’امریکہ‘کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے

0
1059
All kind of website designing

عبدالعزیز

علامہ اقبال نے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر کہا تھا ’’فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے‘ ‘آج سارے عرب ممالک سے ایک دوسرے سے لڑانے کام امریکی سامراج کر رہا ہے ۔ امریکہ میں تین چار فیصد سے زیادہ یہودی نہیں ہیں۔ لیکن اپنی حکمت عملی سے یہودی ہر چیز پر قابض ہیں۔ امریکہ یا ان کا صدر یہودیوں کو ناراض کر کے کوئی کام نہیں کر سکتے بلکہ ان کی خوشنودی کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک بیٹی نے ایک یہودی سے شادی کی ہے جب وہ حاملہ ہوئی تو ڈونلد ٹرمپ نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ان کو بیحد خوشی ہوگی کہ ان کی بیٹی کے پیٹ سے ایک یہودی جنم لے گا۔ ٹرمپ نے یہودیوں کو خوش کرنے کے لئے مسلمانوں کے قبلہ اول جسے اسرائیل نے قبضہ کر لیا ہے وہاں اسرائیل کی راجدھانی بنا نے کا اعلان کیا ہے ۔ ہلری کلنٹن کو ان کے انتخابی مہم کے لیے امریکہ کے دو مسلم تاجروں نے رقم دی تھی یہودیوں نے جب ناراضگی ظاہر کی تو ہنری کلنٹن نے مسلم تاجروں کو وہ رقم واپس کر دی۔ یہودی گریٹر اسرائیل کا منصوبہ رکھتے ہیں جس میں عرب کے سارے ممالک شامل ہیں مکہ اور مدینہ بھی شامل ہے اب جب ان کی راجدھانی بیت المقدس ہوگئی ہے تو وہ جو کام ان کا ادھورا ہے اسے عربوں سے دوستی کر کے پورا کریں گے۔ مصر میں جمہوری حکومت ہوئی تھی ۔اسے اسرائیل اور امریکہ نے ایک یہودی نزاد جنرل عبدالفتاح السیسی کی مدد سے ہٹا کر جنرل کی حکومت بنا دی۔ مصر کے پہلے صدر محمد مرسی کو السیسی نے الزام عائد کرکے گرفتار کیا اور ان پر مقدمہ چلا یا اور قید میں رکھا کئی سال تک جیل میں قید بامشقت کی زندگی گزار ی ۔ چند ماہ پہلے مرسی کو جیل ہی میں دوا نہ دے کر شہید کردیا۔ السیسی کی ماں اسرائیلی یہودن تھی دنیا میں یہودی قوم مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ہندوستان جیسے ملک نے بھی فلسطینیوں پر مظالم کی وجہ سے سفارتی تعلقات نہیں رکھا تھا ۔نرسمہا راؤ نے تعلق کو ہموار کرنا شروع کیا کبھی کوئی وزیر اعظم ہند وستان اسرائیل کادورہ نہیں کیا۔ مودی جی نے دورہ کیا باقاعدہ اسرائیل سے تعلقات ہموار کیا۔ آرایس ایس کے لیڈران اسرائیل کا دورہ کرتے رہے تعلیم وتربیت لیتے رہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جس طرح ان کے لٹریچر میں ہٹلر اور مسولینی کی تعریف ہے اسی طرح یہودیوں اور اسرائیلی حکومت کی تعریف و توصیف ہے ۔آرایس ایس یا برہمن لابی کی دوستی اسرائیل سے پرانی ہے ۔ڈاکٹر اسرار احمد کا یہودیوں کی کارستانی اور مسلمانوں سے دشمنی پر ایک لیکچر ہے‘ یوٹیوب میں مل جائے گا۔ انہوں نے حدیث اور قرآن اور دیگر کتابوں کے حوالے سے حقائق بیان کئے ہیں اسے ہوسکے تو سن لیجئے ۔آرایس ایس سے اسرائیل کی دیرینہ دوستی پر بھی لٹریچر آپ کو مل جائے گا۔ آر ایس ایس سے کچھ لوگوں نے نکلنے کے بعد لکھا ہے جس طرح ایک یہودیوں کے اندر سے نکل کر ایک خاتون نے اپنی قوم کو محفوظ رکھنے کیلئے دنیا بھر کے لوگوں کے خلاف خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف جو منصوبہ بند نقشہ بنایا ہے جس کانام صہیونی پروٹوکول اس کو خفیہ رکھنے کے باوجود اس خاتون نے اس کی بھنک پاکر باہر کی دنیا میں فاش کر دی وہ یہود النسل نہیں تھی صہیونی پروٹوکول کا کسی غیر یہودی کے پاس ہونا اس کے قتل کے لیے کافی تھا لیکن اللہ کی مرضی اب بازار میں موجود ہے ۔
آج کے حالات میں یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ ایک ایسی قوم جسے راندہ درگاہ کر دیا گیا تھاجس کا کہیں ٹھکانا نہیں تھا جس کا کوئی ملک نہیں تھا دربدر کی ٹھوکر کھا رہی تھی۔ ساٹھ ستر سال پہلے برطانیہ اور امریکہ کی مدد اور عرب ممالک کی حماقت اور حمایت سے اسرائیل نام کا ایک ملک ہوگیا۔ دونوں ممالک کے پیشِ نظر مسلم ممالک کو کمزور کرنے انتشار اور تفرقے میں مبتلا کرنا تھا اور اس کے لئے یہودی اور صہیونی ریاست اسرائیل کو اس قدر ہر لحاظ سے سے مضبوط سے مضبوط تر کر تے رہنا تھا تاکہ عرب کے سارے وسائل و ذرائع اپنے ممالک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے استعمال کئے جا سکیں اور جو عرب یا مسلم ملک عزت و آبرو سے جینا چاہے اور ان طاقتوں کی تابعداری قبول نہ کرے اس کا جینا حرام کر دیا جائے اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔پہلے 1923میں ایک ڈھیلی ڈھالی خلافتِ عثمانیہ جس سے مسلمانوں کا تھوڑا بہت سیاسی اور دینی اتحاد تھا فری میسن(Free Mason) کے ذریعے ختم کر دیا گیا اور اسلام کو ناقابل عمل گرداننے کیلئے اس کی ہر ایک چیز کو پہلے ترکی میں پھر دنیا کے دوسرے ملکوں میں ختم کر نے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔ مسلم ممالک جو آزاد ہوئے۔ ان ملکوں میں فوجی یا آمرانہ حکومتوں کو پائیدار بنانے کی کوشش کی گئی ۔ہرجگہ جمہوریت کی بیخ کنی کی گئی پہلے۔ جب برطانوی سامراج کا دور دور ہ تھا سارے مسلم ممالک اس کے زیر نگیں تھے۔ یہودی اپنی مکار ی، عیاری،سازش اور بے پناہ محنت اور مشقت سے فرنگ کو سمجھا لے گئے کہ دنیا ئے عیسائیت کیلئے یہودی نہیں اسلام اور مسلمان خطرہ ہیں۔ فرنگی ان کی اس منطق کو نہ صرف مان گئے بلکہ ان کے اشارے پر اپنے سارے کام انجام دینے لگے ۔ ساری باتیں صلیبی جنگوں کے پس منظر میں سوچنے لگے ۔فرنگیوں پر آہستہ آہستہ یہودی چھا گئے ایک طرح سے جس طرح آج امریکہ کو تین چار فیصد یہودی کنٹرول کر رہے ہیں‘ اسی طرح برطانیہ کو کنٹرول کرنے لگے ۔اسی زمانے میں علامہ اقبال نے یورپی ممالک کا دورہ کیا تھا اور پورے حقائق کے پیش نظر کہا تھا کہ؎
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
امریکہ میں اسرائیل کے خلاف کتاب لکھنا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے جب لوگ کتاب کبھی نہ کبھی لکھتے رہتے ہیں۔ مسٹر فنڈلے امریکہ ریپبلکن پارٹی کے ممبر تھے بائیس سال تک وہ مجلس نما ئندگان کے ممبر تھے ۔کئی سال تک حکومت کے کئی عہدوں پر تھے۔ 1921میں پیدا ہوئے اور98سال کی عمر میں2019 دنیا ئے فانی سے کوچ کرگئے ۔ ان کی مشہور کتاب ہے The Dare to Speak Out ( جراتمندانہ حق گوئی و بیباکی) کتاب میں یہودی لابی کا تذکرہ حوالوں اور صاف گو ئی سے کیا گیا گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ مغربی دنیا اور سابق سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے تمام ممالک میں اسی طرح کی یہودی لابیاں کام کر تی ہیں اور ان ممالک کے سرکاری اور نجی امور پر قابض ہیں۔ ہر ملک کی اسرائیلی لا بی متعدد کمیٹیوں اور ذیلی تنظیموں پر مشتمل ہے۔یہ تمام اسرائیلی لابیاں ورلڈ زائنسٹ آرگنائزیشن (World Zionist Organisation) کے تحت کام کرتی ہیں جو کہ تمام اسرائیلی یہودیوں سمیت تمام دنیا کے یہودیوں کی مر کزی قیادت تسلیم کی جاتی ہے۔
پال فنڈلے نے اپنی اس کتاب میں جو کچھ لکھ دیا ہے وہ بہت غنیمت ہے اور دنیا کے لئے ایک قیمتی دستاویز ہے ۔اس نے یہودیوں پر نکتہ چینی کر کے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اس میں حقائق اور واقعات کا نا قابل تردید حصہ قاری کے سامنے رکھ دیا ہے۔ بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر کتاب کسی بک پبلشرز سے چھاپی جا سکے اس کا بھی خیال کیا گیا ہے کوئی پبلشرز چھا پنے کیلئے ڈر کی وجہ سے راضی نہ تھا۔ کتاب کے بین السطور سے صاف صاف ظاہر ہے کہ امریکی قوم پر یہودی حکومت کر رہے ہیں۔ فنڈلے سیاسی حلقے میں ایک معروف نام تھا کتاب بہت کم لوگوں تک پہنچی ہے۔ خفیہ یہودی تنظیموں نے راتوں رات اسے بازار سے غائب کردیا۔ فنڈلے امریکی سیاست کاراز داں رہا ہے ۔اس نے قریب سے امریکہ کے ذریعے موجودہ عالمی نظام پر یہودی تسلط کا نہایت گہرا ئی سے مطالعہ کیا ہے ۔فنڈلے نے یہود ی سر گرمیوں سے نقاب ضرور اٹھا یا مگر سنبھل سنبھل کر اپنے آپ کو کسی قدر بچاتے ہوئے اتنا ہی لکھا ہے کہ امریکی معاشرہ برداشت کر سکے جو شخص بھی ہمت سے کام لیتا ہے یہودی خفیہ تنظیمیں اسے راستے سے ہٹا دیتی ہیں اب تک جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ حسب ذیل ہیں:Zionist Protocol‘ The International New Conquerors and Water Flowing Eastward ۔ لیکن یہ کتابیں بالعموم دستیاب نہیں ہوتیں کچھ امریکی رسالے اور اخبارات نے فنڈلے کی کتاب پر ایمانداری سے تبصرے کئیے ہیں ’’ کتاب میں صاف گوئی سے کام لیا گیا ہے ۔لکھا گیا ہے کہ امریکی اسرائیلی امو ر کمیٹی آزاد بحث کو ہونے نہیں دیتی اور قومی راز اور مفادات سے ہر وقت مفا ہمت کرتی رہتی ہے ۔
یہود مدینہ کی تاریخ:
یہود مدینہ کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آکر وہ اپنے ابنائے ملت سے بچھڑ گئے تھے -دنیا کے یہودی سرے سے ان کو اپنے میں شمار نہیں کر تے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور دعوت اسلامی سے یہود کے معاندانہ طرز عمل کا اظہار تو مکی زندگی میں بھی ہوتا رہتا تھا اور قرآن مجید کی مکی سورتوں میں میں بھی ہوتا رہتا تھا۔ قرآن مجید کی مکی سورتوں میں اس کے شوا ہد موجود ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر ایک معاہدے کی پابندی قبول کر لینے کے باوجود حضور ؐ زاور آپؐ کے صحابہ ؓ کے خلاف ان کی دشمنی ایک تدریج کے ساتھ ظاہر ہونی شروع ہوئی۔ آغاز اس معاہدے کے فوراً بعد ہوا پھر اس کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ غزوہ بدر (2ہجری) تک پہنچتے پہنچتے ان کا طرز عمل معاہدے کی کھلی خلاف ورزی اور دشمنی تبدیل ہوگیا۔ غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش پر فتح مبین حاصل ہوئی ۔اس نے انہیں اور زیادہ مشتعل اور بے قابو کر دیا۔ ان کی بغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ یہودی کی اس کھلی کھلی شرارت کی بنا پر آگے چل کر حضور صلی االلہ علیہ وسلم نے ان کے تینوں بڑے قبیلے بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے خلاف سخت اقدامات فرمائے ۔ جس کی وجہ سے یہودیوں سے مدینہ پاک و صاف ہوگیا۔ یہودیوں کی دشمنی، ان کا بغض، ان کی نفرت اور ان کی معاندانہ روش حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے خلاف کس درجے کی تھی؟ اس کا نقشہ مدنی زندگی کے آغاز میں نازل ہونے والی سورتوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ کھینچا گیا ہے۔ خاص طور سے سورہ بقرہ کے حوالے سے یہو د کے معاندانہ طرز عمل کی ایک جھلک قرآن کریم میں پیش کی گئی ہے۔ اوس اور خزرج کے نو مسلموں یعنی گروہ نصار سے خطاب کر کے فرمایا گیا ہے:
’’ اے مسلمانو اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لائیں گے؟ حالانکہ ان میں ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کر دی ‘‘(سورہ بقرہ 40)۔
حضور صلی االلہ علیہ وسلم کی مخالفت یہود کا قومی نصب العین بن گیا تھا۔ قرآن مجید میں اس قوم کی اخلاقی اور دینی پستی کا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔یہ قوم منافقین کے سا تھ ہر طرح کی ریشہ دوانیوں میں ملوث ہوگئے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کی سازش کی جس سے عین وقت پر اللہ نے وحی کے ذریعے آپ کو آگاہی دی۔
یہودی کی ریشہ دوانیوں کا حال اور آج کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کعبتہ اللہ میں امام خانہ کعبہ کی جمعہ کے دن کی تقریر ملاحظہ کیجیے جس میں موصوف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ سے یہودیوں سے معاہدہ اور آپ کا حسن سلوک کا ذکر محض اس لیے فرما رہے تھے کہ متحدہ عرب امارات سے جو اسرائیل کا امن معاہدہ ہوا ہے اسے حق بجانب قرار دے سکیں اور سعودی عرب سے اسرائیل سے معاہدہ کی راہ ہموار ہو۔ امام محترم یہودی ریشہ دوانیوں اور ان کی سنگین سے سنگین سازشوں کو ایک سانس بھی گئے۔ اسرائیل نے جو فلسطین اور مسجد اقصی پر قبضہ کر رکھا ہے مسلمانوںکو بیت المقدس میں جانے کی اجازت تک نہیں دے رہا ہے ۔اسے بھی نظر انداز کر دیا عمان کے مفتی اعظم محمد خلیلی نے جو فتویٰ دیا ہے کہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر مقامات مقدسہ کی بازیابی فرض اورقرض ہے ۔سودا بازی نہ کوئی ملک،فرد اور جماعت نہ کر ے۔ اللہ ضرور کسی نہ کسی کو پیدا کرے گا جو بازیابی کرے گا۔ حال ہی میں اسلامی کانفرنس میں فلسطین نے لاکھ کوشش کی مگر متحدہ عرب امارات کے اسرائیلی معاہدے کی مذمت پر قرار دیا منظور نہ ہو سکی امریکہ اور اسرائیل کا دباؤ عرب ممالک پر خاص طور پر ہے ۔ٹرمپ ان ناجائز معاہدہ وں سے اپنا صدا رتی الیکشن بھی جیتنا چاہتے ہیں اور امن کے نام پر نوبل انعام بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے مسلمانوں کو امریکی سامراج اور اسرائیلی سازشی ذہن سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ دنیا بھر میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں۔ مسلمانوں میں تفرقہ ڈال کر انہیں کمزور کرنا اور اپنے مفادات کے لیے ہر طرح سے استعمال کرنا ان کا قومی نصب العین بن گیا علامہ اقبال نے کہا تھا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
اب دوسری دلخراش خبر آئی ہے کہ بحرین بھی اسرائیل سے امن معاہدے کے لیے تیار ہوگیا ہے؎ یہ ناداں جھک گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا۔ اما م خانہ کعبہ جیسے لوگ جب اللہ کے گھر میں یہودیت‘ جس کا دوسرا نام سازش ہے اسے قرآن وحدیث کے غلط حوالے سے صحیح ٹھہرارہے ہیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ:چوں کفر از کعبہ بر خیز د کجا ماندمسلمانی ۔
علامہ اقبال نے صحیح کہا تھا؎
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
()()()
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here