کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی کے اغواء اور مندر میں ہفتہ بھرتک عصمت لوٹی اور بے رحمی سے کردیا ہلاک
نئی دہلی: جموں وکشمیر کے کٹھوعہ ضلع میں 8 سالہ بچی کے ساتھ عصمت دری اور قتل کے معاملے ملک اور انسانیت کو دنیاکی نگاہوں میں شرمسار کردیا ہے۔ جموں وکشمیر پولس کی کرائم برانچ نے پیر کو چیف مجسٹریٹ کی عدالت میں 15صفحہ پر مشتمل چارج شیٹ داخل کیا۔چارج شیٹ میں بکروال کمیونٹی کی اس بچی کے اغواء، عصمت دری اور قتل کو لے کر رونگٹے کھڑے کردینے والے انکشافات ہوئے ہیں۔ جموں وکشمیر سمیت پورے ملک کے لوگ اب اس معصوم بچی کو جلد انصاف ملنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔جبکہ آج یہ انسانیت کو دہلادینے والی یہ خبر عالمی میڈیا میں سرخی بننے میں کا میاب ہوگئی ،جس کی وجہ سے جموں اینڈ کشمیرکا پولیس محکمہ ریاست کی بی جے پی حامی محبوبہ سرکار اور کالے کوٹ میں انصاف کے منہ پر کالک پوتنے والوں بے شرم وکلاء انسانیت سوز حرکت کی چوطرفہ مذمت ہورہی ہے۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ جموں کشمیر کی’’ نربھیا‘‘ کے ملزمین کو جلد سزا دی جائے۔
انسانیت کو رسوا کرنے والی اس واردات کی تفصیل جان کر محسوس ہوتا ہے کہ انسانی کھال چھپے بھیڑیوں دہلی میں ہوس کاروں کا شکار ہونے والی نربھیا کی روح تڑپادیا ہوگا۔غور طلب ہے کہ یہ بچی اس سال 10جنوری سے لاپتہ تھی، اس کے والد نے دو دنوں تک اسے ہر جگہ تلاش کیا اور آخر میں تھک ہار کر12جنوری کو پولس میں شکایت درج کرائی۔ انہوں نے پولس کو بتایا کہ ان کی بچی گھوڑے کا چارہ لینے کیلئے جنگل گئی تھی، لیکن پھر لوٹ کر واپس نہیں آئی۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرکے اس گھنونی واردات کی چھان بین شروع کردیتھی ، لیکن تب تک اس معصوم
کی موت ہوچکی تھی۔یہ واردات اس لئے بھی زیادہ سنگین ہوگیا ہے کہ اس کو انجام دینے والے مجرموں اور وحشی درندوں میں پولیس افسران اورسپاہی بھی شریک تھے۔ پولس کو 17جنوری کے دن کھٹوعہ کے ہی راسنا گاؤں کے پاس کے جنگلات میں بے حد بری حالت میں اس کی لاش ملی۔پولس نے لاش برآمد کرکے اسے میڈیکل کے لئے بھیجا، جس میں پتہ چلا کہ اس کے ساتھ عصمت دری کی گئی تھی۔ پولس نے اس معاملے میں سب سے پہلے ایک نابالغ لڑکے کو گرفتار کیا، لیکن تب مقامی لوگوں نے پولس کے خلاف ہی احتجاجی مظاہرہ شروع کردیا تھا۔ معاملے کو لے کر لوگوں میں بڑھ رہی ناراضگی کے درمیان ریاست کی محبوبہ مفتی سرکار نے یہ کیس کرائم برانچ کے سپرد کردیاہے۔ کرائم برانچ نے 9اپریل کو اس معاملے میں 8لوگوں کے خلاف 18صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کورٹ میں داخل کی ہے۔ چارج شیٹ میں بتایا گیاہے کہ ملزمان نے بچی کا اغوا کیا اور پھر 11جنوری کو اس نے میرٹھ میں تعلیم حاصل کررہے اپنے ساتھی ملزم وشال جنگوتراکو اس بارے میں بتایااور کہا’’مزہ لیناہو تو یہاں جلدی آجاؤاور اپنی پیاس بجھالو‘‘۔اس کے اگلے روز 12جنوری کو وشال راسنا گاؤں پہنچ گیا۔ اس دوران ملزمین نے بچی کو نشے کی گولیاں دے کر ایک مندر’’دیو استھان‘‘ میں یرغمال بنا رکھا تھا۔ ان لوگوں نے ایک ہفتے تک اس کی عصمت ریزی کی تھی۔چارج شیٹ میں بتا یا گیا ہے کہ آصفہ نامی معصوم بچی کے قتل کئے جانے کی اطلاع جیسے ہی ایک پولیس والے کو ملی تو اس نے کہا کہ ’’اسے ابھی مت مارنا ،آخری بار مجھے بھی مزہ لینا ہے اور اپنے ہوس کی پیاس بجھانی ہے‘‘۔ اس میں بتایا گیاہے کہ لڑکی سے عصمت دری کے بعد اس کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایاجارہا تھا۔ اس درمیان ملزمین نے اپنے ساتھی پولس ملازم دیپل کھجوریا سے رابطہ کیا، جس نے اس سے کہا کہ بچی کو مارنے سے پہلے ایک بار اسے بھی ریپ کرنے دو۔اس کے بعد اس پولس والے نے بھی ان سبھی لوگوں کے ساتھ مل کر لڑکی کی عصمت دری کی۔ پھر ملزمین نے پتھروں سے اس بچی کا سر کچلا اور گلا گھونٹ کر قتل کردیا اور لاش جنگل میں پھینک دی۔چارج شیٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پولس نے کیس کودبانے کیلئے عصمت دری کے نابالغ ملزم کی ماں سے ڈیڑھ لاکھ روپئے کی رشوت لی بھی تھی،یعنی بے بس بچی کی آبرو سے بھی کھیلا اور رشوت سے اپنی جیب بھی گرم کرلی۔اس معاملے میں جانچ جب کرائم برانچ کو دی گئی تو اس پر جم کر سیاست ہوئی۔ اسمبلی میں بھی اسے لے کر خوب ہنگامہ ہوا۔ حیران کرنے والی بات یہ رہی کہ لوگوں نے عصمت دری کرنے اور بچی کا قتل کرنے والے ملزمان کے حق میں’’ ترنگا لے کر مارچ نکالا۔اس معاملے کا ایک اہم ملزم محکمہ محصولات کے ایک سابق افسر جھانسی رام نے سرینڈر کیاہے۔ چارج شیٹ کے مطابق اس کا مقصد بچی سے عصمت دری کے ذریعہ اس بنجارا کمیونٹی کو خوفزدہ کرنا تھا، تاکہ وہ یہ گاؤں چھوڑ کر چلے جائیں۔اس معاملے میں اسپیشل پولس افسر دیپک کھجوریا اور سریندر ورما، ہیڈ کانسٹبل تلک راج اور سب انسپکٹر آنند دتہ کو بھی گرفتار کیاگیاہے۔ ان میں ایک سب انسپکٹر آننددتہ بھی شامل ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے بچی کے کپڑے کرائم برانچ کو سوپنے سے پہلے اسے دھویا تھا، تاکہ اس پر لگے نشان مٹ جائیں۔ اس کے علاوہ جانچ افسر ہونے کے ناطے اس نے کئی ثبوت بھی مٹادیے تھے۔اس وحشیانہ واردات کو لے کر پورے ملک میں زبردست ناراضگی کے درمیان جب میڈیاکیٹیم گراؤنڈ پر گئی، تو پتہ چلا کہ بچی کا خاندان گھر چھوڑ کر جاچکا ہے۔ وہیں پڑوسیوں سے پوچھ تاچھ پر پتہ چلا کہ اس کے اہل خانہ کو بھی اپنی جانوں کا خطرہ ستارہا تھا، اس کی وجہ سے وہ گھر بار چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
اس معاملے میں داخل کی گئی چارج شیٹ کے بعد اس پر سیاست بھی تیز ہوگئی ہے۔ ایک طرف جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور بی جے پی کے کچھ لیڈر اس معاملے کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ کرائم برانچ اس کی منصفانہ جانچ کررہی ہے اور یہ معاملہ سی بی آئی کو سوپنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
وہیں متاثرہ فریق کی وکیل دیپکا سنگھ کا کہنا ہے ’’اس معصوم کو انصاف دلانا میرا کام ہے، مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں کہ میں یہ کیس نہ لڑوں، لیکن میں کسی سے ڈرنے والی نہیں۔ میں اسے انصاف ضرور دلاؤں گی‘‘۔ اس معاملے میں اپوزیشن نیشنل کانفرنس بھی محبوبہ مفتی کے قدم سے متفق نظر آرہے ہیں۔ان کا کہناہے کہ کرائم برانچ نے ابھی تک اپنا کام بخوبی نبھایا ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں