پارٹی کی اندرونی جمہوریت اور ریاستی لیڈروں کی قدر شناسی کانگریس کے لئے حالیہ الیکشن کا اہم پیغام

0
550
All kind of website designing

عبدالعزیز

ہریانہ اورمہاراشٹر کے حالیہ اسمبلی الیکشن میں جو کچھ ہوا اور جس طرح کی مہم اپوزیشن اور حکمراں جماعت کی طرف سے چلائی گئی اس سے بہت چیزیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ کانگریس ہندستان کی سب سے پرانی اور ملک گیر اپوزیشن پارٹی ہے ۔ دونوں ریاستوں میں جس طرح کانگریس نے بے دلی کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیا وہ نہ صرف کانگریس کے کارکنوں اور اس کے حمایتیوں کیلئے افسوس ناک ہے بلکہ ملک کے ان لوگوں کیلئے بھی تشویش اور فکرمندی کا سبب ہے جو لوگ ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا جو فلسفہ اور رویہ ہے وہ جمہوریت کے منافی ہے۔ ان کا فلسفہ کچھ ایسا ہے کہ اس کی تکمیل کیلئے اور عمل آوری کیلئے جمہوری نظام آڑے آتا ہے۔ اس کی وجہ سے زعفرانی طاقت جمہوریت کے بجائے آمریت اور کلیت پسندی کو زیادہ پسند کرتی ہے۔
بی جے پی کا نعرہ ہے ’کانگریس مکت بھارت‘، ’اپوزیشن مکت بھارت‘ اور اب ’مسلم مکت بھارت‘۔ ان نعروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بھاجپا اور آر ایس ایس ہٹلر اور مسولینی کے آمرانہ نظام کو پسند کرتی ہے۔ اور ان دونوں شخصیتوں سے ان کے پرانے اور نئے لیڈروں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور سیکھ رہے ہیں۔ صیہونیت اور برہمنیت سے بھی زعفرانی فلسفہ قریب ہے۔ ان سب کے باوجود ہندستان کے جمہوری نظام میں جو جان باقی ہے وہ ان کی فسطائیت اور فرقہ پرستی اور آمریت کو تہ و بالا کرسکتی ہے۔ ہریانہ اورمہاراشٹر کے الیکشن کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ بی جے پی کے لیڈران ان دو ریاستوں میں جو چاہتے تھے وہ نہیں ہوا۔ ہریانہ میں ان کا نعرہ تھا ”اب کی بار، پچھتّر پار“ لیکن 90 سیٹوں میں صرف 40 سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کا نعرہ دو سو سیٹوں سے زیادہ تھا لیکن وہ 103 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ ان دونوں ریاستوں میں عوام کے بنیادی مسائل صرف نظر کرتے ہوئے مودی اور شاہ اور ان کے ریاستی لیڈران نے دفعہ 370، این آر سی اور تین طلاق جیسے غیر بنیادی مسائل کی طرف عوام کا ذہن مرکوز کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ الیکشن کے نتائج سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عوام یا ووٹرس نے ان کی باتوں پر توجہ نہیں دی بلکہ مہنگائی، بے روزگاری اور کسانوں کی ناگفتہ بہ پریشانی پر زیادہ دھیان دیا۔ اگر کانگریس کی کمزوری اور اس کا انتشار نہیں ہوتا تو انتخابی نتائج کچھ اور ہوتے۔
ہریانہ میں بی جے پی کے مرکزی اور ریاستی لیڈران مسلسل کئی ماہ سے مہم چلا رہے تھے اور بڑے بڑے انتخابی جلسوں کو خطاب کر رہے تھے۔ اس کے برعکس کانگریس کے اندر انتشار برپا تھا اور مرکزی لیڈران یا ہائی کمان فیصلہ نہیں کر پارہے تھے کہ ریاست کی کمان کس کے ہاتھ میں دی جائے۔ الیکشن سے 20، 22 روز پہلے مرکزی لیڈران نے سابق وزیر اعلیٰ بھوپیندر سنگھ ہُڈّا کو انتخابی مہم کا انچارج بنایا اور ریاستی صدر کی کرسی بھی دوسرے کے سپرد کی گئی۔ اگر یہی کام دو تین ماہ پہلے ہوا ہوتا تو بی جے پی 15، 20 سیٹوں سے زیادہ نہیں لاسکتی تھی۔ 31، 32 سیٹیں جو کانگریس کو ملی ہیں اس میں مرکزی لیڈران کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ کانگریس کو اپنی اس سست روی کا مزا چکھنا پڑا۔ ایک ریاست جو اس کے ہاتھ میں آسکتی تھی وہ نہیں آئی۔ کانگریس کمزور اپوزیشن اور کمزور مہم کے باوجود عوام اور ووٹرس چاہتے تھے کہ ریاست میں اس کی حکومت ہو لیکن غیر منظم اور منتشر اور باہمی چپقلش کی وجہ سے ووٹرس کانگریس کی طرف پورے طور پر متوجہ نہیں ہوسکے اور نہ ہی سارے امیدوار دل و جان سے لڑسکے۔ جس علاقے کے امیدوار کارکنوں کے ساتھ منظم اور متحد ہوکر لڑے وہاں ان کو کامیابی ملی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ کانگریس کی کارگزاری کے بجائے ووٹروں کی کارگزاری کچھ زیادہ تھی، ان کی چاہت اور تمنا کچھ اس طرح ہوئی کہ کانگریس ہریانہ میں بحال ہوگئی اور منہ دکھانے کے لائق ہوگئی۔ ریاست ہریانہ کی پورے ملک میں ایک الگ خصوصیت ہے۔ یہاں عام طور پر مشہور ہے ’آیا رام، گیا رام‘۔ حکومتیں یہاں دو دو تین تین مہینے میں بھی ٹوٹتی رہی ہیں۔ اس بار بھی یہاں غیر مستحکم حکومت ہونے کی امید ہے۔ حکومت سازی کیلئے 46 ممبران اسمبلی کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کے پاس 40 ممبران ہیں۔ پہلے بی جے پی نے /6 7 آزاد امیدوار کو خرید و فروخت کے ذریعے اپنے فولڈ میں لینے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب ہوئی لیکن تازہ ترین خبر کے مطابق چوٹالہ کی پارٹی ’جے جے پی‘ (جن نائک جنتا پارٹی) سے سیاسی معاہدہ ہوگیا ہے۔ امیت شاہ کا اعلان بھی آچکا ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کے پیش نظر یہ معاہدہ ہوا ہے ۔ اس معاہدے کے مطابق جے جے پی کے دوشانت چوٹالہ نائب وزیر اعلیٰ ہوں گے اور ان کی پارٹی کے دو لیڈر کابینہ کے وزیر ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنے دنوں تک یہ حکومت قائم رہ سکتی ہے۔
مہاراشٹر کی کہانی بھی ہریانہ ہی کی طرح ہے بلکہ ہریانہ سے بھی گئی گزری ہے۔ یہاں کانگریس کو بھوپیندر سنگھ ہڈا کی طرح کوئی لیڈر نہیں ملا جو کانگریس انتخابی کی مہم کو تقویت دے سکتا تھا اور سب کو لے کر چل سکتا ہے۔ آخر آخر تک کانگریس کے بڑے لیڈران چھلانگ مارکر بی جے پی کی طرف جاتے رہے۔ این سی پی (نیشنلسٹ کانگریس پارٹی) کے صدر شرد پوار تن تنہا اپنی پارٹی کو آگے لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ ضعیف العمر ہونے کے باوجود 70، 75 انتخابی جلسوں کو خطاب کیا اور ایک انتخابی جلسے میں موسلا دھار بارش ہوئی پھر بھی وہ عوام کو خطاب کرتے رہے۔ یہ ہے ایک 78سالہ شخص کی ہمت و حوصلہ اور جوش و جذبہ۔ ان کی پارٹی نے 56سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس کے برعکس 49 سالہ راہل گاندھی صرف چھ سات انتخابی جلسوں میں ہی جاسکے۔ ایسا لگتا تھا کہ کانگریس کی مرکزی اور مقامی لیڈران شکست خوردگی کے شکار ہیں۔ بغیر لڑے ہار جانا چاہتے تھے۔ یہ تو مہاراشٹر کے عوام اور ووٹرس کو داد دینی ہوگی کہ بغیر جدوجہد اور کوشش کے کانگریس کی جھولی میں اپنے ووٹس ڈال دیئے اور 44سیٹوں پر کانگریس کامیاب ہوگئی۔ مہاراشٹر میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا فی الحال کہنا مشکل ہے۔ لیکن جوڑ توڑ کی سیاست چل رہی ہے۔ شیو سینا کی قیادت تال ٹھونک کر میدان میں آگئی ہے۔ اس کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ ففٹی ففٹی کے فارمولے پر عمل کیا جائے گا اور وزیر اعلیٰ اس کی پارٹی کا ہوگا۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کے خیمے میں سناٹا ہوگیا ہے۔ ادھر کانگریس پارٹی مہاراشٹر کے صدر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شیو سینا کی قیادت اگر کانگریس سے رجوع کرے گی تو وہ مرکزی لیڈران سے صلاح و مشورہ کریں گے۔ شرد پوار نے بھی شیو شینا کے ففٹی ففٹی فارمولا کو صحیح بتایا ہے۔ اگر این سی پی اور کانگریس شیو سینا کو حمایت کردیتی ہے تو بی جے پی مہاراشٹر میں حکمرانی کرنے سے محروم رہ سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امیت شاہ اور نریندر مودی کس طرح شیو سینا کا سامنا کریں گے۔ ان کے اخبار ’سامنا‘ میں بھی ففٹی ففٹی کے فارمولے پر زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اب کی بار شیو سینا کا کوئی وزیر اعلیٰ ہونا چاہئے۔ دو اہم پارٹیوں کی حمایت کا اشارہ شیو سینا کے عزم کو یقینا مضبوط اور مستحکم کرنے کیلئے کافی ہوگا۔
کانگریس کو دو ریاستوں کے الیکشن سے جو پیغام ملا ہے کہ ریاستی لیڈروں کو آگے بڑھانا ہوگا اور ان پر پورا بھروسہ کرنا ہوگا جب ہی ریاست کی قیادت کارہائے نمایاں انجام دے سکتی ہے۔ اگر ریاست گیر پیمانے پر کوئی لیڈرشپ نہیں ابھرتی ہے اور ریاستی لیڈران صرف مرکز پر بھروسہ کرتے ہیں تو اس سے ریاستی پارٹی کمزور ہوتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کانگریس کے اندر جو جمہوری عمل معطل ہے اسے ختم کرنا ہوگا۔ ایک خاندان کی قیادت کو آخر کتنے دنوں تک ڈھوتے رہیں گے۔ راہل گاندھی نے اس وقت راہ فرار اختیار کیا جب کانگریس کو ان کی سخت ضرورت تھی۔ کئی سالوں کی محنت اور مشقت کے نتیجے میں ملک گیر پیمانے پر ایک قیادت کانگریس میں ابھری تھی۔ راہل گاندھی نے اپنی بچکانہ حرکت سے کمزور کانگریس کو جو بل دینا چاہئے تھا، حوصلہ دینا چاہئے تھا مزید کمزور کردیا۔ چار پانچ مہینے ان کو کانگریس کی بوڑھی قیادت منانے میں لگی رہی اور ان کی ضد کا عالم یہ تھا کہ وہ نہ بنیں گے اور نہ خاندان کے کسی فرد کو پارٹی کا صدر بننے دیں گے۔ بڑی مشکل سے تین چار مہینے بعد اپنی بوڑھی ماں کے کندھے پر بارِ قیادت سونپنے پر رضامند ہوئے۔ سونیا گاندھی ایک شریف خاتون ہیں اور کانگریس کو اپنے آخری دم تک کمزور دیکھنا پسند نہیں کرسکتیں جس کی وجہ سے انھوں نے عارضی طور پر قیادت کا بوجھ سنبھالنے پر رضامند ہوگئیں۔ حالانکہ ان کی صحت سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتی۔ ہریانہ جیسی ریاست جو دہلی سے بہت قریب ہے ان کو ایک جلسے میں خطاب کرنا تھا اس میں بھی وہ نہیں جاسکیں۔ آخر میں راہل گاندھی کو جانا پڑا۔ بیمار کانگریس کو آخر بیمار قیادت مخلص ہونے کے باوجود کیسے سنبھال سکتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ کانگریس کے اندر راہل گاندھی کی کوشش کے باوجود اب بھی اتنی خرابی موجود ہے کہ پارٹی کے اندر جمہوری ماحول یا جمہوری نظام پنپ نہیں سکا۔ اگر جمہوری نظام مضبوط اور مستحکم ہوتا تو کانگریس میں ایسے بہت قابل لیڈر ہیں جو کانگریس کی کمان کو سنبھال سکتے ہیں۔ کسی بھی پارٹی میں جب کسی بھی صدر یا قائد کا استعفیٰ ہوتا ہے تو پارٹی کے اندر فیصلے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اتفاق رائے سے منصب کیلئے منتخب ہوتا ہے یا کثرتِ رائے سے۔ یہی جمہوری عمل ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے اندر یہ طریقہ رائج نہیں ہے بلکہ طریقہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی کانگریس کا صدر ایسا ہو جو نہرو خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ خاندانی نظام ہے اور کوئی خاندانی پارٹی زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی۔ اب معاملہ یہ کہ ہندستان کی حالت اور خاص طور پر ہندستان کا سیاسی نظام خطرے کی طرف جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
یک جماعتی نظام برپا ہے۔ اپوزیشن ندارد ہے۔ نہ تو کانگریس اپوزیشن کا کردار ادا کر پا رہی ہے اور نہ ساری اپوزیشن پارٹیاں مل جل کر اپوزیشن کا کردار ادا کر پارہی ہیں۔ اپوزیشن کے بغیر جمہوریت بے معنی ہوجاتی ہے۔ پورے ملک میں ہاہاکار ہے، ہلچل ہے۔ مہنگائی سے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے لیکن نہ کانگریس ملک گیر پیمانے پر کوئی مہم چلا پارہی ہے اور نہ دیگر پارٹیاں اس بارے میں کچھ سوچ رہی ہیں اور نہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ جمہوریت کیلئے انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے۔ اب عوام کو کیا کرنا چاہئے؟ میرے خیال سے عوام کے اندر خود ایسی شورش پیدا ہونا چاہئے اور ایسا جوش و جذبہ جاگنا چاہئے کہ اپوزیشن بڑے پیمانے پر مہم چھیڑنے پر مجبور ہو۔ خاص طور پر سیول سوسائٹی کے لوگ اعلیٰ افسران اور اعلیٰ تعلیم یافتہ و دانشوران جو دو دو سو تین تین سو کی تعداد میں ایک ایسے وزیر اعظم کو خط لکھتے ہیں ملک کی ہنگامی صورت حال پر جو سنتا بھی نہیں، توجہ دیتا بھی نہیں۔ ضرورت ہے کہ کانگریس کے ہائی کمان کو ایسے لوگ خط لکھیں اور کانگریس کو جگانے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں تاکہ کانگریس کے اندر نئی قیادت ابھر سکے اور کانگریس منظم و مستحکم ہوسکے۔ بی جے پی کی شرارت اور آمریت کا مقابلہ کرسکے۔ میرے خیال سے آر ایس ایس کا راشٹر واد کا نعرہ، ہندوتو کا نعرہ ، ہندو مسلمان کو تقسیم کرنے کی جو کوشش تھی اب عوام کا کان سنتے سنتے پک گیا ہے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر کے عوام نے ان کے نعروں کو معاشی بدحالی اور غیر معمولی پریشانی کی وجہ سے ان سنی کردی ہے۔ ضرورت ہے کہ کانگریس حالیہ الیکشن کے نتائج سے سبق حاصل کرے۔ اپنے اندر استحکام اور اتحاد لانے کی کوشش کرے اور دیگر پارٹیوں سے تال میل کرکے مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔ عوام کانگریس کو پکار رہے ہیں۔ یہ عوام کی ضرورت ہے ، ملک کی ضرورت ہے کیا کانگریس سننے کیلئے تیار ہے؟ آخر کانگریس اب نہیں سنے گی تو کب سنے گی؟ جبکہ عوام کانگریس کو آواز پر آواز دے رہے ہیں۔ امید ہے کانگریس خواب غفلت سے اب بیدار ہوگی اور عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کرے گی۔

E-mail:[email protected]

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here