ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
حدیث جھوٹی نکل گئی ، وہ بھی بخاری کی،،،نوجوان نے چہکتے ہوئے کہا میں نے عرض کیا : کون سی حدیث؟ اس کا جھوٹ ہونا آپ نے کیسے معلوم کرلیا؟ حدیث میں کہا گیا ہے :’’ لا عدوی‘‘ (انفیکشن نہیں ہوتا) ، جب کہ آج کے دور میں انفیکشن ایک زندہ حقیقت ہے ،بہت سی بیماریاں متعدی ہوتی ہیں، _ ایک سے دوسرے کو لگتی ہیں، _ اب کورونا ہی کو لے لیجیے، _ انفیکشن کی وجہ سے ہی لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے سختی سے منع کیا جارہا ہے۔ _ حدیث میں ڈیڑھ ہزار برس پہلے کی بات کہی گئی ہے۔ _ اس وقت لوگوں کو انفیکشن کی خبر نہیں تھی _ پیغمبر نے بھی وہی بات کہہ دی۔
بخاریؒ میں یہ بات کتنی جگہ کہی گئی ہے؟ میں نے دریافت کیا۔
’’نہیں معلوم‘‘ وہ ٹھٹھکا۔ _
شاید اسے اس سوال کی توقع نہیں تھی’’ ” صرف یہی بات کہی گئی ہے ،یا اس کے آگے پیچھے کوئی اور بات بھی کہی گئی ہے؟ میرا اگلا سوال تھا ۔
’’ نہیں معلوم‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ تھوڑا سا شرمندہ معلوم ہورہا تھا۔میں نے اسے مزید شرمندہ کرنانا مناسب سمجھا، _ چنانچہ اگلا سوال کیا : کیا آپ نے بخاری دیکھی ہے؟ کیا اس کا مطالعہ کیا ہے۔’’اس نے منھ بناتے ہوئے کہا :’’نہیں‘‘
’’میں آپ کو بتاتا ہوں‘‘۔بخاری میں یہ حدیث 10 مقامات پر روایت کی گئی ہے ۔ ایک حدیث (5707) میں یہ بات کہنے کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے :’’جذامی شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو‘‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس میں انفیکشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے بچنے کے لیے نہیں کہا گیا ہے؟ بخاری کی ایک حدیث (5771) میں اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے :’’ کسی بیمار (اونٹ) کو صحت مند (اونٹوں) کے ساتھ نہ رکھا جائے‘‘۔ کیا اس میں انفیکشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے بچنے کے لیے نہیں کہا گیا ہے؟ نوجوان تھوڑی دیر خاموش رہا۔ _ اس کی خاموشی بتا رہی تھی کہ وہ بات سمجھنے کی کوشش کررہا ہے۔ _ اس نے خاموشی توڑی :’’ دونوں باتوں میں ٹکراؤ دکھائی دکھائی دے رہا ہے _‘‘۔ دونوں میں سے کوئی ایک بات ہی درست ہوسکتی ہے؟ میں نے کہا : ٹکراؤ نہیں ہے۔ _ دونوں باتیں درست ہیں ۔ دونوں میں الگ الگ پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے _ جذامی شخص سے بچنے کی تلقین اور بیمار کو صحت مند سے الگ رکھنے کی ہدایت کا واضح مطلب یہی ہے کہ انفیکشن ایک مسلمہ حقیقت ہے _ ،اسے تسلیم کرنا چاہیے _ اور’’ انفیکشن نہیں ہوتا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ انفیکشن بذات خود مؤثر نہیں ہے _ کوئی بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص کو اللہ تعالیٰ کے اذن اور مشیّت سے لگتی ہے۔ اگر اللہ کی مشیّت نہ ہو تو بیمار کے رابطے میں آنے کے باوجود صحت مندوں کو بیماری نہیں لگ سکتی ،یہ ہمارا دن رات کا مشاہدہ ہے _ گھر میں کسی فرد کو کوئی متعدی بیماری ہوتی ہے ، اس کے ساتھ گھر میں کئی لوگ رہتے ہیں ، لیکن انہیں وہ بیماری نہیں لگتی ، یا کسی کو لگ جاتی ہے/ کسی کو نہیں لگتی۔ _ اسی طرح اسپتال میں متعدی امراض کے شکار لوگوں کا علاج ہوتا ہے ، ان کے رابطے میں رہنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملہ کو وہ بیماری نہیں لگتی ، یا کسی کو لگ جاتی ہے ، کسی کو نہیں لگتی _ اس کا مطلب یہ ہے کہ انفیکشن ایک سے دوسرے کو منتقل ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیّت پر منحصر ہوتا ہے۔یہی بات بخاری کی ایک حدیث (5717) میں کہی گئی ہے _ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :’’ انفیکشن نہیں ہوتا‘‘ تو ایک بدّو نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول! میرے اونٹ صحت مند ہوتے ہیں _ ان کے درمیان ایک خارش زدہ اونٹ آجاتا ہے تو انہیں بھی خارش کا مرض لگ جاتا ہے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’اس پہلے اونٹ کو خارش کس نے لگائی تھی؟ ‘‘
تب تو یہ حدیث غلط نہیں ہے۔’’ نوجوان کے چہرے سے اطمینان ظاہر ہورہا تھا میں نے کہا :’’ حدیث کے بارے میں فیصلہ کرنے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ کوئی ایک حدیث ہمارے مطالعے میں آئے ، وہ ہماری سمجھ میں نہ آئے ، بس فوراً ہم اسے جھوٹی قرار دے دیں، _ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہم دیکھیں کہ وہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے یا ضعیف یا موضوع (من گھڑت) ؟ اس مضمون کی اور احادیث ہیں یا نہیں؟ اس میں جو بات کہی گئی ہے اس کی کوئی توجیہ کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ دین کی بنیادی تعلیمات سے وہ مطابقت رکھتی ہے یا نہیں؟ عام لوگوں کو مزید احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ علماء نے اس حدیث کے بارے میں کیا موقف اختیار کیا ہے؟ اور کیا بات کہی ہے؟
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں