ایک ستارہ ہاتھ پکڑ کر دور کہیں لے جاتا ہے
اور خلا میں کھو جانے کی آج بھی عادت باقی ہے
علی گڑھ، 16؍اگست: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سینٹرآف ایڈوانسڈ اسٹڈی ،شعبۂ اردوکی دیرینہ روایت کے مطابق جشن یوم آزادی کے موقع پر مشاعرہ کاانعقاد یونیورسٹی پالی ٹیکنک کے اسمبلی ہال میں کیا گیاجس میں نامور بیرونی و مقامی شعراء نے اپنا کلام پیش کرکے سامعین کو محظوظ کیا۔واضح رہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جشن یوم آزادی تقریبات کا سلسلہ اسی مشاعرہ سے شروع ہوتا ہے۔ آغاز پرصدر شعبۂ اردو پروفیسر طارق چھتاری نے اس مشاعرہ کی روایت اور جنگ آزادی میں اردو زبان و ادب کی خدمات پر روشنی ڈالی۔انھوں نے کہا کہ جنگ آزادی میں اردو شاعری نے نمایاں کردار ادا کیاتھا۔اس زبان کے ذریعہ مجاہدین آزادی نے عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے صدارتی خطبہ میں کہا کہ ا ردو اور فارسی دنیا کی خوبصورت زبانیں ہیں اور اے ایم یو کا شعبۂ اردو، اردو کا دنیا کا سب سے بڑا شعبہ ہے۔انھوں نے کہا کہ اردو زبان کا فروغ ہندوستانیوں اور زبانِ اردو کے شیدائیوں کے لئے ایک چیلنج ہے۔انھوں نے عبرانی کے احیاء کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی تہذیب اور زبان کی بقا کے لئے تحریک لینے کی ضرورت ہے۔ مشاعرے میں پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد حنیف بیگ،رجسٹرار (آئی پی ایس) مسٹر عبدالحمید،ڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر محمد زاہدوغیرہ کے ساتھ ساتھ دیگر معزز مہمانان کثیر تعداد میں موجود رہے۔شکریہ کی رسم پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے ادا کی۔سنجیدہ سامعین کی داد و تحسین کے درمیان ملک کے مشہور و معروف شعرا نے روایتی موضوعات کے ساتھ ساتھ ملک کے حالات اور جنگ آزادی کے موضوعات کواپنے کلام میں پیش کیانیز سماجی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ پروفیسر سراج اجملی کی نظامت میں منعقدہ مشاعرہ میں پیش کیے گئے شعراء کے کلام کو قارئین کے لیے یہاں پیش کیاجارہا ہے :
خاموش تم بھی اور میرے ہونٹ بھی بند تھے
پھر اتنی دیر کون تھا جو بولتا رہا
(شیو کمار نظام،جودھ پور)
اگر تم کو محبت ہے تو ہمت کیوں نہیں کرتے
کسی دن اس کے در پہ رقص وحشت کیوں نہیں کرتے
(فرحت احساس،دہلی)
میں نے بھی دیکھنے کی حد کر دی
وہ بھی تصویر سے نکل آیا
(پروفیسر شہپر رسول،دہلی)
اچانک اٹھے چل دیے پھر نہ آئے
تمہیں کیا ملا سب کو حیران کر کے
(شعیب نظام،کانپور)
ایک ستارہ ہاتھ پکڑ کر دور کہیں لے جاتا ہے
اور خلا میں کھو جانے کی آج بھی عادت باقی ہے
(عالم خورشید،پٹنہ)
وفا کے قتل پہ مقتل میں کون ہنستا تھا
یہ ٹکڑا اپنے فسانے میں جوڑ بھی دے
(ڈاکٹر سلمیٰ شاہین،دہلی)
داستان زندگی لکھتے مگر رہنے دیا
اس کے ہر کردار کو بس معتبر رہنے دیا
(عذرا نقوی،نوئیڈا)
پھول ہی پھول جو سینے پہ کھلائے ہوئے ہیں
ان دنوں ہم نگہ یار میں آئے ہوئے ہیں
(پروفیسر مہتاب حیدر نقوی)
بہت ناز ہے تم کو اس حال پر
تو اس بزم میں بھی بہت دیکھنا
(پروفیسر سراج اجملی)
عجیب شخص ہے اس نے تو یار حد کر دی
کوئی شریفوں کو بھی اس قدر ستاتا ہے
(پروفیسر شہاب الدین ثاقب)
میں تو منجدھار ہوں،پتوار میں شامل ہی نہیں
جی حضوری میرے کردار میں شامل ہی نہیں
(ڈاکٹر راشد انور راشد)
یقیناًدولت کونین ہے احساس آزادی
ہمارا فرض اول ہے کہ رکھیں پاس آزادی
(ڈاکٹر معظم علی خان)
ادھر دعا تو ادھر درد کی دوا چپ ہے
مریض چیخ رہا ہے مگر شفا چپ ہے
(غضنفر علی غضنفر)
کھل کر بھی کیا کروں کہ میری خاک نے مجھے
خود پر لگالیا ہے کہ الزام ہی تو ہوں
(نسیم صدیقی)
کب تک یونہی خوابوں میں خیالوں میں ملیں گے
ہم آپ سے اب دن کے اجالوں میں ملیں گے
(ڈاکٹر سرور ساجد)
بڑا ہے دن جسے کہتے ہیں یوم آزادی
یہ ایک پکار ہے انسانیت کا دعوی ہے
(پروفیسر مولا بخش)
میں اگر خود کو سمجھ پاؤں تو بہتر
بے سبب آئینہ کو ادراک ہونے سے رہا
(راحت حسن)
چراغ دل تو جلا صبح تک امیرانہ
مگر جو رات تھی میری وہ مفلسانہ رہی
(مشتاق صدف)
مشاعرہ میں معید رشیدی،عابد علی عابد،مونس عبد الماجد،خیر الدین اعظم وغیرہ نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں