اسلامی ممالک میں بھارتیوں کا عمل دخل

0
1253
All kind of website designing

مشرق وسطی سے ہمارے کمزور تعلقات کی وجوہات!

کسی کے دل تک اترنے کے لیے اس کی زبان جاننا بے حد ضروری ہے۔ایک سعودی ریٹرن کا کہنا تھا کہ پیسے مشرق وسطی کی ہواؤں میں اڑتے ہیں انہیں پکڑنے کے لئے آپ کو بہترین عربی زبان جاننے کی ضرورت ہے، تاکہ عوامی نمائندوں ،رہنماؤں سے رابطہ آسان ہوسکے۔اصل میں زبان ہی کمیونی کیشن گیپ توڑنے میں معاون رول پلے کرتی ہے۔اس بات کی سچائی کا ۹۹؍ فیصد احساس مجھے تب ہوا جب آج سے تین سال قبل کولکاتا کے ایک بزرگ عالم دین سے ایک جلسے میں ملاقات ہوئی تھی مدارس اور عربی تعلیم پر بات چیت کے دوران انہوں نے ایک حقیقت کا انکشاف کرکے گویا مجھے چونکا ہی دیا تھا۔ان کے بقول، کولکاتا میں آر ایس ایس کی فنڈنگ اور دیکھ دیکھ میں’’شری کرشن میموریل ٹرسٹ‘‘ نامی ایک ادارہ چلتا ہے جس میں دھارمک گیان اور عصری علوم کے ساتھ ساتھ عربی لینگویج کا ایک خاص شعبہ بھی ہے، جس میں تقریبا دو سو ہندو لڑکے عربی اسپیکنگ کورس کر رہے ہیں ۔ اور انہیں عرب ممالک میں بڑے بڑے عہدوں، گلوبل اسٹیٹس کمپنیز کے لئے بطور امپلائی بھیجا جاتا ہے۔اور آپ اعدادو شمار نکال کر دیکھ لیں کتنے مدرسے والے گلف کے لیے اپنے طلبہ تیار کرتے ہیں۔ہم نے اب تک نہیں سنا کہ فلاں مدرسے یا ادارے کے بینر تلے روزگار کےلیے سرٹیفائڈ طلبہ کو فارین بھیجا گیا ہے۔ممکن ہے کہیں کوئی ایک دو ہو بھی، مگر میرے علم میں نہیں ہے۔
ویسے بھی ہماری اور دیگر اقوام کی چال کے درمیان وہی فرق ہے جو کچھوے اور خرگوش کی چال کے درمیان ہے۔یہ میں اس لیے بھی وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ آج تک سینکڑوں کوششوں کے بعد بھی روز گار کے لیے میرے گاؤں سے ایک بندہ بھی سعودی نہیں جاسکا ہے۔جبکہ ہمارے بغل کے ہندو گاؤں سے درجن بھر لوگ سعودی رہتے ہیں۔یہ ایسے ہی نہیں ہوجاتا ہے صاحب! بلکہ اس کے لیے ہندو لابیز دن رات ایک کر رہی ہیں۔خلیجی ممالک سے رابطہ بنانے میں کافی پہلے سے یہ متحرک ہیں۔
اس میں ہمارے پچھڑے پن کا سبب ڈھونڈنے کے لیے آپ کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ہمارے مدارس نے عربی کے اتنے کان کھینچے ہیں،قال قال کی اتنی گردان کروائی ہے،اس کے نین نقش پر قیل و قال کی اتنی پرتیں جمائی ہیں کہ دس سال لگا دینے کے بعد بھی ہم کسی عرب سے تبادلۂ خیال کے قابل نہیں بن پاتے اور نہ کسی پلیٹ فارم پر جاکر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے اہل ہو پاتے ہیں۔پھر مستزاد یہ کہ ہمارے مدارس والوں نے آج تک عرب شیوخ و رہنمایان خلیج ممالک سے کوئی ایسا معاہدہ بھی نہیں کیا کہ ہمارے طلبہ انڈیا میں دیگر علوم کے ساتھ ساتھ عربی ادب کی ضروری تعلیم حاصل کرکے خود کو ثابت کریں۔کہا جاتا ہے کہ تعلیم کو اگر روزگار سے جوڑ دیا جائے تو اس کے پھلنے پھولنے کے مواقع سہ گنا ہوجاتے ہیں۔
ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ مشرق وسطی میں تقریبا جتنے ہندوستانی رہتے ہیں ان میں تقریبا ۷۰؍ فیصد غیر مسلم ہندو ہیں جو وہاں بڑے بڑے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔اس سے اندازہ لگائیں کہ ہم کہاں ہیں اور وہ کہاں ہیں۔
انڈین مسلم اور عرب ممالک کے عوام و نمائندوں کے بیچ اتنی بڑی خلیج کیوں ہے؟ تو اولا آپ کو دو وجہ خوب سمجھ میں آئے گی۔پہلی تو یہ کہ ہم اس معیار کے پروڈکٹ پروڈیوس کرنے میں ناکام رہے ہیں جو عرب شیوخ و رہنمایان کو ہماری پریشانیاں، ضرورتیں سمجھا سکیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ہند و پاک میں رائج دیگر مسالک کے خلاف سلفی مکتبہ فکرکے علما و عوام نے عربوں کےاتنے کا ن بھرے ہیں کہ سعودی سے لے کر متحدہ عرب امارات تک کے سارے لوگ سلفی فکر کے علاوہ کسی بھی مسلک کے ماننے والوں کو مسلمان تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں، بلکہ انہیں وہ سرے سےمشرک سمجھتے ہیں جو ان کی نظر میں ہندؤں سے بھی بدتر ہیں۔ حالیہ چھ سات برسوں کے درمیان با لخصوص سعودی عرب اور عموماً تمام خلیجی ممالک کے سربراہوں، حکم رانوں اور آقاؤں نےہندوؤں کو جو عزت احترام بخشا ہے وہ سب اسی سلفی پروپیگنڈے کی دین ہے، لہذا ہمیں ہندوؤں پر سوال کھڑے کرنے سے پہلے اپنے گھروں میں جھانکنا چاہئے ۔جب کہ وقت و مصلحت کا تقاضا تھا کہ مسلکی عناد کی دیوار کو مضبوط کرنے کے بجائے باہم ایک دوسرے کو قریب کرنے اور بغل گیر ہونے کی پالیسی پر کام کیا جاتا۔مگر صد حیف! کہ ایسا نہ ہوسکا۔یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار یہاں کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا دیے جاتے ہیں۔ہمارے خلاف سازشیں ہوتی ہیں،لنچنگ ہوتی ہے،دنگے ہوتے ہیں اور عرب شیوخ،خلیجی سربراہان کان میں تیل ڈال کر سوئے رہتے ہیں۔انہیں ہمارے مسائل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ یہاں ہماری نسل کشی ہوتی ہے اورہماری لاشوں جشن مناتے ہوئے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے شیوخ ہمارے قاتل پیر وں تلے سجدہ ریز ہونے کو قابل فخر قدم تصور کرتے رہتے ہیں۔ انہیں بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کا سن کر اتنی خوشی ہے کہ گویا انہوں نے جنت کا سرٹفکیٹ حاصل کرلیا ہے۔سفلی پروپیگنڈوں نےان کے فکر و خیال میں یہ بات بٹھادی ہے کہ ہندوستان میں ان کے علاوہ جتنے مسالک ماننے مسلمان رہتے بستے ہیں وہ سب کے سب مشرک اور جہنمی ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ ایسی ذہنیت پیداکردینے کے مسلمانوں کے قتل عام کو آج کے عرب عوام اور حکم ران مشرک کاقتل کا قتل عام ہی کریں گے، لہذا ہمارے قتل یا ماب لنچنگ پر انہیں جشن منانے میں بے حد وحساب مزہ آتا ہے۔
فطرت کا قانون ہے کہ زمین پر جب بھی زیر و زبری یا خوف و دہشت کا ماحول بنتا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ مثبت اشارے بھی پنہاں ہوتے ہیں۔اب دیکھئے نا! ویسے تو’’کورونا لاک ڈاؤن‘‘ سے جانداروں کو درجنوں بڑے فائدے ہوئے ہیں۔اگرچہ کورونا نے سب کو دہشت زدہ کر دیا ہے ۔ یہاں تک کہ جو ہمیشہ دوسرے کو آنکھ دکھاتا تھا،جو اپنی ٹاپ لیبل ہیلتھ فیسیلٹی پر نازاں تھا، اس آسمانی آفت نے اسے بھی خون کے آنسو رلا دیا ہے۔ایسے میں ہمارے لئے کچھ شادمانی کی خبر یہ ہے کہ عرب ممالک کے نمائندگان،صحافی حضرات، اور شاہی خاندان کے افراد کو ہمارے دکھوں کا علم ہونے لگا ہے۔اور ان کے اندر ایمانی اخوت جاگنے لگی ہے۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی انسانیت تھوڑی سی جاگ گئی ہے ، وہ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے سے نالاں ہیں، یہ مت سمجھئے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی سے بے چین ہوگئے ہیں، عرب عوام اور وہاں کے حکم راں تو یہاں غیر مسلمانوں کے مشرک اور جہنمی مانتے ہیں، انہیں بے چینی اس لئے ہوئی ہے بی جےپی کی ٹرول آرمی اور مودی بھکتوں نے جتنے بھی ٹوئٹس کئے ہیں ،اس میں انہوں نے مسلمان اور اسلام کا نام لے غصے اور گالیوں کے اظہار کئے ہیں۔ بہر موجودہ صورت حال یہ ہے کہ عرب عوام اور حکم راں خاندانوں کے بعض افراد بھی سوشل میڈیا کے ٹویٹر پلیٹ فارم سے ہمارے لئے نکل پڑے ہیں، اگرچہ ابھی یہ چند ہی ہیں، مگر امید ہے کہ رفتہ رفتہ ہی سہی ایک دن قافلہ ضرور بنے گا۔ظلم کا بادل چھٹے گا۔آثار بتاتے ہیں سحر ہوکے رہے گی (ان شاءاللہ)۔
بابا رام دیو جو بھگوا اور ہندو پرچار پرسار کو نہ صرف اپنا دھرم سمجھتا ہے، بلکہ پتنجلی کی آڑ میں دیش اور دنیا میں اپنی کیسریا زمین بنانے میں آج کامیاب نظر آتا ہے۔یہی رام دیو اپنی سنگھی مہم کے تحت، خالص توحیدی ہونے کا ڈھنڈھورا پیٹنے والے امارات کے متحدہ ریاستوں کے کئی بڑے شہروں میں یوگا آشرم کھول رہاہے، ظاہر سی بات ہے یہ سارے منادر بت پرستی کے اڈے عرب حکم رانوں اور سلفی مکتب فکر کی خاموش تائید کے نتیجے میں ہی سر انجام دیے جارہے ہیں۔مودی نے پہلے ہی ابو ذہبی میں ہندو سماج کے لئے ایک عالی شان مندر تعمیر کروا لیا ہے، یہ سب ہندوتوا احیا کی ان ہی خفیہ پالیسی کا حصہ ہیں ۔آپ اس سے اندازہ لگائیے کہ رام دیو اور ہندو تنظیموں کی یہ کتنی بڑی کامیابی ہے۔
پچھلی پندرہ سو سالہ تاریخ میں ہم نے کافی جنگیں تب ہاری ہیں، جب ہمارے اندر کوئی میر جعفر پیدا ہوا ہے۔کہتے ہیں نا کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ آج بھی ہم ان جیسے لوگوں سے گھرے ہوئے ہیں۔تب کے مقابلہ میں اب تو حالات اور بھی مشکل ہوگئے ہیں، اس وقت غداروں کی شناخت آسان تھی کہ کوئی حدیث و قرآن کی تاویل و تشریح کرکے ایسا نہیں کرتا تھا۔اب تو مذہبی جماعت سے ہی ایسے لوگ اٹھے ہیں جو حکومت کی کاسہ لیسی کرکے ملت کے وجود و وقار کا سودا کر لیتے ہیں۔کمال تعجب تو یہ ہے کہ کوئی مولوی مذہبی بھی ہو اور سرکاری بھی، ایسا کیسے ممکن ہے؟ جب کہ مذہبی و اخلاقی نقطۂ نظر سے مولوی کا سرکاری ہوجانا کسی گالی سے کم نہیں۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here