مفتی احمد نادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی، نئی دہلی انڈیا
ہیلتھ انشورنس جو اپنی حقیقت اورمعاملات کی نوعیت کے اعتبارسے جوئے،قمار اورسٹے جیسے غیرشرعی امور کوشامل ہے۔
اس وقت دنیا کی بڑی بڑی تجارتی کمپنیاں اور بطور خاص جوطب وعلاج اورمیڈیکل سے وابستہ ہیں۔اپنی کمپنیوں اورشرکات کونئی زندگی دینے اورکاروبارچلانے کے لیے۔عالمی پیمانے پرحکومتوں کوبھی اورانفرادی طورپر لوگوں کو علاج کے بڑے بڑے پیکج کی ترغیب دیتی ہیں، تاکہ حکومتیں ان سے معالجاتی معاہدے کریں اوراپنے عوام کو اپنی اسکیموں کے ذریعہ اس پر آمادہ کریں۔
اس طرح نجی اور پرائیوٹ کمپنیاں اورمیڈیکل انشورنس کے ادارے بھی ہیں، جو اس میدان میںکام کرتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت میڈیکل انشورنس کایہ معاملہ سرکاری اور غیرسرکاری سطح پرکس طرح انجام پاتاہے
اور اس کی کتنی صورتیں ہیں۔
بہرحال غور کرنے سے ہیلتھ انشورنس کی تین شکلیں سامنے آتی ہیں۔نمبر۔1 مکمل سرکاری جوسرکاری ملازمین کے لئےلازم ہے۔نمبر2 غیرسرکاری کمپنیز کی طرف سے ملازمین کےلئے انشورنس،یہ بھی سرکاری ہدایات کے مطابق بعض اوقات لازمی ہوتے ہیں ،جیسے بعض مسلم ملکوں میں ہے۔
نمبر3 عام لوگ جوکسی ملازمت وغیرہ سے وابستہ نہیں ہوتے۔
سرکاری ملازمین کے ہیلتھ انشورنس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ ملازم کی مرضی کا اس میں دخل نہیں ہوتا ۔ ملا ز م چاہے یانہ چاہے۔اس کاLICبھی ہوگااورمیڈیکل انشورنس بھی۔سرکاری ملازمین کو علما ٕ اور ماہرین شریعت مضطر کے حکم میں رکھتے ہیں۔اوراضطرار کی وجہ سے ان کو مجبورکے زمرے میں رکھ کر اس مجبوری اورعمل کو ان کے لیے رافع اثم مانتے ہوئےشرعی قباحت اورقمار وجوئے کے گناہ سے ان کو مستثنی قرار دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ پرائیوٹ ملازمت میں وہ کمپنیاں جن کو حکومت مجبور کرتی ہے کہ آپ کو کمپنی چلانے یا باقی رکھنے کےلیے اپنے ملازمین کامیڈیکل انشورنس لازما ًکراناہوگا۔ان کے بارے میں بھی علما ٕ کی رائے شریعت کے مقاصد خمسہ۔:حفظ جان ،حفظ دین،حفظ نسل حفظ عقل،حفظ مال اورخود اپنے اور اپنے ماتحتوں کی بنیادی ضروریات زندگی کے حصول اورمصالح۔نیز دفع مضرت کے پیش نظر۔جواز اورکمپنیوں کی طرف سے مڈیکل انشورنس کیے جانے کے باوجودوہاں ملازمت کرنے اوراپنی ملازمت کوان کمپنیوں میں جاری رکھنے کی ہے۔اور اس سے بھی علما ٕ ضرورت وحاجت اوراضطرار کے زمرے میں ہی شامل کرتے ہیں۔اوریہ کمپنیاں بھی حکومت کے نہج پرہی ملازمین کی تنخواہ سے ہرسال انشورنس کی رقم وضع کرتی ہیں۔اورنیاسال شروع ہوتے ہی پچھلی رقم ختم ہوجاتی ہے۔
تیسرے۔عام لوگ ہیں جن پرانشورنس کرنے کےلیے کسی کا دباؤ نہیں ہے،بلکہ وہ محض بیماری کے خوف اور مستقبل کے اندیشوں میں مبتلاہوکرکہ اگر میں بیمار ہوا تو اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے ۔ یااس لالچ میں کہ اگر میں بیمار ہواتو خطیر رقم کا میڈیکل ٹریٹ منٹ مجھے اس انشورنس کی وجہ سے مل جائے گا، لہذامیڈیکل انشورنس کرواتے ہیں۔پرائیوٹ کمپنیوں کا نشانہ ایسے ہی افرادہوتے ہیں۔ایسے لوگ جو اضطرار وضرورت کے زمرے میں نہیں آتے ان کے لیے آیت قرانی:’’یاایھا الذین آمنوا إنما الخمروالمیسروالأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون۔‘‘(سورہ مائدہ:٩٠)(اے ایمان والو بے شک شراب ۔جوا۔مورتیاں۔اورفال نکالنے کےتیر گندی باتیں اورشیطانی کام ہیں۔ان سے بچو تاکہ تمہارا بھلاہو) کی روسے میڈیکل انشورنس کرانے کو شرعاممنوع اورناجائز قراردیاگیا ہے۔چونکہ معاملات کے اعتبار اس کے اندر قمار اور جوئے جیسی چیزیں پائی جاتی ہیں ۔جو کسی بھی اہل ایمان کے لیے روا نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے پندرہویں انٹرنیشنل فقہی سمینار منعقدہ جامعہ صدیقیہ میسور میں شرکاء ٕ سمینار اور علما ٕومفتیان نے اجتماعی طور پراسے ناجائز قرار دیا اور مندرجہ ذیل فیصلے کیے:
١۔میڈیکل انشورنس ۔انشورنس کے دوسرے تمام شعبوں کی طرح بلاشبہ مختلف قسم کےناجائزامور پر مشتمل ہے۔لہذا عام حالات میں میڈیکل انشورنس ناجائز ہے۔اوراس حکم میں سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
٢۔اگرقانونی مجبوری کے تحت میڈیکل انشورنس لازمی ہوتواس کی گنجائش ہے،لیکن جمع کردہ رقم سے زائد جوعلاج میں خرچ ہو، صاحب استطاعت کےلیے اس کے بقدر بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے۔
اب آپ اس فیصلے پر غور کریں اپنی نوعیت اور حقیقت اور شرعی اعتبار سے یہ ایک ممنوع عمل ہے اور عام ہے۔غیر مسلم ممالک کی تو میں بات نہیں کرتا، کیونکہ وہ اسلام کے مکلف اوراحکام دین کے مخاطب نہیں ہیں ۔مگر مسلم ملکوں میں ۔قانون کی روسے سرکاری اور۔غیرسرکاری ہر سطح پر عام ہے ۔اوربغیر کسی دینی شرعی تأمل کے ہورہاہے ۔بلکہ وہاں کے معاشرہ کا جزبن چکا ہے۔یہ کیوں ہے۔؟ اس کی دلیل ان حکومتوں کے پاس کیا ہے ؟۔اور کیوں اپنے سرکاری غیر سرکاری ملازمین کو اس پر مجبور کرتی ہے۔اللہ ہی کو معلوم اس کی جواب دہی کے ذمہ دار خود وہاں کی حکومت اور علما ٕومفتیان ہیں کہ وہ کس طرح اس کو اختیار کے باوجود اضطرار کے زمرے میں شامل کرتے ہیں۔وہ ۔تووہ خودہی جانیں۔ ہم تو صرف اتنا کہ سکتے ہیں:”ولاتزروازرة وزر أخری“(سورہ اسرا:١٥)
اب دوسری بداحتیاطی پر بھی غور فرمالیجٸے ۔کتنے ایسے صاحب استطاعت لوگ ہیں جو اسپتال سے انشورنس کافاٸدہ اٹھا کر آتے ہیں اور حساب جوڑ کر اپنی جمع کردہ رقم سے زاٸد بلانیت ثواب صدقہ کرتے ہیں۔؟۔الاماشا ٕاللہ۔اس طرح ہماری زندگی میں سود قمار ۔سٹے اور جوۓ جیسے شیطانی اعمال داخل ہوتے جارہے ہیں۔اور ہمیں اس کی حرمت کا احساس تک نہیں ہے۔اللہ حفاظت فرمائے۔
اب اس وقت موجودہ حالات کے پس منظر میں بڑی تعداد میں یہ کمپنیاں میڈیکل کیئر کی بڑی بڑی اسکیموں اور اضافی آفرس کے ساتھ میدان میں ہیں۔خوب موباٸل پہ پیغامات موصول ہوتے ہیں ۔لوگوں کے فون آتے ہیں ۔حکم شرعی جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مختلف طرح سے گھما پھیرا کر سوالات کرتے ہیں ۔حالات کی ابتری اور معاشی پریشانی کی بات کرتے ہیں ۔میں نے سوچا اہل نظر تک اس کی شرعی پوزیشن پہونچ جائے ۔تاکہ سائل کو مطمئن کرنا اور ان کی دینی رہنمائی کرنا آسان ہو۔۔’’ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم وأموالھم بأن لھم الجنۃ۔‘‘(سورہ توبہ:١١١)
خلاصہ۔بحث:
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ میڈیکل انشورنس کے ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ معاملہ وقت کے ساتھ مشروط ہوتاہے ۔کہ اگر آنشورنس کرانے والا شخص اس مدت میں بیمار ہواتو اس کو اضافی پیکج کا فائدہ ملے گا اور اگر بیمار نہیں ہواتو اس نے جو پیسے انشورنس میں جمع کیے تھے وہ ختم اورسوخت ہوجائیں گے ۔اور یہی جوئے میں ہوتاہے ۔اس لیے معاملہ کی یہ شکل ایک طرح علاج کے نام پر جوئے اور سٹے کی بنتی ہے۔جو بنص صریح حرام اور ممنوع ہے۔
اس کو سامنے رکھتے ہوئے اہل ایمان کوچاہیے کہ اپنے حال اور مستقبل میں۔پیش آنے والے معاملاتاور نفع۔نقصان ہر چیز میں اپنے خالق ومالک کی ذات پر اعتماد وبھروسہ رکھے۔وھو علی کل شیٔ قدیر۔۔۔وعلی اللہ فلیتوکل المومنون۔۔اللہ تعالی ہر بلا اور آزمائش سے اہل ایمان کو محفوظ رکھے آمین۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں