1928-میں لکھی گئی مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کی نادر تحریر
اُسے اقرار اغوا ہے یہ اغوا کو چھپاتے ہیں
علیہ الطعن ہے شیطان، لیکن اِن سے اچھا ہے
بہت مبہم تمہارا مصرعۂ ثانی ہے اے اکبرؔ
اشارہ ہے کدھر؟ شیطان آخر کن سے اچھاہے؟
کیا آپ کے نزدیک بھی پہلے شعر کا مصرعۂ ثانی مبہم ہے؟ کیاآپ کو بھی اس کے اشارۂ قریب کے متعین کرنے میں کچھ دشواری پیش آرہی ہے؟ کیاآپ کی سمجھ میں ا ب تک نہیں آیا، کہ زہر کا نام تریاق رکھ کر، جنون کو عقل کا لقب دے کر، جھوٹ کو سچ کی صورت بناکر کون آپ کے سامنے، دنیا کے سامنے، اور خود اپنے سامنے پیش کررہاہے؟
کلوں کی کثرت، مشینوں کی افراط، ملوں کی زیادتی سے کس نے آپ کی زندگی سے سُکون واطمینان رخصت کردیاہے، ایک ہنگامۂ ہیجان اور محشرِ اضطراب برپاکررکھاہے، اور اس کا نام سائنس کی ترقی رکھ دیاہے؟ نئے نئے آلات اور صبارفتار سواریوں کی ایجاد سے کس نے نئی نئی عصبی بیماریوں، اور جنون ودیوانگی کے واقعات کی تعداد میں روزافزوں اضافہ کرکے اسے ترقیِ تہذیب وتمدن کی علامت قرار دے رکھاہے؟ کس آئین تمدن کی ترقیوں نے انسان کو کاہل، اُس کے فطری قُوٰی کومضمحل، اوراسے مصنوعی سہولتوں اور آسائشوں کا غلام بنارکھاہے؟ کس نظام شائستگی کی وسعتوں کا یہ نتیجہ نکلاہے، کہ نئے نئے قسم کے ہولناک جرائم، نئی نئی طرح کی بدمعاشیوں، نئی نئی قسم کی خودکشی کے واقعات روزبروز بڑھتے جارہے ہیں؟ کسی فلسفۂ معاشرت کا یہ کارنامہ ہے، کہ پیٹ بھرنے اور تن ڈھکنے کا ضروری سامان ہرروز گراں سے گراں ترہوتاجارہاہے؟ کس فن طب نے ’’برتھ کنٹرول‘‘ اور ’’کنٹراسپشن‘‘ کی علمی اصطلاحات کے پردہ میں قتلِ اولاد ، اور ہرقسم کی اوباشی کو از سر نو زندہ کردیاہے؟ کن فنون لطیفہ نے ہرقسم کی بے حیائی اور عریانی کو لباس جواز پہنا رکھاہے؟ کن ’’علوم‘‘ و’’فنون‘‘ نے دین ومذہب ، خداورسول، فرشتہ وحور، دوزخ وجنت، کے تذکروں تک کو قابل مضحکہ قرار دے دیاہے؟ کن عقلاء کی تعلیم ہے، کہ بغیر سود اور بینک، بغیر بیمہ کمپنی اور لاٹری، بغیر تھیٹر اور سینما کے اجتماعی زندگی کا قیام ممکن ہی نہیں؟ کن رہنمایان سیاست کا فتویٰ ہے، کہ بغیر مقدمہ بازی کی کثرت ، بغیر وکیلوں اور بیرسٹروں کی افراط، بغیر سودی ڈگریاں دلائے، اور بغیر افیون وشراب کی تجارت سے آمدنیوں کے عدالت وحکومت کا امکان ہی نہیں؟
شیطان ، ہمیشہ سے شیطان ہی ہے، اور جب تک وہ محض شیطان ہے، آپ اُس کی شناخت میں دھوکا ہی نہیں کھاسکتے، گوبعض اوقات اپنی کمزوری سے اُس کے کہے پر عمل کرنے لگیں۔ لیکن جب شیطان ، دجال (’’بڑاڈھانکنے والا‘‘) بن جائے، جب اُس کے چہرہ کے لئے یونیورسٹی اور کالج سویلیزیشن(تہذیب) اور کلچر (تمدن) ، پالیٹکس اور اکنامکس، میوزیم اور آرٹ گیلری ، لائبریری اور لیبوریٹری، پارک اور ہوٹل، تھیٹر اور سینما، بینک اور بیمہ، پریس اور اخبار، موٹر اور ہوائی جہاز، ضابطۂ دیوانی اور قانون فوجداری، کونسل اور اسمبلی، تعزیرات ہند اور وزارتیں، اسپتال اور نمائشگاہیں، سیکڑوں گہرے گہرے نقاب تیار ہوجائیں، تو خود شیطان اپنے سے شرمانے لگتاہے، اور انسان تو ایسا کون ہے، جواِن نقابوں کے اندر اُس کے چھُپے ہوئے چہرے کو شناخت کرسکے، الّا ماشاء اللہ یا خدائے کریم ، ہم کو، اورآپ کو سب کو یہ توفیق دے، کہ ہمیشہ حق کو حق، اور باطل کو باطل ہی سمجھتے رہیں!
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں