میم ضاد فضلی
70 سال قبل چودہ اور پندرہ اگست کو پاکستان اورہندوستان کو آزادی ملی تھی۔ جس سے کئی لوگوں کو اپنے ملک سے در بدر ہونے کا صدمہ، اپنے رشتہ داروں کی جان گنوانے کا دْکھ، افسوس اور ذلّت کا احساس ہوا تو وہیں کئی ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں اپنے وطن کی آزادی پر ناز بھی ہوتا ہے اور وہ اپنے وطن کی آزادی کی خوشی میں خوب جشن بھی مناتے ہیں۔برٹش راج نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہندوستان کو اس لئے چھوڑنے کا فیصلہ کیا کہ انہیں ہٹلر کی جارحانہ نسل پرستی سے یہ سبق حاصل ہوا کہ اب وہ کسی غیر ممالک پر قبضہ برقرار رکھ کر اپنی آن اور شان کو قائم نہیں رکھ پائیں گے۔ اس کے علاوہ گاندھی جی اور ان کے ساتھیوں کی عدم تشدد تحریک سے انگریزوں کو اس بات کا احساس ہوچلا تھا کہ اب ان کیلئے ہندوستان پر حکومت کرنامشکل ہوچکا ہے۔
2 اکتوبر 1869 کو پووربندر میں پیدا ہونے والے جدو جہد آزادی کے عہد سازلیڈر موہن داس کرم چند گا ندھی ایک ایسا شخص تھا جس نے ہندوستان کوآزادی دلانے کیلئے منفرد نوعیت کی تحریک شروع کی اورساتھ ہی ساتھ اہل وطن کو عدم تشدد کے راستے پر چلنے کا بھولاہواسبق یاد دلایا۔مہاتما گاندھی نے’’ہند سوراج‘‘سے لے کر’’ستیہ کیمیرے پریوگ‘‘ جیسی عظیم تخلیقات میں ا پنی زندگی کے تصور اور ہدف کو بڑے ہی دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ مذکو رہ بالا دونوں مجموعوں کے اندر با با ئے قوم کی فکر اوروسیکولر ہندوستان کی فضاؤں میں وہ کس حدتک امن و خوشحالی اور بقائے باہم کو ملک کی ترقی اور سلامتی کیلئے ضروری سمجھتے تھے ،انہوں نے اپنے انہیں خوابوں اور ارادوں کوبے حد مؤثر انداز میں اپنی کتاب کے اندر پیش کیا ہے۔بابائے قوم کے قیمتی خیالات اور نفرت و تشدد سے پاک ہندوستانی نظام حکومت کی ان کی پالیسی کوپڑھنے اور جاننے والے دانشوراور عام لوگ ان کے ایک ایک جملے کو انسانیت کے مسیحاکا پیغام کے طور پردیکھتے ہیں ،ان کی پالیسی اوران کے ذریعہ نظام حکومت چلانے کے فارمولہ کو سمجھ چکے لوگ آج بھی بابائے قوم کے لئے اپنے دلوں عقیدت و احترام کا سچاجذبہ رکھتے ہیں،حتی کہ دنیا بھر کے دانشوراور مطالعہ کے شوقین لوگوں کو بابائے قوم کے یہ افکار اپنی جانب بے ساختہ کھینچ لیتے ہیں۔ گاندھی جی کو پڑھنے کے بعد آپ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ان کی ساری زندگی صرف ایک پیغام ہے اور انسانوں کے ساتھ ہمدردی کے جذبات ابھار نے کا سارانسخہ انہوں نے کمال مہارت سے دنیا کے سا منے پیش کردیا ہے۔حکومت کی انتقامی سیاست کی وجہ سے اس وقت اگرچہ باپو کو بھلادینے کی ناپاک سازشیں کی جا رہی ہیں ،صرف ان کے چشمے سے عوام کو الو بنانے کی کوشش ہو رہی ہے،جبکہ بیش تراشتہارات اور مقامات سے ان کے سراپا کو غائب کیا جارہا ہے۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مودی سرکاری زبانی طور پر باپو کے بارے میں جوکچھ بھی کہے،ان کی جتنی بھی تعریفیں کرے ،مگر سچ یہی ہے کہ عملی طور پرگاندھی جی کے نظریات کوملک کے سسٹم سے بڑی تیزی سے نکال باہر کیا جارہا ہے۔مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ لاکھ جتن کرنے کے باوجود مرکز کی بھگوا سرکار بابا ئے قوم کا نام ونشان مٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ،اس لئے کہ بابائے قوم اپنے ملک کے لوگوں کواتھاہ حب الوطنی کا جذبہ،انسانیت دوستی ،عدم تشدد اورمذہب وفرقہ اور اونچ نیچ سے پا ک وطن کی تعمیر کا خاکہ دیکر عوام کے دلوں میں جگہ بناچکے ہیں اور مودی جی کویادرکھنا چاہئے کہ آپ کتابوں اور زمین پر مجسموں کی شکل میں موجود گاندھی پر توبلڈوزر چلاسکتے ہیں مگر ہندوستانیوں کے دلوں پر کونسا بلڈوزر چلاکر آپ باپو کا نام بھلادینے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
غالباً اس کا جواب مودی تو کیا سنگھ کے وڈیروں کے پاس بھی نہ ہو۔ذرا غور کیجئے! گاندھی جی کی تصویرکی جگہ مودی سرکار نے صرف ان کے چشمے دکھاکر عوام کی نبض ٹٹولنے کی سعی کی ۔مگر جلد ہی عوام کی بے تابی کو بھانپ کر انہوں نے نئی نوٹ چھپوائی اور اس میں باپو کی تصویر چسپاں کرکے ایک بار پھر بابائے قوم کو پائندہ کردیا۔مگر خیال رہے کہ یہ کام موجودہ حکومت نے گاندھی جی کی محبت میں نہیں کیا ہے،بلکہ ایسا مجبوری میں کیا گیا ہے۔بی جے پی کو معلوم ہے کہ عدم تشدد کے پیغامبر اورجنگ آزادی کے روح رواں ،آزادہندوستان کے عظیم محسن موہن داس کرم چند گاندھی ہندوستانی عوام کی دھڑکنوں میں بستے ہیں۔ اگرگاندھی جی کو یکسر بھلانے کی غلطی کی گئی تو ملک کے کروڑوں شہریوں کی دھڑکنیں رک جائیں گی ،اور اسی دن سے بی جے پی کے خاتمہ کی تاریخ بھی شروع ہو جا ئے گی۔
مہاتما گاندھی پوری زندگی ’’سوراج‘قائم کرنے کا خواب دل میں بساتے رہے۔ ہندوستان میں نظام حکومت کیلئے بابائے قوم نے جس سوراج کے تانے بانے بنے اور ساری دنیامیں اس سوراج کے قیام تبلیغ کی تھی، اس سوراج میں سب سے پہلے انہوں نے یہ تصور دیاتھا کہ ملک کو ترقی ،خوشحالی اور امن وسلامتی کی ڈگر پر لے جانے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے گاؤں کو خود مختاراور خود کفیل بنایا جائے۔ ان کا نقطہ نظریہ تھاکہ دیہی ہندوستان کی آسودہ حالی اورخود مختار میں ہی ملک کی خوشحالی کا راز پوشیدہ ہے اور گاؤں کی خود مختاری پنچایتی نظام میں ہی منحصرہے۔لہذا جب تک ہمارے دیہات خود کفیل نہیں ہوجاتے اور روزگار کیلئے بھوک سے نڈھال دیہی باشندوں کی نقل مکانی کا سلسلہ چلتا رہے گا، اس وقت تک ترقی یافتہ ہندوستان کا دعویٰ جھوٹا اوراور صرف ’’جملہ‘‘ ہی کہلائے گا۔باپو کہا کرتے تھے کہ بھارت چند شہروں میں نہیں، بلکہ سات لاکھ دیہاتوں میں آباد ہے اور اس فکر صحیح رنگ روپ دینے کیلئے انہوں نے وسیع پیمانے پر کسانوں کو قومی تحریک میں شامل کیا تھا۔باپو کہا کرتے تھے کہ گاؤں کو چھوڑکر ہندوستان کبھی بھی معنوی جمہوریت سے روشناس نہیں ہوسکے گا۔گاندھی جی نے 1920 میں جب آزادی کی جدوجہد کی قیادت سنبھالی تو ان کے لئے شہروں سے زیادہ ملک کے سات لاکھ گاؤں کی بازآبادکاری اورخود مختاری کا ایجنڈا سب سے اوپر تھا۔مگر آج ستر برس گزرنے کے بعد اس وقت جو حکومت اقتدار میں ہے، اس نے ملک کے لاکھوں گاؤ والوں کو ٹھینگانے دکھا نے علاوہ اگر کچھ کیا بھی ہے تو صرف ’’جملے بازی ‘‘کی ہے۔اس کی زندہ مثال 2014سے آج تک مسلسل کسانوں کی خودکشی شرح میں اضافے سے ملتی ۔ابھی اترپردیش کے کسانوں کو قرض معافی کے نام پر اس طرح سے مودی اور یوگی سرکار نے ٹھگا ہے کہ اسے جان کر ساری دنیا بھاجپائی حکومتوں پرتھوک رہی ہے۔اعداد شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کسان کے 9پیسے معاف کئے گئے ہیں تو کسی کے 18روپے ۔اب آپ خود سوچئے کہ یہ حکومت عوام بالخصوص دیہی ہندوستانیوں کو بے وقوف بنانے کے علاوہ اور کیا کررہی ہے۔
اسی 19اگست 2017کووزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت چھوڑو تحریک کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر عوامی نمائندوں سے پارٹی خطوط کی سیاست سے اوپر اٹھ کر بابائے قوم مہاتما گاندھی کے خوابوں کے ہندوستان کی تعمیر کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ملک سے غربت، ناخواندگی، غذائی قلت اور بدعنوانی کو ختم کرنے کے لئے ’ہمیں 1942 کی تحریک کے دوران اختیار کی گئی قوت ارادی کو ازسرنو زندہ کرنا ہوگا۔‘مسٹر مودی نے لوک سبھا میں اگست کرانتی کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے خصوصی خطاب میں یہ بات کہی تھی۔انہوں نے کہاتھا کہ قومی پالیسی سیاست سے بالاتر ہوتی ہے۔مگراس طرح کی جملے بازی سے آگے مودی نے آج تک دیہی ہندوستانیوں کی غریبی کا مذاق اڑانے، ان کی محنت کی کمائی کو بنکوں کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا ہے ،اسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔منریگاختم کرکے غریب دیہاتیوں کی تھالی سے روٹی چھین لینے والی سرکار سسٹم میں شفافیت کا ڈھونگ رچ کر امیروں کے وارے نیارے کررہی ہے ،جبکہ دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گھٹتی ہوئی جی ڈی پی صاف صاف بتا رہی ہے کہ بی جے پی باپوکے ہندوستان کو کہاں لے کر جارہی ہے۔
باپو کے دل ودماغ میں ہمیشہ دیہی ہندوستان کی خوشحالی کی فکر غالب رہتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ملک کی سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ دیہی صنعت،پنچایتی راج،سوراج جیسی اسکیموں کے نفاذکوہی اصل آزادی اور خودمختارہندستان کی بنیاد قرار دیاتھا۔آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ گاؤں کی طرف باپوکی آ نکھ سے دیکھا جائے اور بابائے قوم کی طرح گاؤں کی خوشحالی اور خود مختاری کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔مگراس کیلئے’’ جملے بازی ‘‘ سے آگے بڑھ کر کام کرنا ہو گا جو مودی سرکارکے ایجنڈے میںسرے سے ہے ہی نہیں۔
E-mail : [email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں