ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ماہ رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے اور کورونا کی دہشت اب تک قائم ہے _ مسلمانوں نے بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کر رکھی تھیں ، اب رمضان میں بھی انہیں جاری رکھیں گے _ چنانچہ مساجد میں نمازیوں کی تعداد انتہائی محدود رکھی گئی ہے ، باقی تمام لوگ گھروں میں پنج وقتہ اور جمعہ کی نمازیں ادا کررہے ہیں _ رمضان میں بھی ایسا ہی کریں گے _ افطار بھی گھروں پر ہی ہوگا اور افطار پارٹیاں نہیں کی جائیں گی _ نماز تراویح کا اہتمام بھی گھروں پر کیا جائے گا _ رمضان کی دیگر اجتماعی سرگرمیوں کو محدود یا موقوف رکھا جائے گا _ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو شریعت کی سند حاصل ہے ، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، بلکہ ایسا ہی کرنا چاہیے _ اس موقع پر احتیاط نہ کرنا اور توکل کے نام پر بیماری پھیلانے کا ذریعہ بننا نہ صرف مقاصدِ شریعت کے خلاف ہے ، بلکہ دین کی بدنامی کا باعث بھی ہے _
لیکن احتیاط میں بہت زیادہ مبالغہ کرنا دین میں مطلوب نہیں ہے _ عذر اسی حد تک قابلِ قبول ہے جس حد تک وہ واقعۃً پایا جائے _ موہوم اندیشوں کو حقیقی عذر کی حیثیت سے پیش کرنا درست نہیں _ میرے بعض احباب نے اس موقع پر اپنے ان
احساسات کا اظہار کیا ہے کہ روزے میں جسم کا مدافعتی نظام کم زور ہو جاتا ہے ، جس سے کورونا وائرس کے حملہ آور ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ، دوسرے ، روزے کی وجہ سے جسم پر پڑنے والا بوجھ موجودہ صورت حال میں خطرناک ہو سکتا ہے ، کیوں کہ یہ وائرس کے حق میں جاتا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق روزہ صرف اس وقت رکھا جا سکتا ہے ، جب وہ صحت یا زندگی کو خطرات میں نہ ڈالتا ہو _ اسلامی احکام کے مطابق حاملہ خواتین ، بیمار اور کم زور افراد پہلے ہی روزہ سے مستثنیٰ ہیں _ ایسی صورت میں کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ اس بار رمضان کے روزوں کو ترک کردیا جائے اور حالات درست ہونے کے بعد ان کی قضا کرلی جائے؟
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ رائے درست نہیں ہے _ شریعت کے تمام احکام عام مسلمانوں کے لیے اور عام حالات میں ہیں _ ان کے مکلّف وہ لوگ ہیں جو ان پر عمل کی سکت رکھتے ہیں _ جنہیں کوئی عذر ہو وہ ان پر عمل سے مستثنٰی ہیں _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا (البقرۃ : 286) ” اللہ کسی شخص پر اُس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا _” رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو ساتھ ہی تسلّی دی گئی کہ انہیں بوجھ نہ سمجھو ، یہ نہ خیال کرو کہ ان کی وجہ سے مشقّت میں پڑ جاؤ گے ، ان کی فرضیت تم سے پہلے کی قوموں پر بھی کی گئی تھی ، اس سے تمھاری دینی ، روحانی اور اخلاقی زندگی سنوارنا مقصود ہے ، اس لیے شرحِ صدر سے روزہ رکھو _ البتہ جنہیں واقعی مشقّت ہوسکتی تھی انہیں رخصت دے دی گئی کہ وہ روزہ رکھ کر ہلکان نہ ہوں ، بلکہ حسبِ سہولت بعد میں رکھ لیں _ سورۂ بقرہ آیت 184 میں ہے :
” اَيَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍؕ فَمَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ مَّرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ ”
” چند مقرر دنوں کے روزے ہیں ، البتہ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو ، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے _”
مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اگلی آیت (185) میں اسی بات کو پھر دہرایا گیا :
” فَمَنۡ شَهِدَ مِنۡكُمُ الشَّهۡرَ فَلۡيَـصُمۡهُ ؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ
” لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے ، اُس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو ، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے _”
ساتھ ہی رخصت اور تخفیف کی بنیادی وجہ بھی بیان کردی گئی :
” يُرِيۡدُ اللّٰهُ بِکُمُ الۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ”
” اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا _”
سفر اور مرض حقیقی اعذار ہیں _ سفر چاہے جتنا آرام دہ ہو اس میں عموماً حضر جیسی سہولتیں حاصل نہیں ہوتیں _ مرض کی صورت میں روزہ رکھنے میں بہت دقّتیں ہوں گی _ اس لیے روزہ کے حکم سے ان دونوں کو مستثنٰی کردیا گیا _ حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی فقہاء نے مریض کے حکم میں رکھا ہے اور انہیں اجازت دی ہے کہ وہ ماہ رمضان میں روزہ نہ رکھ کر بعد میں قضا کرسکتی ہیں _ بوڑھے اور دائمی مریض چوں کہ اب آئندہ کبھی روزہ نہیں رکھ سکتے ، اس لیے انہیں اجازت دی گئی ہے کہ وہ روزے نہ رکھ کر ان کا فدیہ ادا کردیں _
کورونا کی وبائی صورت میں چوں کہ زیادہ تر اوقات میں گھر پر رہنے کی تاکید کی گئی ہے اور بغیر کسی شدید ضرورت کے باہر نکلنے سے منع کیا گیا ہے ، اس لیے عام افراد کو روزہ رکھنے میں کوئی خاص مشقّت نہیں اور نہ انہیں کوئی خطرہ ہے ، البتہ جو لوگ میدان میں ہوں ، مثلاً ڈاکٹرس ، نرسز ، طبی عملہ کے لوگ ، جو کورونا کے مریضوں کا علاج کررہے ہیں ، وہ خطرہ کی کگار پر ہیں ، ان کے لیے رخصت ہوسکتی ہے کہ وہ اس موقع پر اپنی پوری طاقت عوام کو اس مرض سے بچانے میں جھونک دیں اور اپنے روزے بعد میں کبھی رکھ لیں _ اسی طرح جو لوگ کورونا کے کسی مریض کے براہ راست رابطہ میں آجانے کی وجہ سے قرنطینہ میں رکھے گئے ہیں اور ان کے لیے ڈاکٹروں کی سخت تاکید روزہ نہ رکھنے کی ہے ، وہ بھی اس رخصت پر عمل کرسکتے ہیں ، لیکن دوسرے تمام لوگ موہوم اندیشوں سے خود کو بچائیں اور روزہ رکھنے کا پختہ ارادہ کریں _ پتہ نہیں ، اگلے برس زندگی وفا کرے یا نہ کرے _
عربوں میں ایک رسم رائج تھی جسے ‘نسئ’ کہا جاتا تھا _ وہ اپنی سہولت کے پیش نظر مہینوں کو آگے پیچھے کرلیا کرتے تھے _ قرآن مجید میں اس پر نکیر کی گئی اور اسے کافرانہ اور گم راہ کن عمل قرار دیا گیا _ (التوبۃ :34) تمام لوگوں کے لیے موجودہ حالات میں ماہ رمضان میں روزہ نہ رکھ کر آئندہ کبھی رکھ لینے کا مشورہ دینا اسی قبیل سے ہوگا _
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں