شکیل احمد اعظمی
ابن الہیثم اسلامک اسکول، منامہ بحرین
بابری مسجد کے بارے میں جو فیصلہ آیا ہے وہ جیسا کچھ بھی ہے اسے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔میرا خیال ہے کہ ہماری ملی تنظیموں نے اور بحیثیت مجموعی پوری ملت نے آئینی اور قانونی لڑائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور مسجد سے ازخود دستبرداری اور فریق مخالف کو مندر بنانے کے لئے زمین بطور تحفہ دینے پر کبھی رضامند نہیں ہوئے ۔ مسجد کسی مسلمان کی ذاتی جاگیر نہیں ہوتی کہ وہ اسے کسی کے حوالے کرے پوری ملت بھی اس کا اختیار نہیں رکھتی ۔ قانونی لڑائی لڑنے کے بعد آج سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں مسجد چھن جانے سے ہمیں غم ہوا ہے اور بہت ہوا ہے مگر اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانان ہند کی عزت بچا لی اور ذلت و رسوائی سے نجات دی کہ اگر مسلمانوں نے مسجد کا سودا کیا ہوتا اور اپنے ہاتھوں سے اسے غیروں کو سونپ دیتے تو یہ رسوائی تا قیامت تاریخ میں لکھ دی جاتی ۔ کورٹ نے کہیں پانچ ایکڑ زمین مسلمانوں کو دینے کی بات کہی ہے تو میری رائے ہے کہ مسلمان اسے قطعا قبول نہ کریں یہ ایک طرح کی سودے بازی ہوگی ۔ مسجد بنانے کے لئے مسلمان نہ کبھی حکومت کا محتاج رہا ہے نہ ہوگا ۔ آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ بہت سے امور اپنی پہلی ظاہری شکل میں غلط اور نقصان دہ نظر آتے ہیں مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد نظر آتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے لئے اس میں بڑا خیر کثیر رکھا ہے ۔ان شاء اللہ یہ معاملہ بھی ایسا ہی ہوگا عسى أن تكرهوا شيئا وهو خير لكم ۔ ہم مسلمانوں کو اب خیر امت اور امت وسط بن کر کھڑے ہو جانا چاہئے اور اس ملک میں دین حنیف کی دعوت و تبلیغ کے لئے تن من دھن سے لگ جائیں ان شاء اللہ اللہ تعالی یہاں بھی وہی منظر دکھائے گا جو یورپ میں نظر آتے ہیں کہ سینکڑوں کلیسا مسجد میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ہوتے جا رہے ہیں ۔کیا بعید کہ ایک بابری مسجد کی دسیوں بیسیوں نہیں بابری مسجدیں تعمیر ہو جائیں ۔میرا ماننا ہے کہ نمازی کی تعمیر مسجد سے مقدم ہے ہمیں نمازی تیار کرنے ہیں اور نمازی تیار ہو گئے تو خدا کی زمین سجدوں کے لئے تنگ نہ ہوگی ۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں