آئیے آپ کو حج پر لے چلیں

0
593
All kind of website designing

محمد یاسین جہازی 

مدینہ میں دن بدن اسلام کی شان و شوکت جس قدر بڑھتی جارہی تھی، اس سے بھی تیز  کفار قریش کی آتش غیض و غضب بھڑکتی جارہی تھی۔ اس حالت سے مجبور ہوکر بالآخر انھوں نے دارالندوہ میں ایک اجلاس عام کیا ، اور تمام قبیلوں کے سرداروں نے اپنا ملی ، قومی اور مذہبی فریضہ سمجھ کر اس میں شرکت کی۔ لوگوں نے مختلف تجویزیں پیش کیں۔ ایک نے کہا کہ محمد ﷺ کے ہاتھ پاؤں میں زنجیریں ڈال کر مکان میں بند کردیا جائے۔ دوسرے نے کہا کہ جلاوطن کردینا کافی ہے۔ بالآخر ابوجھل نے ایک فیصلہ کن تجویز پیش کی کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک شخص کا انتخاب کیا جائے اور پورا مجمع مل کر ایک ساتھ محمد عربی ﷺ پر تلواروں کی بارش کردے۔  اس اخیر رائے پر اتفاق ہوگیا اور سر شام ہی آستانہ نبوی کا محاصرہ کرلیا، اور نبی اکرم ﷺ کا گھر سے نکلنے کا انتظار کرنے لگے۔

نبی پاک ﷺ کو اس ناپاک ارادے کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی، اس لیے آپ ﷺ نے حضرت علی کو بلاکر فرمایا کہ مجھ کو ہجرت کا حکم ہوچکا ہے ، میں آج مدینہ کے لیے روانہ ہوجاوں گا، تم میرے پلنگ پر میری چادر اوڑھ کو سوجانااور صبح کو سب کی امانتیں واپس کردینا۔

کفار نے جب آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور رات زیادہ گذرگئی  تو قدرت نے ان کو آپ ﷺ سے بے خبر کردیا اور سرور کائنات ﷺ ان کو سوتا چھوڑ کر گھر سے باہر نکل آئے اور سب سے پہلےکعبہ   تشریف لائے ،حجراسود کو چوما اور  مسجد حرام کے بیچ صحن میں کھڑے ہوکرکعبہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ائے کعبہ!  اللہ کی قسم! تو اللہ کے نزدیک تمام جہاں سے پیاراا وربہتر گھر ہے اور یہ شہر بھی اللہ کے نزدیک احب البلاد ہے۔ اگر کفار قریش مجھ کو ہجرت پر مجبور نہ کرتے تو میں تیری جدائی ہرگز اختیار نہ کرتا۔ ( ترمذی)

  ذرا عالم تصور میں جاکر دیکھیے کہ قدم قدم پر جان کا خطرہ ہے، چاروں طرف دشمن کا محلہ بسا ہوا ہے، جو آپ کے خون کے پیاسے ہیں، وہ صرف اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ بس آپ ﷺ نظر آجائیں، تو ہماری شمشیر براں ان کے جسم و جاں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں؛ ان تمام خطرات کے باوجود نبی اکرم ﷺ مسجد حرام پہنچتے ہیں ، خانہ کعبہ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور دل کا درد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر میری قوم مجھے نہیں نکالتی، تو میں یہ شہر چھوڑ کر کہیں نہیں جاتا۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم کی نگاہ میں کعبہ کی زیارت اور وہاں پہنچنے کی کیا اہمیت ہے۔ اس لیے ہر عاشقان محمد ﷺ کا جذبہ عشق یہ مطالبہ کرتا ہے کہ نبی کے اس محبوب دیار کے دیدار کے لیے ہمہ وقت بے چین و مضطرب رہنا چاہیے اور جب تک بیت اللہ نہ پہنچ جائے ، اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ کبھی عمرہ کے بہانے سے اور کبھی حج کے بہانے سے خانہ کعبہ کے دیدار کے لیے جانا ایک اچھے مومن کی شان ہے۔اور یہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ مسلمان چاہے دنیا میں کہیں بھی رہے، لیکن زندگی میں خانہ کعبہ کا کم از کم ایک مرتبہ جانا ، اس کی بڑی سعادت اور دعوت الٰہی کا مظہر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں لوگ حاجیوں کو قدرو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے لیے بھی حاضری کی دعا کرتے ہیں۔

مسلم سماج کی اس سچائی کے ساتھ ساتھ ایک اور سچائی یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ حج کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی اس کے لیے کچھ خاص کوشش کرتے ہیں جن کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں:

  1. ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ ہمارے اوپر حج فرض ہوگیا ہے، کیوں کہ ہم اپنے بارے میں یہی سمجھتے رہتے  ہیں کہ ہم غریب ہیں، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یاد رکھیں کہ آج کے وقت میں اگر ہمارے پاس تقریبا تین لاکھ روپیے ہیں، خواہ وہ ضرورت سے زائد ، مکان کی شکل میں ہو، جائداد کی شکل میں  ہو ، تجارت کی شکل میں ہو ، یا سیونگ کی شکل میں ہو، آپ پر حج فرض ہے۔
  2. ہمارے پاس تین لاکھ سے زائد جائداد یا سیونگ ہوتی ہے، لیکن ایک لمبے اور موہوم خواب کے پیش نظر سیونگ پر سیونگ کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہم اپنی بچیوں کی شادی، تعلیم اور کیریر کے نام پر لاکھوں روپیے جمع کیے رہتے ہیں،  یا پھر گھر رہتے ہوئے بڑے مکانات اور گاڑی رہنے کے باوجود بڑی گاڑیوں کو خریدنے کے نام پر ڈپوزٹ کرتے رہتے ہیں،  حالاں کہ اس خرچ کا موقع کئی سال کے بعد آتا ہے۔ ایسی رقم اور جائداد کے رہتے ہوئے  بھی ہم خود کو غریب سمجھتے ہیں اور حج ادا نہیں کرتے۔
  3. ہم حج کو واجبی فریضہ نہیں سمجھتے ، جس کی ادائیگی کی نیت کرنے کے باوجود صرف سستی کی وجہ سے اس کے لیے کوشش نہیں کرتے۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ صرف نیت ہی رہ جاتی ہے اور عمل کا موقع نہیں ملتا۔
  4. بسا اوقات ہماری کاروباری مصروفیات اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ ہم کاروبار کے لیے ہر ممکن وقت تو نکال لیتے ہیں، لیکن حج کوہر سال  اگلے سال کے لیے ٹالتے رہتے ہیں۔ سیرو تفریح کودل کرتا ہے ، تو اس کے لیے سعودی سے دور لندن پیرس بھی پہنچنے کے لیے فرصت مل جاتی ہے؛ لیکن حج کا نام سنتے ہی مصروفیت کا بھوت سوار ہوجاتا ہے۔ 

جو لوگ فرضیت کے باوجود حج نہیں کرتے ، ان کے بارے میں نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ

من ملک زاداً وراحلۃ تبلغہ الی بیت اللہ ولم یحج فلا علیہ ان یموت یہودیاً اونصرانیا۔( ترمذی، باب ماجاءمن التعلیظ فی ترک الحج)

 جس شخص کے پاس سفربیت اللہ کے لیے روپیہ میسر ہو ( اور وہ تندرست بھی ہو ) پھربھی  وہ حج نہ کرے  تو اس کو اختیار ہے کہ  یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ یہ بڑی سے بڑی وعید ہے جو ایک سچے  مسلمان کے لیے ہوسکتی ہے۔ پس جو لوگ باوجود استطاعت کے مکہ شریف کا رخ نہیں کرتے ، ایسے لوگوں کو اپنے ایمان واسلام کی خیر مانگنی چاہیے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ممالک محروسہ میں یہ اعلان کرادیا تھا کہ

لقد ہممت ان ابعث رجالا الی ہذہ الامصار فینظروا کل من کان لہ جدۃ ولا یحج فیضربوا علیہم الجزیۃ ماہم بمسلمین ماہم بمسلمین ( نیل الاوطار ج 4 ص 165 )

میری ولی خواہش ہے کہ میں کچھ آدمیوں کو شہروں اور دیہاتوں میں تفتیش کے لیے روانہ کروں جو ان لوگوں کی فہرست تیار کریں جو استطاعت کے باوجود اجتماع حج میں شرکت نہیں کرتے، ان پر کفار کی طرح جزیہ مقرر کردیں۔ کیوں کہ ان کا دعویٰ اسلام فضول وبیکار ہے وہ مسلمان نہیں ہیں۔

حج کمیٹی آف انڈیا نے 2020 میں حج کے لیے فارم بھرنے کا عمل شروع کردیا ہے ۔ جو یکم اکتوبر سے جاری ہے اور 10 نومبر 2019 تک جاری رہے گا۔ امسال  صرف آن لائن درخواستیں ہی قبول کی جائیں گی ، آف لائن فارم بھرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے ۔ درخواست دہندگان کے پاس مشین سے پڑھنے لائق بھارتی بین الاقوامی پاسپورٹ ہونا ضروری ہے ، اس کے بغیر آپ حج پر نہیں جاسکتے۔

آن لائن حج کا فارم بھرنے کے لیے یہاں لنک پیش کیا جارہا ہے، آپ اس پر کلک کرکے ڈائریکٹ ویب سائٹ پر پہنچ سکتے ہیں ، یا پھر اپنے موبائل میں HCOI  نام کا ایپ لوڈ کرکے بھی فارم بھر سکتے ہیں۔  دونوں طریقے بالکل آسان ہیں۔سوشل میڈیا پر آئی ڈی بنانے کی طرح یہاں بھی ایک آئی ڈی بناکر اپنا فارم بھر سکتے ہیں ،  اس کے باوجود اگر کوئی دشواری پیش آتی ہے، تو ناچیز کا تعاون حاصل کرسکتے ہیں ۔

لنک یہ ہے

http://103.71.18.116/webapp/web18/

حج کی اہمیت ، فضیلت اور فرضیت کے پیش نظر آئیے ہم پنا خود کا جائزہ لیں اور علمائے کرام سے معلومات حاصل کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا ہم پر حج فرض تو نہیں ہوگیا ہے۔ اگر جواب ہاں میں آتا ہے ، تو 10 نومبر 2019 تک حج کے لیے درخواست دے کر حج کی تیاری کردینا چاہیے، یہی ہمارے نبی کی تعلیمات اور ہمارا اسلامی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے مقدس گھر کی زیارت نصیب فرمائے، آمین۔  

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here