محمد یاسین قاسمی جہازی گڈاوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمعیۃ علماء ہند
انسانوں میں حج و عمرہ کا تصور بہت قدیم ہے، تاریخ کی شہادت کے مطابق اس کی شروعات حضرت آدم علیہ السلام نے کی ہے۔ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ہندستان سے پیدل چالیس حج کیے تھے۔ اقناع میں ہے کہ سبھی انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے حج کیے ہیں۔ عثمان ابن ساج کہتے ہیں کہ مجھے سعید نے بتایا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ستر پیدل حج کیے ہیں ۔
وماقالہ ابن الجوزی اخرجہ الحاکم عن الثوری۔ و اول من حج آدم علیہ السلام۔ حج من الھند ماشیا اربعین سنۃ۔ و قیل ما من نبی الا حج، کذا فی الاقناع، و فی القریٰ لقاصد ام القریٰ، عن عثمان بن ساج قال: آخبرنی سعید ان آدم علیہ السلام حج علیٰ رجلیہ سبعین حجۃ ماشیا۔ الیٰ آخر الحدیث۔ خرجہ الازرقی۔ (حجۃ الوداع وجزء عمرات النبی ﷺ، ص۲۴)
لیکن حضرت آدم علیہ السلام کے حج کا کیا طریقہ تھا، اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ البتہ حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام نے تعمیر بیت اللہ کے بعد جو حج فرمایا تھا، وہی حج سابقہ امتوں میں جاری و ساری تھا۔چنانچہ کلام پاک میں ارشاد ہے کہ
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یأْتِینَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ (27)لِّیشْھَدُوا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فِي أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلیٰ مَا رَزَقَھُم مِّن بَھِیمۃِ الْأَنْعَامِ ، فَکُلُوا مِنْھَا وَأَطْعِمُوا الْبَاءِسَ الْفَقِیرَ (28) ثُمَّ لْیَقْضُوا تَفَثَھُمْ وَلْیُوفُوا نُذُورَھُمْ وَلْیطَّوَّفُوا بِالْبَیتِ الْعَتِیقِ (الحج)
اور لوگوں میں حج کا اعلان کرو، کہ وہ تمھارے پاس پیدل آئیں، اور دور دراز سے راستوں سے سفر کرنے والی اونٹنیوں پر سوار ہوکر آئیں جو (لمبے سفر سے) دبلی ہوگئی ہوں۔ تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا کیے ہیں، چنانچہ (مسلمانو) ان جانوروں میں سے خود بھی کھاو اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاو۔پھر (حج کرنے والے ) لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنا میل کچیل دور کریں ، اور اپنی منتیں پوری کریں اور اس بیت عتیق کا طواف کریں۔(آسان ترجمہ قرآن)
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حج و عمرہ کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا ، وہ قبل از اسلام بھی جاری رہا اور بعد از اسلام بھی جاری ہے۔ زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی حج و عمرہ کیا کرتے تھے اور یہ ان کے دین کے بنیادی فریضے میں شامل تھے۔ اور حج کا صحیح طریقہ وہی سمجھا جاتا تھا، جو ابراہیمی طریقہ تھا۔لیکن انھوں نے حج و عمرہ کے ابراہیمی طریقے میں کچھ بدعتیں شامل کر دیتی تھیں۔ اسلام نے ان تمام بدعتوں کا خاتمہ کردیا اور ابراہیمی طریقے کو دوبارہ بحال کیا۔ ذیل کی سطروں میں ہم انھیں بدعتوں اور اسلامی اصلاحات کا جائزہ لیں گے۔
بدعت نمبر ۱۔ وقوف عرفہ سے پرہیز
قبیلہ عرب کے قریش خانہ کعبہ کے متولی تھے اوراس تولیت کی بدولت اپنے آپ اور اپنے خاندان کو اعلیٰ خاندان سمجھتے تھے، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنے لیے یہ عقیدہ بنالیا تھا کہ قریش حدود حرم سے باہر نہیں جاسکتا ۔ میدان عرفہ چوں کہ حدود حرم سے باہر ہے، لہذا وہ عرفہ کا وقوف نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کے بجائے وہ مزدلفہ میں قیام کرتے تھے ۔ بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ عرفہ کے دن حضرت جبیر ابن مطعم رضی اللہ عنہ کا اونٹ گم ہوگیا ، وہ اسے ڈھونڈھنے کے لیے عرفہ گئے۔ وہاں انھوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ، تو تعجب ہوا کہ یہ قریشی شخص عرفہ کے دن یہاں کیوں ہے، ان کا بیان ہے کہ
عَنْ أَبِیہ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: أَضْلَلْتُ بَعِیرًا لِي، فَذَھَبْتُ أَطْلُبہ یَوْمَ عَرَفَۃَ، فَرَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا بِعَرَفۃَ، فَقُلْتُ: ھَذَا وَاللہِ مِنَ الحُمْسِ فَمَا شَأْنُہُ ھَا ھُنَا ( صحیح بخاری، کتاب الحج، باب الوقوف بعرفۃ)
’’میرا اونٹ کھو گیا۔ عرفہ کے دن میں اُسے تلاش کرتا ہوا گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں کھڑے ہیں۔ میں نے خیال کیاکہ بخدا یہ تو قریش میں سے ہیں، پھر یہ یہاں کیا کررہے ہیں؟‘‘
اس بدعت کی اصلاح کرتے ہوئے قرآن کریم نے اعلان کیا کہ
ثُمَّ أَفِیضُوا مِنْ حَیثُ أَفَاضَ النَّاسُ ( البقرۃ، آیۃ نمبر 199، پارہ ایک)
اس کے علاوہ (یہ بات بھی یاد رکھو کہ ) تم اسی جگہ سے روانہ ہو جہاں سے عام لوگ روانہ ہوتے ہیں۔
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ میدان عرفات سے دور کھڑے تھے ۔ آپ نے ان لوگوں کو اطلاع بھجوائی کہ تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی وراثت پر ہو، لہذا حج طریق ابراہیمی کے مطابق کرو۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ خَالٍ لہَُ یُقَالُ لہُ یَزِیدُ بْنُ شَیْبَانَ قَالَ: کُنَّا فِي مَوْقِفٍ لَنَا بِعَرَفۃَ یُبَاعِدُہُ عَمْرٌو مِنْ مَوْقِفِ الْإِمَامِ جِدًّا فَأَتَانَا ابْنُ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ: إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیْکُمْ یَقُولُ لَکُمْ: 171قِفُوا عَلَی مَشَاعِرکُمْ فَإِنَّکُمْ عَلَی إِرْثِ من إِرْثِ أَبِیکُمْ إِبْرَاھِیمَ عَلَیہِ السَّلَامُ187 . رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ مَاجۃْ (مشکاۃ المصابیح، باب الوقوف بعرفۃ)
حضرت یزید بن شیبان کہتے ہیں کہ ہم عرفہ میں اپنے موقف پر تھے ، عمرو اسے امام کے موقف سے کافی دور کر رہے تھے کہ ابن مربع انصاری ہمارے پاس آکر بولے کہ میں رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں ، انھوں نے آپ حضرات کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ اپنے مشاعر پر قیام کرو، کیوں کہ تم اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وراثت پر ہو۔
بدعت نمبر ۲۔صفا و مروہ کے طواف سے کنارہ کشی
انصاری حضرات مکہ و مدینہ کے بیچ میں واقع قدید نامی جگہ پر نصب منات بت کے لیے احرام باندھتے تھے۔ اور صفا و مروہ کی سعی کرنے میں دلی تنگی محسوس کرتے تھے ، کیوں کہ صفا پر اساف اور مروہ پر نائلہ نامی دو بت رکھے ہوئے تھے، یہ دونوں بت کفار کے تھے، اس لیے انصاریوں کو ان کا طواف ناگوار گزرتا تھا ۔ اسلام نے اس رسم کی اصلاح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ صفا و مروہ دونوں جگہیں اللہ کے شعائر ہیں اور ان کی تعظیم ضروری ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے کہ
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاءِرِ اللہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَطَّوَّفَ بِھِمَا ( البقرۃ، آیۃ 158، پارہ 2)
صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، لہذا جو شخص بھی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس کے لیے اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ ان کے درمیان چکر لگائے۔
حدیث شریف میں ہے کہ
عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَاءِشَۃ، قَالَ: قُلْتُ أَرَأَیْتِ قَوْلَ اللہِ تَعَالَی. إِنَّ الصَّفا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعاءِرِ اللَّہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَیہِ أَنْ یَطَّوَّفَ بِھِما؟ قلت: فو اللہ مَا عَلی أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لَا یطَّوَّفَ بِھِمَا، فَقَالَتْ عَاءِشَۃُ: بِءْسَمَا قُلْتَ یَا ابْنَ أُخْتِي إِنَّھا لَوْ کَانَتْ عَلیَ مَا أَوَّلْتَھَا علیہ کانت فلا جناح أن علیہ لا یَطَّوَفَ بِھِمَا، وَلَکِنَّھَا إِنَّمَا أُنْزِلَتْ أَنَّ الْأَنْصَارَ کَانُوا قَبْلَ أَنْ یُسْلِمُوا کَانُوا یُھِلُّونَ لِمَنَاۃَ الطَّاغِیَۃِ التِي کَانُوا یَعْبُدُونَھَا عِنْدَ الْمُشَلَّلِ، وَکَانَ مَنْ أھَلَّ لھَا یَتَحَرَّجُ أَنْ یَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، فَسَأَلُوا عَنْ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیہِْ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّا کُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ فِي الْجَاھِلِیَّۃِ. فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الصَّفا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعاءِرِ اللَّہِ، فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَیْہِ أَنْ یَطَّوَّفَ بِھِما قَالَتْ عَاءِشَۃُ: ثُمَّ قَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّہِ صَلّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بِھِمَا فَلَیْسَ لِأَحَدٍ أَنْ یَدَعَ الطَّوَافَ بِھِمَا أَخْرَجَاہُ فِي الصَّحِیحَیْنِ. (التفسیر لابن کثیر،سورۃ البقرۃ آیۃ58)
حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ اس آیت کے بارے میں آپ کیا فرماتی ہیں؟ خدا کی قسم ان دونوں کا طواف کرنا کسی کے لیے گناہ نہیں ہے۔ تو حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ ائے میرے بن بیٹے ! تم نے بہت غلط تاویل کی۔ اگر وہی بات صحیح ہوتی، جو تم نے کہا تو آیت اس طرح ہوتی۔۔۔ ۔ در اصل یہ آیت انصاریوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اسلام کے قبل منات کے لیے احرام باندھا کرتے تھے اور مشلل پر اس کی پوجا کیا کرتے تھے۔اور جو مناۃ کے لیے احرام باندھتے تھے، انھیں صفا و مروہ کی سعی کرنے میں دلی تنگی محسوس ہوا کرتی تھی۔ اسلام لانے کے بعد جب انھوں نے اس تعلق سے سوال پوچھا تواس کا جواب اس آیت کی شکل میں آیا۔
بدعت نمبر ۳۔ دروازے کے بجائے کھڑکی سے آمدو رفت
جاہلی عقیدے میں یہ بھی شامل تھا کہ جب حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیا جائے ، تو دروازے کے بجائے کھڑکی سے داخل ہونا ایک کار ثواب ہے۔ چنانچہ اگر احرام باندھنے کے بعد کوئی ضرورت پڑجاتی تھی ، توگھر میں داخل ہونے کے لیے کھڑکی سے داخل ہوتے تھے ۔ اگر کسی کے گھر میں کھڑکی نہیں ہوتی تھی ، تو چھپر پھاڑ کر یا دیوار میں نقب لگاکر گھر میں آتے تھے ۔ اور اس میں جو تنگیاں اور پریشانیاں ہیں، وہ ظاہر ہیں اور اسلام آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ایک دوسری روایت کے مطابق ایسا عموما حج سے واپسی کے بعد کیا جاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جن دروازوں سے گناہوں کا بوجھ لے کر نکلے ہیں ، حج کے بعد پاک صاف ہوکر ان دروازوں سے کیسے آمدو رفت کی جاسکتی ہے۔ اس غیر ضروری طریقے کی اصلاح کرتے ہوئے ارشاد ہوا کہ
ولیس البر بان تاتوا البیوت من ظھورھا( سورۃ البقرۃ، آیۃ: ۱۸۹، پارہ ۲)
اور یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے داخل ہو۔
بدعت نمبر ۴۔ سفر حج میں تجارت کو ناجائز سمجھنا۔
زمانہ جاہلیت کا ایک تصور یہ تھا کہ حج کا سفر خالص عبادت کا سفر ہے اور عبادت میں تجارت ناجائز ہے ، اس لیے وہ دیگر ناجائز کاموں تو روا رکھتے تھے مگر تجارت کرنا حرام سمجھتے تھے۔ اس کی اصلاح کرتے ہوئے ہدایت دی گئی کہ
لیس جناح علیکم اب تبتغوا فضلا من ربکم (سورۃ البقرۃ، آیۃ: 198)
تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم (حج کے دوران تجارت یا مزدوری کے ذریعے) اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو۔
بدعت نمبر ۵ ۔ اخراجات سفر کے بغیر مانگتے ہوئے حج پر جانا۔
کچھ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ جب ہم اللہ کے راستے میں نکل گئے ہیں، تو ہمارا حامی و ناصر اور محافظ اللہ ہے، لہذا توکل کا تقاضا ہے کہ ہم پھر کسی اور چیز پر بھروسہ نہ کریں، چنانچہ ان کے پاس اگر زاد راہ ہوتا ، تو اسے پھینک دیتے ، یا پھر توشہ سفر لیتے ہی نہیں تھے اور مانگتے ہوئے حج پر نکلتے تھے ۔اور یہ ان کے یہاں تقویٰ کا اعلیٰ معیار سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے ان کے اس عقیدے پر نکیر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ توشہ سفر لے کر نکلنا ہی اصل تقویٰ ہے۔
و تزودوا فان خیر الزاد التقویٰ (البقرۃ، آیۃ: 197)
اور ( حج کے سفر میں) زاد راہ ساتھ لے جایا کرو، کیوں کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔
بدعت نمبر ۶ ۔ ذکر الہی کے بجائے خاندانی قصیدے خوانی اور مشاعرے۔
مناسک حج کی تکمیل کے بعد منیٰ کے قیام کی گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں تاریخ کو بڑے بڑے مشاعرے کیا کرتے تھے ۔جس میں وہ اپنے آبا و اجداد کے کارنامے فخریہ طور پر بیان کرتے تھے۔کوئی کہتا تھا کہ میرا خاندان سخاوت میں اپنی ثانی نہیں رکھتا ۔ کسی کا دعویٰ ہوتا کہ بہادری اس کے قبیلے کی لونڈی ہے۔ اس میں ہر شخص کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ اس کے خاندان کے فضائل و کمالات دوسرے خاندان و قبیلے سے اعلیٰ و ارفع ثابت ہوجائے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ مبالغہ آمیزی اور دروغ گوئی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کبھی کبھی یہ خاندانی تفاخر لمبی لمبی جنگوں کا سبب بھی بن جایا کرتا تھا، اس لیے اسلام نے اس رسم کی اصلاح کرتے ہوئے انھیں ہدایت دی کہ یہاں اپنے باپ داداوں کے نام لینے کے بجائے خدائے بزرگ و برتر کی تسبیح و تقدیس بیان کرو اور اسی کے حمد کے ترانے گاؤ۔
فَإِذَا قَضَیْتُم مَّنَاسکَکُمْ فَاذکُرُوا اللَّہَ کَذِکْرکُمْ آبَاءَکُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِکْرًا (سورۃ البقرۃ، آیۃ: 200، پارہ 2)
پھر جب تم اپنے حج کے کام پورے کرچکو تو اللہ کا اس طرح ذکرو کروجیسے تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے ہو ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ذکر کرو۔
بدعت نمبر ۷۔ مشرکین کے لیے حج کی ممانعت
وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لاَّ تُشْرِکْ بِیْ شَیْءًا، وَّطَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآءِفِیْنَ وَالْقَآءِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ.(الحج، آیۃ: 26)
اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اس گھر (یعنی خانہ کعبہ) کی جگہ بتا دی تھی۔ (اور یہ ہدایت دی تھی کہ ) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اور میرے ساگھر کو ان لوگوں کے لیے پاک رکھنا جو (یہاں) طواف کریں، اور عبادت کے لیے کھڑے ہوں، اور رکوع سجدے بجالائیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی، تو اسی وقت رب کائنات نے یہ حکم دیا تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ اوریہ گھر پاک صاف رہنا چاہیے، لیکن لوگوں نے اس مرکز ہدایت کو بھی شرک و کفر کی غلاظت سے بھردیاتھا ۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے پہلے اسے بتوں کی گندگی سے پاک فرمایا۔ پھر سن ۹ ہجری میں یہ اعلان عام کرادیا گیا کہ
یا أَیھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرکُونَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامھِمْ ھَٰذَا (سورۃ : التوبۃ، آیۃ: 28)
ائے ایمان والو! مشرک لوگ تو سراپا ناپاکی ہیں، لہذا وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔
أَنَّ أَبَا ھُرَیْرَۃَ، قَالَ: بَعَثَنِي أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ فِي تِلکَ الحَجَّۃِ فِي المُؤَذِّنِینَ، بَعَثَھُمْ یَوْمَ النَّحْرِیُؤَذِّنُونَ بِمِنًی، أَنْ لاَ یحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِکٌ وَلاَ یَطُوفَ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، قَالَ حُمَیْدٌ: ثُمَّ 171أَرْدَفَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ بِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَأَمَرَہُ أَنْ یُؤَذِّنَ بِبَرَاءۃَ، قَالَ أَبُو ھُرَیْرَۃَ: فَأَذَّنَ مَعَنَا عَلِيٌّ فِي أَھْلِ مِنًی یَوْمَ النَّحْرِ بِبَرَاءَۃَ، 171وَأَنْ لاَ یَحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِکٌ وَلاَ یَطُوفَ بِالْبَیتِ عُرْیَانٌ( صحیح بخاری، کتاب تفیسر القرآن، باب و آذان من اللہ و رسولہ)
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حج میں( جس میں امیر حج تھے) اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا کہ ہم منی میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کوئی شخص خانہ کعبہ کا ننگا ہوکر طواف نہ کرے۔ حضرت حمید فرماتے ہیں کہ پھر نبی اکرم ﷺ نے بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ وہ برائت کا اعلان کریں۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ منی میں براء ۃ کا اعلان کیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ آگے سال سے کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ کوئی شخص ننگا طواف کرے گا۔
چنانچہ سن ۱۰ ہجری سے تا حال کسی بھی مشرک کے لیے حج کرنے پر مکمل پابندی ہے۔
بدعت نمبر ۸۔قربانی کا گوشت خود نہ کھانا
بعض کافروں کا یہ عقیدہ تھا کہ حج کے موقع پر جو ہم قربانی کرتے ہیں، اس کا گوشت صرف فقرا اور محتاجوں کو ہی کھانا جائز ہے، خود کے لیے اس کا استعمال کرنا صحیح نہیں ہے، اس تعلق سے اصلاح کرتے ہوئے قرآن نے بتایا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھاو اور مصیبت زدہ محتاجوں کو بھی کھلاو۔
لِّیَشھہَدُوا مَنَافِعَ لَہُم وَ یَذکُرُوا اسمَ اللّٰہِ فِی اَیَّامٍ مَّعلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیمَۃِ الاَنعَامِ فَکُلُوا مِنھَا وَ اَطعِمُوا البَآءِسَ الفَقِیرَ ( الحج، آیۃ: 28)
تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور متعین دنوں میں جو چوپایوں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے انھیں عطا کیے ہیں۔ چنانچہ ان جانوروں سے خود بھی کھاو اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاو۔
بدعت نمبر ۹۔ ننگے طواف کی ممانعت۔
اس سلسلے کی ایک بد ترین رسم یہ تھی کہ قریش کے علاوہ سبھی لوگ ننگے طواف کیا کرتے تھے ۔ مرد دن میں جب کہ عورتیں راتوں کو طواف کیا کرتی تھیں اور یہ شعر بھی گنگناتی تھی کہ
الْیوْمَ یَبدُو بَعْضُہُ أَوْ کُلُّہُ
فَمَا بَدَا مِنْہُ فلا أُحِلہُ
تفسیر طبری، سورۃ اعراف
آج کے دن کچھ یا پورے بدن کو ظاہر کیا جائے گا۔ اور جو ظاہر ہوگا، اسے میں حلال نہیں کروں گی۔
اسلام نے انسانیت کو شرمسار کردینے والی اس رسم پر پابندی لگادی اور یہ حکم دیا کہ
یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد (سورہ : اعراف، آیۃ: 32)
ائے آدم کے بیٹے اور بیٹیو! جب کبھی مسجد میں آو تو اپنی خوشنمائی کا سامان (یعنی لباس جسم پر ) لے کر آو۔
سن ۹ ہجری میں حضرت ابوہریرہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے ذریعے نبی اکرم ﷺ نے یہ اعلان کروادیا کہ
وَأَنْ لاَ یَحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِکٌ وَلاَ یَطُوفَ بِالْبَیتِ عُرْیَانٌ( صحیح بخاری، کتاب تفیسر القرآن، باب و آذان من اللہ و رسولہ)
کہ اس کے بعد اب کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ کوئی شخص ننگا ہوکر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا۔
بدعت نمبر ۱۰ حج میں عمرہ کو ناجائز سمجھنا۔
اہل جاہلیت کا ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ حج کے ساتھ عمرہ کرنا درست نہیں ہے۔ اس میں آفاقی حضرات عمرہ سے محروم ہوجایا کرتے تھے ، کیوں کہ عمرہ کے لیے ایک مستقل سفر کرنا دشواری کا باعث تھا، اس لیے حجۃ الوداع کے موقع پر خود نبی اکرم ﷺ نے حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا اور جو صحابہ کرام صرف حج کا احرام باندھ کر آئے تھے ، انھیں حکم دیا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے وہ نیت بدل دیں اور پہلے عمرہ کریں۔ اس کے بعد احرام کھول دیں اور پھر مکہ ہی سے حج کا احرام باندھیں۔ مسند داود الطیالسی میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
فَقَالَ: 171لَا، بَلْ لِلْأَبَدِ، دَخَلَتِ الْعُمْرَۃُ فِي الْحَجِّ187 وَشَبَّکَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَصَابِعِہِ(احادیث النساء، ما اسند جابر بن عبداللہ الانصاری)
نبی اکرم ﷺ نے اپنے ہاتھوں کی انگلی ایک دوسرے میں داخل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہمیشہ کے لیے عمرہ حج کے ساتھ ہوگیا ہے۔
بدعت نمبر ۱۱۔ عرفات سے طلوع کے بعدروانگی
مشرکین منیٰ سے عرفات کے لیے سورج نکلنے کے بعد نکلتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اشرق ثبیر۔ اسلام نے ان کے عقیدے کی اصلاح کرتے ہوئے یہ کیا کہ ۹ ذی الحجہ کو بعد الفجر طلوع آفتاب سے قبل ہی عرفات کے لیے روانگی کا حکم دیا ۔
و قد ذکر العلماء أن المشرکین کانوا لایفضیون حتیٰ تطلع الشمس، و یقولون: أشرق ثبیر، و أن النبی ﷺ خالفھم، فأفاض حین أسفرقبل طلوع الشمس۔ (المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ص؍385)
مآخذو مصادر
آسان ترجمہ قرآن۔ تفسیر ابن کثیر۔ تفسیر طبری۔ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام۔ صحیح بخاری ۔ مشکاۃ المصابیح۔حجۃ الوداع و جزء عمرات النبی ﷺ ۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں