اے ایم یو کے شعبۂ فلسفہ کی جانب سے ’صوفی ازم، انسانیت اور تکثیریت ‘ کے مو ضوع پر دو روزہ قومی سیمینار کا انعقاد
علی گڑھ، 13نومبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے شعبہ¿ فلسفہ کی جانب سے ’صوفی ازم، انسانیت اور تکثیریت: ہندوستانی نقطۂ نظر‘ موضوع پر انڈین کونسل آف فیلاسوفیکل ریسرچ (آئی سی پی آر) ، نئی دہلی کے تعاون سے دو روزہ قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ یونیورسٹی پالی ٹیکنک (بوائز) میں سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں انڈین کونسل آف فیلاسوفیکل ریسرچ کے چیئرمین پروفیسر آر سی سنہا نے بطور مہمان خصوصی اور اے ایم یو کے پرو وائس چانسلر پروفیسر اختر حسیب نے بطور مہمان اعزازی شرکت کی۔ مولانا آزاد یونیورسٹی، جودھپور کے صدر پروفیسر اختر الواسع بطور مہمان خاص موجود رہے، جب کہ وشو بھارتی یونیورسٹی، شانتی نکیتن ، مغربی بنگال کے شعبۂ فلسفہ کے پروفیسر محمد سراج الاسلام نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔پروفیسر آر سی سنہا نے اپنے خطاب میں اے ایم یواور یہاں کے اساتذہ کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرتے ہوئے پہلی بار شعبہ¿ فلسفہ میں آمد کی خوشگوار یادوں کو تازہ کیا۔ انھوں نے کہاکہ صوفی ازم کا تعلق انسانیت کی خدمت سے ہے اور صوفی ، مذہب و نسل اور
عقیدہ میں تفریق کئے بغیر پوری انسانیت کو ایک کنبہ سمجھتا ہے اور دبے کچلے لوگوں کا خدمت گار ہوتا ہے۔ ہندوستانی فلسفۂٔ ویدانت کاذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ مغربی دنیا میں ویدانت کو سب سے نمایاں ہندوستانی فلسفہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ شنکراچاریہ کے بعد کیا ہندوستانی فلسفہ مرچکا ہے؟ ۔ پروفیسر سنہا نے کہاکہ ویدانت کے فلسفہ نے ایک نظام کی تشکیل پر زور دیا ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ دیگر ہندوستانی مفکرین کو مغربی دنیا میں فلسفی نہیں مانا جاتا۔ انھوں نے کہاکہ فلسفہ کی تعریف کو تبدیل کئے جانے کی ضرورت ہے اور صوفی ازم اور ویدانت کا تقابل بھی کیا جانا چاہئے۔ پروفیسر اختر حسیب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ روحانی بصیرت سے صوفی کا جنم ہوتا ہے جو باہمی رواداری کا نقیب ہوتا ہے ۔ تقویٰ، توکل اور اخلاص کو صوفی کی بنیادی صفات قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سیمینار کا موضوع موجودہ وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے تاکہ سماج میں انسانیت و محبت عام ہو۔ انھوں نے کہا کہ سبھی مذاہب میں انسانیت کی خدمت کی بات کہی گئی ہے ، ضرورت اس کی ہے کہ تصوف کو اپنا طریقِ زندگی بنایا جائے ، جس میں کسی دوسرے انسان سے تفریق و امتیاز نہیں برتا جاتا اور سبھی کی خدمت کو اپنے سامنے رکھا جاتا ہے۔ پروفیسر اختر حسیب نے مذہبی جھگڑے کو بدپرہیزی قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ دو روزہ سیمینار سے بقائے باہم ، امن و بھائی چارہ اور ہم آہنگی کی راہیں ہموار ہوں گی۔
پروفیسر اختر الواسع نے اپنے خطاب میں کہاکہ قلت کلام، قلت طعام اور قلت منام صوفی کی صفات میں شامل ہیں۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے ایثار، اطاعت، صبر، صوف، قناعت ، غربت اور فقر کو صوفی کی خصلتوں میں شمار کیا ہے۔ مشہور صوفی بزرگ غو ث علی شاہ قلندر کا تذکرہ کرتے ہوئے پروفیسر اخترالواسع نے کہاکہ انھیں ایک برہمن خاتون نے دودھ پلایا تھا کیونکہ پیدائش کے وقت ان کی ماں کا انتقال ہوگیا تھا۔ غوث علی شاہ قلندر نے اس برہمن خاتون کے شوہر کی آخری رسومات بھی ادا کی تھیں۔ انھوں نے کہاکہ لوگوں کی خدمت ہی خدا تک پہنچنے کا راستہ ہے اور یہی پیغام صوفیاءنے اپنے قول و فعل سے دیا۔ آپسی یگانگت پر زور دیتے ہوئے پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ اس ملک کو نعرے لگانے والے نہیں بلکہ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ملک کے باشندوں کے لئے سیوا اور سمرپن کا ذریعہ بنیں۔ انھوں نے خواجہ معین الدین چشتی، حضرت جنید بغدادی ، بہاءالدین زکریا ملتانی اور دیگر صوفیاءکی زندگیوں سے بھی اس کی مثالیں بیان کیں۔ پروفیسر محمد سراج الاسلام نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ تکثیریت ہندوستان کے خمیر کا حصہ ہے اور تصوف دلوں کو جیتنے کا نام ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور اور دیگر دانشوروں کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہندوستان، انڈیا اور بھارت یہ تین نام ہندوستان میں مختلف سطحوں پر پائی جانے والی تکثیریت کی علامت ہیں۔ پروفیسر اسلام نے کہا کہ تصوف کو اپنا کر بھائی چارہ کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل شعبہ¿ فلسفہ کے چیئرمین پروفیسر لطیف حسین شاہ کاظمی نے خطبہ¿ استقبالیہ پیش کیا اور شعبہ کا تعارف کرایا۔ انھوں نے سیمینار کے مقاصد و اہداف پر بھی روشنی ڈالی۔ پروفیسر کاظمی نے کہاکہ اے ایم یو کے شعبہ¿ فلسفہ سے علامہ شبلی نعمانی، تھامس آرنلڈ، علامہ اقبال اور دیگر عظیم شخصیات جڑی رہی ہیں۔ پروفیسر کاظمی نے کہاکہ غیر فعال ہونے کی وجہ سے تصوف کو بہت سے دانشوروں نے خارج کیا ہے، کیونکہ اس نے عملی و فکری جمود پیدا کیا، جب کہ متحرک تصوف ، امن و خیرسگالی کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے اور یہ پوری انسانیت کے لئے محبت و بھائی چارہ کی تلقین کرتا ہے۔ انھوں نے خواجہ معین الدین چشتی، شیخ علی ہویجری، امیر خسرو، خواجہ نظام الدین، شاہ ہمدانی، بہاءالدین زکریا، شرف الدین یحیٰ منیری، بختیار کعکی، شیخ نور الدین، شاہ ولی اللہ، علامہ اقبال اور دیگر صوفیاءو مفکرین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان سبھی نے اپنے عمل و قول سے ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کو مالامال کیا۔ انھوں نے ایک صوفی بزرگ کے حوالہ سے کہاکہ صوفی وہ ہے جس کی سخاوت دریا کی سی ہے، اس کی مہربانیاں سورج کی طرح ہیں اور اس کی انکساری زمین کی طرح ہے۔پروفیسر کاظمی نے اس موقع پر اسلامی فلسفہ پر ایک پیپر کو سبھی یونیورسٹیوں میں شامل کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہاکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ملک کی واحد یونیورسٹی ہے جہاں پر ہندوستانی، اسلامی اور مغربی تینوں فلسفوں کی تعلیم دی جاتی ہے نے شعبہ فلسفہ میں سنٹر آف صوفی ازم اینڈ اسلامک فلاسفی کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔اس سلسلہ میں پرو وائس چانسلر پروفیسر اختر حسیب نے پروفیسر کاظمی سے ایک کانسیپٹ نوٹ تیار کرنے اور بورڈ آف اسٹڈیز اور فیکلٹی سے منظور کراکے اکیڈمک کونسل میں بھیجنے کا مشورہ دیا۔ انھوں نے اس میں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ ڈین، فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر مسعود انور علوی نے بھی اظہار خیال کیا۔ آخر میں سیمینار کے آرگنائزنگ سکریٹری ڈاکٹر عبدالشکیل نے اظہار تشکر کیا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شارق عقیل نے انجام دئے۔ اس موقع پر شعبہ کے اساتذہ، ریسرچ اسکالرس اور طلبہ و طالبات کثیر تعداد میں موجود تھے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں