In this June 13, 2012, file photo, a Rohingya Muslim man who fled Myanmar to Bangladesh to escape religious violence, cries as he pleads from a boat after he and others were intercepted by Bangladeshi border authorities in Taknaf, Bangladesh. Two recent shipwrecks in the Mediterranean Sea believed to have taken the lives of as many as 1,300 asylum seekers and migrants has highlighted the escalating flow of people fleeing persecution, war and economic difficulties in their homelands. (AP Photo/Anurup Titu, File)
All kind of website designing

صرف اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے تعلق و ناطہ جوڑنے کی ضرورت: مولانا حافظ پیر شبیر احمد کا بیان
حیدرآباد17 ستمبر ( پریس نوٹ ) مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمیعتہ علمأ تلنگانہ و آندھرا پردیش نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر توڑے جانے والے بے پناہ اور ناقابل بیان مظالم کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی کے اس دور میں مسلمانوں پر غیر انسانی مظالم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بوسنیا سے جن مظالم کا آغاز ہوا تھا اس کا دائیرہ وسیع ہوتے ہوئے عراق‘ شام‘ لیبیا‘ یمن سے ہوتاہوا چین اور برما تک پہنچ گیا‘ چین میں سنکیانگ کے مسلمانوں پر مظالم کی داستانوں کی گونج ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسی دوران برما کے روہنگیا مسلمانوں کے ملک سے اخراج کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ میانمار سے حالیہ عرصہ میں 12لاکھ سے زیادہ مسلمان بے وطن ہوکر مختلف ممالک میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کا زیادہ بوجھ بنگلہ دیش پر پڑا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی ملک میں میانمار کی حکومت پر دباؤ ڈالنے اور اس کو مظالم سے روکنے کی ہمت اور حوصلہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے جمہوریت نواز ممالک بشمول ہندوستان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن ان ممالک نے مایوس کیا بلکہ الٹامیانمار کے اقدامات کی تائید و حمایت کی میانمار کے ایک بڑے پڑوسی ملک چین نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے برما کے موقف کو حق بجانب قرار دیا۔ بین الاقوامی برادری کی یہ مجرمانہ خاموشی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے لمحہ فکر ہے کہ اس دنیا میں ان کا کوئی ہمدرد اور ہمدم نہیں ہے۔ کچھ ظالم ہیں تو کچھ ان کی حمایت کرنے والے۔ حیرت کی بات ہے کہ ان میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ مہذب ممالک کو تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی سے ہمدردی ہے لیکن لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے حقوق اور ان کے مفادت کے تحفظ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے کہا کہ مسلمانوں کو اب صرف ذات باری سے ہی اپنی امیدیں وابستہ کرنے کی ضرورت ہے‘ ہم نے بحیثیت قوم اللہ اور رسول اللہ کو اور ان کے احکام کو فراموش کردیا ہے ‘ اور اللہ سے ناطہ و تعلق توڑ کر غیروں سے امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ ظاہر ہے اس میں ہم کو سوائے نا امیدی کے کچھ اور حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کااجلاس آئندہ ہفتہ شروع ہونے والا ہے اور اس کے ایجنڈہ میں رفیوجیوں کے مسئلہ کو یابرما کے مسلمانوں کی شہریت کے مسئلہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے‘ برما کی قائید آنگ سان سو چی نے بھی اس اجلاس میں شرکت نے کرنے کا اعلان کردیا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران جماعت کو اس مسئلہ سے کس قدر لا تعلقی ہے۔ انہو ں نے کہا برما کی فوج نے مسلمانوں پر مظالم کو قانونی و دستوری شکل دی۔ ان کی شہریت چھین لی اور وطن میں ہی ان کو بے وطن قرار دیا اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کو دہشت گردی اور جرم قرار دیا جانے لگا۔ جس قائید نے فوج کے خلاف مہم چلا کر کامیابی حاصل کی اور فوج کے کئی اقدامات کو منسوخ کردیا اس نے شہریت کی تنسیخ کے قانون کو برخاست نہیں کیا جس سے اس کے دوغلے پن کا اظہار ہوتا ہے۔ انہوں مسلمانوں پر پھر ایک بار زور دیا کہ وہ اپنا تعلق اللہ اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ سے جوڑ لیں اس سے ہٹ کر ان کی عافیت اور نجات کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ اس پر مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here