حج کے فرض ہونے کی شرطوں کا بیان
قسط نمبر (۴)تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
جس کے اندر سات شرطیں پائی جائیں گی، اس کے اوپر حج کرنا فرض ہوگا۔ اگر ان سات شرطوں میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی، تواس پر حج کرنا فرض نہ ہوگا اور نہ وصیت کرنی اور نہ حج بدل کرانا ضروری ہوگا۔
پہلی شرط: اسلام ہے، یعنی حج مسلمان پر فرض ہے کافر پر نہیں۔ کافر ایمان کا مکلف ہے احکام کا نہیں ۔
مسئلہ : اگر کوئی کفر کی حالت میں اتنا مالدار تھا کہ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس پر حج کرنا فرض ہوجاتا ،لیکن اسلام قبو ل کرنے سے پہلے وہ محتاج ہوگیا، پھر مسلمان ہو ا تو اس پر حج کرنا فرض نہیں ہوگا ۔
مسئلہ: اگر کسی نے کفر کی حالت میں حج کیا، پھر مسلمان ہو ا،تو وہ حج معتبر نہیں۔ اگر اسلام لانے کے بعد سفر خرچ پرقادرہوگا، تواس پر دوبارہ حج کرنا فرض ہوگا ۔
مسئلہ: اگر کسی کافر نے مسلمان کو بھیج کر اپنی طرف سے حج کرایا، تو وہ حج بھی صحیح نہیں ہے ۔
مسئلہ: اگر کسی نے حج کرنے کے بعد کفر اختیار کیا، تووہ حج باطل ہوگا۔ دوبارہ اسلام قبول کرنے کے بعد اگر سفر خرچ پر قادر ہوگا، توپھر حج کرنا فرض ہوگا ۔
مسئلہ: کسی کافر نے حج کا احرام باندھا اور وقوف عرفہ سے پہلے مسلمان ہوگیا ،اگر اسلام قبول کرنے کے بعد پھر سے احرام باندھا لیا، تو حج صحیح ہوگیا اور اگر پہلے ہی احرام پر افعال حج اداکرلیے، تووہ حج صحیح نہیں ہوا، دوبارہ حج کرناہوگا ۔
دوسری شرط: حج کی فرضیت کا علم ہے ۔ یہ حربی مسلمان کے لیے ہے جو دارالاسلام میں ہے، اس پر ہرحال میں حج فرض ہے، خواہ اس کو حج فرض ہونے کا علم ہو یا نہ ہو ۔حربی مسلمان اگر حج کی فرضیت سے بے خبر ہے، تو اس پرحج کرنا فرض نہ ہوگا۔ اگر بغیر حج کیے مرگیا، تو وہ گناہ گار نہ ہوگا۔
اگر دو مرد مستور الحال، یا ایک مرد اور دو عورتیں مستورالحال، یا ایک مرد عاقل اس کو حج کی فرضیت کی خبر دیں،تو اب اس پر حج کرنا فرض ہوجائے گا، جب کہ حج کے باقی شرائط اس کے اندر موجود ہوں ۔
تیسری شرط: عاقل ہونا ہے۔ اور چوتھی شرط: بالغ ہونا ہے۔ (ہدایہ)
بچہ اور دیوانہ پر حج فرض نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رُفع القلمُ عن ثلاثۃ: عن اآصبی حتی یحلم، و عن المجنون حتی یفیق، وعن النائم، حتی استیقظ۔ (جواھر النیرۃ)
یعنی تین شخصوں سے قلم اٹھالیا گیا ہے: اول بچہ سے یہاں تک کہ بالغ ہوجائے۔دوسرے پاگل سے یہاں تک کہ دیوانگی دور ہو جائے ۔اور تیسرے سونے والے سے یہاں تک کہ بیدار ہوجائے ۔
مسئلہ : نابالغ بچہ نے حج کا احرام باندھا، اس کے بعد وہ بالغ ہوگیا اور حج کرلیا تو فرض ادا نہ ہوگا؛البتہ اگر بالغ ہونے کے بعد دوبارہ احرام باندھ لیا، تو فرض ادا ہوجائے گا اور دوبارہ اس پر حج کرنا فرض نہ ہوگا ۔(ہدایہ)
مسئلہ: کسی مجنون نے حج کا احرام باندھا اور وقوف عرفہ سے پہلے اچھا ہوگیا اور جنون جاتا رہا، اگر اس نے دوبارہ احرام باندھ لیا، تو فرض ادا ہوجائے گا۔اور اگر دوبارہ احرام نہیں باندھا ؛بلکہ پہلے ہی احرام پر ارکان حج ادا کر لیے، تو فرض ادا نہ ہوگا۔ شرائط پائے جانے پر دوبارہ حج اداکرنا ہوگا ۔
پانچویں شرط: آزا د ہونا ہے ۔ غلام اور باندی پر حج فرض نہیں، خواہ وہ مدبر ہو، یا ام ولد، یا مکاتب، یا کوئی اور۔ (ہدایہ )
مسئلہ:اگر غلام نے مولیٰ کی اجازت سے حج کرلیا، تو فرض ادا نہ ہوگا۔ آازاد ہونے کے بعد اگر شرئط حج پائے گئے، تو اس پر دوبارہ حج کرنا فرض ہوگا ۔
مسئلہ: غلام نے احرام باندھا، اس کے بعد آزاد ہوگیا اور اس کے بعدحج ادا کیا، تو فرض ادا نہ ہوگا اور غلام تجدید احرام بھی نہیں کرسکتا ہے، اس لیے کہ اس پر احرام لازم ہے۔ (ہدایہ )
مسئلہ: غلام اگر مکہ میں ہو، تب بھی اس پر حج کرنا فرض نہ ہوگا، بخلاف مکہ کے فقیروں کے کہ اگر وہ عرفات تک جاسکتے ہیں، تو ان پر حج کرنا فرض ہوگا ۔
چھٹی شرط: سفرخرچ پر قدرت ہوناہے۔ جو لوگ مکہ میں، یا مکہ کے آس پاس نہیں رہتے ہیں، اس کے پاس حوائج اصلیہ کے علاوہ اتنا مال ہو کہ جن لوگوں کا نان و نفقہ ان پر واجب ہے، ان کا نان و نفقہ ا ن کے واپس آنے تک کا دے کراتنا مال بچ رہے کہ اس سے سواری اور سفر خرچ مکہ جانے آنے تک کا پورا ہوسکے ،تو ان پر حج کرنا فرض ہوگا ۔(ہدایہ)
مسئلہ: رہنے کا مکان اور پہننے کے کپڑے ،اسبا ب خانہ داری ،نوکرچاکر اگر قرض ہے، تو قرض کی ادائیگی، سوار ہونے کے لیے سواری اور مکان کی مرمت ،واپس آنے تک کا اپنے اہل وعیال کا خرچ حوائج اصلیہ میں داخل ہے ۔
مسئلہ: دوکاندار کے لیے اتنا سامان تجارت کہ جس سے گزر اوقات کرسکے او رکاشتکار کے لیے ہل بیل اور عالم کے لیے ضروری کتابیں حوائج اصلیہ میں داخل ہیں۔ہر پیشے والے کے لیے اس کے پیشے کے اوزار اور ضروری سامان ضروریات میں شمار ہوگا ۔
مسئلہ: سرمایہ اور مال سے مراد وہ مال ہے، جو اپنی جائز کمائی کا ہے اور خود اس کا مالک ہے ۔اگرکسی نے اتنا مال مانگا دیا، یا مبا ح کردیا، تو اس سے حج فرض نہ ہوگا ۔
مسئلہ: سواری کا ملک ہونا ضروری نہیں۔ اگر کرایہ پر سواری مل گئی، تو وہ بھی کافی ہے ۔
مسئلہ: مکہ والے، یا جو مکہ کے قریب رہتے ہیں اور پیدل سفر کرسکتے ہیں، ان کے لیے سواری شرط نہیں ہے؛ البتہ اگر پیدل چلنے سے عاجز ہے، تو اس کے لیے بھی باہر والوں کی طرح سواری شرط ہے اور ضروری زاد راہ مکہ والوں کے لیے بھی شرط ہے ۔
مسئلہ: اگر باہر کارہنے والا فقیر میقات تک پہنچ گیا او ر چلنے پر قادر ہے، تو اس کے لیے مکہ والوں کی طرح سواری شرط نہیں ،زاد راہ شرط ہے ۔
مسئلہ: سواری ایسی ہونی ضروری ہے کہ جس سے کوئی شدید تکلیف نہ ہو اور اس میں ہر شخص کی حالت کا اعتبار ہوگا اور اس کی حیثیت کے موافق عر ف و عادت کے اعتبار سے سواری معتبر ہوگی ۔یہ ضروری نہیں کہ مکہ سے موٹر ہی میں جانا ضروری ہو، لوگ اونٹ پر بھی سفر کرتے ہیں۔ جہاز میں فرسٹ کلاس اور سکنڈ کا ٹکٹ ہونا ضروری نہیں ،ہاں اگر کوئی شخص تیسرے درجہ میں بھی سفر نہیں کرتا ہے اور اس میں سفر کرنے سے شدید تکلیف کا اندیشہ غالب ہے، تو اس کے لیے سکنڈاور فرسٹ کا اعتبار ہوگا۔
مسئلہ: مستقل سوار ی کا ہونا ضروی نہیں ہے۔ اگر ایک اونٹ پر شغدف میں د وآدمی شریک ہوکر جاسکیں ،تو یہ بھی کافی ہے ۔
مسئلہ: زاد راہ او رتوشہ میں بھی ہر شخص کا اس کے حال کے موافق اعتبار ہوگا ۔جو شخص عام طور پر جیسا کھاتا ہے، اس کے لیے اسی کا لحاظ ہوگا۔ اگر کوئی شخص گوشت روٹی کا عادی ہے، تو اس کے لیے محض روٹی کافی نہ ہوگی ۔
مسئلہ: زاد راہ سے مراد متوسط درجہ کی مقدار کا زاد راہ ہے، جس میں فضول خرچی بھی نہ اور کنجوسی بھی نہ ہو ۔
مسئلہ: اگر کوئی شخص حج کرنے کے لیے کسی کو مال ہبہ کرتا ہے ،تو اس کا قبول کرناواجب نہیں ،خواہ ہبہ کرنے والا اجنبی شخص ہو، یا اپنا رشتہ دار ماں باپ بیٹاوغیر ہ؛ لیکن اگر اتنا مال کسی نے ہبہ کیااور اس کو قبول کرلیا، توحج فرض ہوجائے گا ۔
مسئلہ: کسی کے پاس ایسا مکان ہے کہ ضرورت سے زائد ہے، یا ضرورت سے زائد سامان ہے، یا کسی عالم کے پاس ضرورت سے زائد کتابیں ہیں، یا زمین ،یا باغ وغیرہ ہیں کہ اس کی آمدنی کا محتاج نہیں ہے اور ان کی اتنی مالیت ہے کہ اس کو بیچ کر حج کرسکتا ہے، تو ان کو حج کے لیے بیچنا واجب ہے ۔
مسئلہ: کسی کے پاس اتنا بڑا مکان ہے کہ اس کا تھوڑ اسا حصہ رہنے کے لیے کافی ہے اور باقی کو بیچ کر حج کرسکتا ہیم تو اس کو بیچنا واجب نہیں ہے ؛لیکن اگر ایساکرے، تو افضل ہے ۔
مسئلہ: ایک شخص کے پاس اتنا بڑا مکان ہے کہ اس کو بیچ کر حج بھی کرسکتا ہے اور چھوٹا سا مکان بھی خرید سکتا ہے، تو اس کا بیچنا ضروری نہیں ۔اگر بیچ کر حج کرے، تو افضل ہے۔
مسئلہ: ایک شخص کے پاس اتنا غلہ موجود ہے کہ اس کو سال بھر کے لیے کافی ہے، تو اس کوبیچ کر حج کرنا واجب نہیں ہے۔ ہاں اگر سال بھر سے زائد کے لیے کافی ہے اور زائد کو بیچ کر حج ہوسکتا ہے، تو اس کو بیچ کر حج کرنا واجب ہے ۔
مسئلہ: ایک شخص کے پاس اتنی زمین مزروعہ ہے کہ اگر اس میں سے تھوڑی سے زمین فروخت کردے، تو ا س کے حج کا خرچ اور اہل و عیال کا واپسی تک کا خرچ نکل آئے گا اور باقی زمین اتنی بچی رہے گی کہ واپس آکر اس سے گزر کرسکتاہے، تو اس پر حج فرض ہے ۔اور اگر فروخت کرنے کے بعد گزارے کے لائق نہیں بچتی ہے، تو حج فرض نہیں ۔
مسئلہ: ایک شخص کے پاس حج کے لائق مال موجود ہے؛ لیکن اس کومکان کی ضرورت ہے، یا غلام کی ضرورت ہے، تو اگر حج کے لیے جانے کا وقت یعنی اس وقت عام طور سے وہاں کے لوگ حج کے لیے جاتے ہیں، تو اس کو حج کرنا فرض ہے ۔مکان اور غلام میں صرف کرناجائز نہیں ہے ۔البتہ اگر حاجیوں کے جانے کا وقت نہیں ہے، تو مکان اور غلام میں صرف کرنا جائز ہے ۔
مسئلہ: اگر کسی کے پاس حج کے لائق روپیہ موجود ہے اور نکاح بھی کرنا چاہتا ہے، تو اگر حاجیوں کے حج کے لیے جانے کا وقت ہے، تو اس کو حج کرنا واجب ہے۔ اور اگر حاجیوں کے جانے کا وقت ابھی نہیں آیا ہے، تو نکاح کرسکتا ہے؛ لیکن اگر یہ یقین ہے کہ اگر نکاح نہیں کیا ،تو زنا میں مبتلا ہوجائے گا، تو پہلے نکاح کرے ،حج کو نہ جائے۔
مسئلہ: سرکاری محصول، فیس معلمین اور دیگر اخراجات ضروریہ، جو حاجیوں کو ادا کرنے پڑتے ہیں ،وہ سب زاد راہ میں داخل ہے ۔
مسئلہ: تحائف و تبرکات پر جو رقم خرچ ہوگی، وہ زاد راہ میں شمار نہ ہوگی ۔
مسئلہ: مدینہ منورہ کے سفر کے اخراجات بھی زاد راہ میں شمار نہیں ہوگا۔ بعضے لوگ اس کو بھی شمار کرلیتے ہیں اور اس وجہ سے حج کو نہیں جاتے ہیں کہ مدینہ منورہ جانے کا خرچ ان کے پاس نہیں ہے، یہ سخت غلطی ہے ۔مدینہ منورہ کی حاضری ایک بڑی نعمت ہے، لیکن حج فرض ہونے میں اس کو دخل نہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ وسعت دے، اس کو ضرور جانا چاہیے اور جس کے پاس صرف حج کے لائق روپیہ ہو، اس کو محض اس وجہ سے کہ مدینہ منورہ جانے کے لیے روپیہ نہیں، حج کو مؤخر نہیں کرنا چاہیے ۔
مسئلہ: ایک شخص کے پاس اتنا مال موجود تھا کہ اس پر حج فرض ہوگیا؛ لیکن اس نے حج نہیں کیا اور فقیر ہوگیا، تو اس کے ذمہ حج باقی رہے گا اس کو حج کرنے کی کوشش کرناضروری ہے ۔
مسئلہ: حرام مال سے حج کرنا حرام ہے۔ اگر اس نے حج کیا، توفرض ساقط ہوجائے گا؛مگر حج مقبول نہ ہوگا ۔اس بارے میں طبرانی ،اصبہانی اور شیرازی کی حدیثیں گزر چکی ہیں ۔
مسئلہ: ایک شخص پر حج فرض نہیں تھا اور اس نے پیدل حج کرلیا اور حج فرض کی نیت کی ،یا مطلق حج کی نیت کی، تو حج فرض ادا ہوجائے گا ۔اس کے بعد اگر مال دار ہوجائے، تو دوبارہ اس پر حج فرض نہ ہوگا؛ لیکن اگر پہلے نفل کی نیت سے حج کیا تھا،تو مالدار ہونے پر دوبارہ حج کرنا فرض ہوگا۔
ساتویں شرط: حج کے فرض ہونے کی حج کا وقت ملنا ہے، یعنی اتناوقت ملناچا ہیے کہ جس میں چل کر وقت پر حج ادا کرسکے۔
مسئلہ: ابھی حاجیوں کے جانے کا وقت نہیں آیا اور حج کے سب شرائط موجود ہیں، تو ابھی حج فرض نہیں ہوگا۔ اگر وقت آنے سے پہلے کسی کام میں روپیہ صرف کردیا، تو اس پر حج فرض نہیں ہوگا، مگر اس نیت سے روپیہ صر ف کرنا کہ ہم پر حج فرض ہو، مکروہ ہے ۔
مسئلہ: وقت کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ متوسط اور معتاد رفتار کے ساتھ حج کے وقت مکہ پہنچ سکے ۔اگر شرائط حج پورا ہونے کے بعد اتنا وقت ملے کہ اگر ایک منزل سے زیادہ طے کرے، خواہ روزانہ یا بعض دن ،تو حج مل جائے گا، یا ہوائی جہاز سے سفر کرے، تو حج مل جائے گا، لیکن اگر روزانہ ایک منزل سفر کرے، یا پانی کے جہاز سے جائے، تو حج نہ ملے، تو اس پر حج فرض نہ ہوگا ۔
مسئلہ: وقت میں فرض نماز کا بھی اعتبار ہے ۔فرض کرو کہ اگر کوئی شخص نماز ترک کردے تو پہنچ سکتاہے ،لیکن اگر نماز فرض اپنے اپنے وقت پر پڑھتے ہو جائے، تو نہیں پہنچ سکتا ہے، تو اس پر حج فرض نہ ہوگا۔
مسئلہ: کوئی شخص نویں ذی الحجہ کو مکہ نہیں پہنچ سکا؛ بلکہ نویں اور دسویں ذی الحجہ کی درمیانی رات میں پہنچا اور وقت اتنا تنگ ہے کہ اھر عشا کی نماز پڑھتا ہے، تو وقوف عرفہ کاوقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے او رعرفہ تک نہیں پہنچ سکتا ہے، تو ایسے شخص کو عشا کی نماز قضا کرنی جائز ہے۔ (کذا فی الغنیہ )
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں