد یں،مذہب،فلسفہ حیات،سیاست، تعلیم، معاشی نظام سب کا بے لاگ جا ئزہ ضروری ہے لیکن اس حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ز مانہ نبوت اور دور خلافت میں جو عام انسانوں کو ہر طرح کی آزادی ملی تھی غلا می اور ما لو فات کی تمام زنجیر یں اور بندشیں ایک ایک کرکے اور پرستش ماسوا اللہ کی ساری زنجیر یں ٹوٹ گئیں یا تو ڑ دی گئیں لیکن جیسے ہی خلافت ختم ہو ئی ایک ایک کرکے سب واپس آگئیں۔ خلافت کی جگہ ملوکیت یا بادشاہت نے لے لی۔ بادشاہت نے خلافت کا لبادہ اوڑھ کر حکمرانی شروع کر دی۔ آواز ضرور اٹھی مگر میدان میں ستر بہتر افراد سے زیادہ لوگ نہیں آئے۔ اس کے بعد ایک نیک دل انسان نے خود ہی ملوکیت کو خیر باد کہہ کر خلافت کے ادارے کو زندہ کیا یہ دو واقعات تاریخ کے صفحات میں ملتے ہیں ۔مگر مسلمانوں کی اکثریت نے بادشاہت کی غلامی کو آہستہ آہستہ تسلیم کر لیا ۔عام انسان کی ساری آزادی ختم ہو گئی۔ بادشاہ ظل سبحانی ہوگئے پھر ہم پر غیروں کی غلامی مسلط ہو گئی وہ ہمارے صدیوں کے مسلسل مذہبی،اخلاقی اور ذہنی انحطاط کا نتیجہ تھی۔ ہم مختلف حیثیتوں سے روز بروز پستی کی طرف چلے جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ گر تے گر تے ہم اس مقام پر پہنچ گئے تھے جہاں اپنے بل بوتے پر کھڑا رہنا ہمارے لئے ممکن نہ تھا اس حالت میں کسی نہ کسی بلا کو ہم پر مسلط ہونا ہی تھا اور ٹھیک قانون قدرت کے مطابق وہ بلا ہم پر مسلط ہو گئی ہماری غلامی کا دور شروع ہوگیا ۔ایک ایک کرکے مسلم ممالک پر غلامی مسلط ہوتی چلی گئی ۔جن صدیوں میں ہم مسلسل انحطاط کی طرف جا رہے تھے۔ ٹھیک وہی صد یاں تھیں جن میں یورپ نشاۃ ثانیہ کی ایک نئی تحریک کے سہارے ابھر رہا تھا۔ کلیسا سے اس کا تصادم ہوا۔اہل کلیسا اپنی غلط ضد پر جمے رہے سائنس کی روشنی کے بڑھنے سے وہ ڈرتے رہے کہ کہیں عیسائی مذہب کا پول نہ کھل جائے پھر علم کے میدان سے آگے بڑھ کر سیاست اور معیشت اور نظام اجتماعی کے مختلف میدانوں میں کشمکش پھیلی اوراہل کلیسا کی حتمی شکست کے بعد تہذیب جدید کے علم بردار وں کی قیادت میں ایک نئے نظام زندگی کی عمارت اٹھی تو اس سے دواور نتیجے پر آمد ہوئے جنہوں نے آنے والے دور کی پوری انسانی تاریخ پر گہرا اثر ڈالا۔
مسلمان اب تک بہت سے ممالک میں بادشاہت یا اس سے ملتی جلتی شکل کی بادشاہی نظام مثلاً شیخ ازم یا فوجی آمریت کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ مغربی ممالک مسلمانوں کے ممالک میں جمہوریت کو بھی پسند نہیں کرتے کیونکہ اس سے مسلمانوں کو سوچنے سمجھنے کی آزادی مل جائے گی۔ جہاں جمہور کی حکومت آئی وہاں مغربی طاقتوں نے شیخوں اور بادشاہوں کی مدد سے فوجی بغاوت کے ذریعے فوجی حکومت کے آمر کو بٹھا دیا پھر اسی فوجی کو جمہوری صدر بنا دیا،بادشاہ، شیخ اور فوجی آمر آسانی سے امریکہ اور اسرائیل کی غلامی تسلیم کر لیتے ہیں ۔مسلم ممالک میں جہاں جمہوریت یا نیم جمہوریت ہے وہ امریکی اور اسرائیلی تسلط کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں شیعہ اور سنی کے تفرقے کو بڑھا وا دے کر مغربی طاقتیں مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ مگر اس میں ابھی تک تھوڑی بہت کامیابی ملی ہے مذہبی طبقہ ماضی کی بحثوں میں الجھا ہوا ہے۔اسے انسانی آزادی، انسانی حقوق،اظہارخیال کی آزادی (Freedom of Speech) جیسی چیزوں سے بہت کم نسبت ہے ۔جن ملکوں میں مسلمانوں کی شہریت یا ان کے بنیادی حقوق پر حملے ہورہے ہیں یا انہیں محروم کیا جا رہاہے وہاں وہ لوگ محاذ سنبھالے ہوئے ہیں جو عصر ی تعلیم سے لیس ہیں۔ بعض جدید مدارس کے طلبہ بھی تحریک میں شامل ہیں جو ماضی پر ستی سے دور ہیں ۔یہ تحریر پیش کر نے کی غرض وغایت یہ ہے کہ ہم اپنے وجود اور زندگی کے بارے میں کچھ سوچیں کہ ہماری حالت کیوں ایسی ہوگئی ہے اور ہمارے دشمن فی الحال ہمیں کیا بنانا چاہتے ہیں؟
E-mail:[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں