تصنیف:
تلبیہ یعنی لبیک کا زبان سے کہنا شرط ہے ، صرف دل سے کہنا کافی نہیں ہے۔
مسئلہ: گونگے کو زبانی ہلانی چاہیے اگرچہ الفاظ ادا نہ ہو۔
مسئلہ: ہر ایسا ذکر جس سے حق تعالیٰ کی تعظیم مقصود ہو، تلبیہ کے قائم مقام ہوسکتا ہے، جیسے لا الٰہ الا اللہ ۔ الحمد للہ۔ سبحان اللہ۔ اللہ اکبر وغیرہ۔
مسئلہ: تلبیہ اردو، فارسی، ترکی وغیرہ سب زبانوں میں جائز ہے۔ اگرچہ عربی میں بھی کہہ سکتا ہے ، مگر عربی میں کہنا افضل ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: تلبیہ کے خاص الفاظ جو پہلے بیان ہوئے ، ان کا کہنا سنت ہے شرط نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا ذکر احرام کے وقت کرے گا، تو احرام صحیح ہوجائے گا، لیکن تلبیہ کا چھوڑنا مکروہ ہے۔
مسئلہ: احرام باندھتے وقت تلبیہ یا تلبیہ کے قائم مقام کا ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے اور تکرار سنت۔ جب تلبیہ پڑھے ، تین مرتبہ پڑھے۔
مسئلہ: زمان و مکان اور حالات کے تغیر کے وقت تلبیہ پڑھنا مستحب ہے ، اس لیے صبح، شام، نماز کے بعد، کسی سے ملتے، جدا ہوتے وقت، اوپر نیچے ہوتے ہوئے، سوار ہوتے ہوئے، اترتے ہوئے تلبیہ پڑھنا چاہیے۔ (ہدایہ)
حضرت سفید ابن زبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جس وقت احرام باندھا، تو آپﷺ کے تلبیہ کے بارے میں صحابہ کرام کے اختلاف سے حیران ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا میں اس کو سب سے اچھا جانتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے تو صرف ایک حج کیا ہے اور یہیں سے وہ لوگ مختلف ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ حج کے لیے نکلے ، جب ذوالحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھی، تو آپ ﷺ نے اسی مجلس میں احرام باندھا۔ آپ ﷺجب دو رکعت سے فارغ ہوئے، تو آپ ﷺنے حج کا تلبیہ پڑھا، تو بہت سے لوگوں نے اس کو سنا اور میں نے بھی اس کو یاد رکھا ۔ پھر آپ ﷺسوار ہوئے اور اونٹنی کھڑی ہوئی، تو پھر آپ ﷺنے تلبیہ پڑھا۔اور ایک قوم نے اس کو آپ ﷺ سے محفوظ کیا۔ اور یہ اس لیے کہ لوگ گروہ در گروہ آرہے تھے ، تو جب آپﷺ کو اونٹنی لے کر کھڑی ہوئی اور آپ ﷺ نے تلبیہ پڑھا،تو لوگوں نے سنا اور انھوں نے کہنا شروع کیا کہ جس وقت اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر کھڑی ہوئی، اس وقت آپ ﷺ نے تلبیہ پڑھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ چلے۔ جب میدان کی بلندی پر چڑھے ،تو پھر آپ ﷺ نے تلبیہ پڑھا، اس کو ایک قوم نے آپ ﷺ سے سنا اور انھوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ ﷺ نے احرام کا تلبیہ اس وقت پڑھا جب کہ میدان کی بلندی پر چڑھے۔ خدا کی قسم ! آپ ﷺ نے احرام کا تلبیہ تو نماز کی جگہ ہی پر پڑھا اور اس وقت بھی پڑھا جب کہ اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر کھڑی ہوئی۔ اور اس وقت بھی پڑھا جب میدان کی بلندی پر چڑھے، تو جس نے ابن عباسؓ کے قول کو لیا، تو اس نے مصلیٰ ہی پر احرام کا تلبیہ پڑھا، جب کہ دو رکعتوں سے فارغ ہوئے۔ (ابو داود ، حاکم)
مسئلہ: تلبیہ پڑھنے کے درمیان کسی نے سلام کیا، تو اس درمیان میں جواب دینا جائز ہے ، واجب نہیں ؛ مگر بہتر یہ ہے کہ تلبیہ ختم کرکے جواب دے ، بشرطیکہ سلام کرنے والا چلا نہ جائے۔
مسئلہ: فرض اور نفل نماز کے بعد بھی تلبیہ پڑھنا چاہیے ۔ ایام تشریق میں پہلے تکبیر تشریق کہے۔ پھر تلبیہ پڑھے۔ اگر تلبیہ پڑھا تو تکبیر ساقط ہوجائے گی ۔ مگر تلبیہ دسویں تاریخ کی رمی کے ساتھ ساقط ہوجاتا ہے ، اس لیے باقی ایام تشریق میں صرف تکبیر ہوگی۔
مسئلہ: اگر مسبوق امام کے ساتھ تلبیہ کہہ لے گاتو نماز فاسد ہوجائے گی ۔
مسئلہ: تلبیہ کی کثرت مستحب ہے۔
مسئلہ: اگر چند آدمی ساتھ ہوں تو ایک ساتھ مل کر تلبیہ نہ کہیں، علاحدہ علاحدہ کہیں۔
مسئلہ: تلبیہ میں آواز بلند کرنا مسنون ہے، لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ خود کو یا دوسرے نمازیوں اور سونے والوں کو نقصان پہنچے۔
قالَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ: أتانی جبرئیلُ فاَمَرَنی أن اٰمُرَ أصحابی أن یرفعوا أصواتَھُم بالاِھلالِ أو التلبیۃِ (رواہ مالک والترمذی و ابو داود والنسائی وابن ماجہ والدارمی و صححہ الترمذی وابن حبان)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے ، پس انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے اصحاب کو حکم دوں کہ تلبیہ پڑھنے میں اپنی آواز کو بلند کریں۔
عنایہ میں ہے کہ ہمارے نزدیک دعا اور اذکار میں اخفا مستحب ہے، لیکن اگر اس کے اعلان میں دینی مقصد ہو، جیسے اذان ، خطبہ اور ان کے علاوہ ۔ تلبیہ سے بھی مقصد دین اسلام کی سربلندی کا اظہار ہے ، اس لیے زور سے پڑھنا مستحب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
افضلُ الحج والعمرۃ العَجُّ والثَّجُّ۔ (متفق علیہ)
بہترین حج بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا اور خون بہانا یعنی قربانی کرنا ہے۔
مسئلہ: مسجد حرام ، منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں بھی تلبیہ پڑھو، لیکن مسجد میں زور سے نہ پڑھو۔
مسئلہ: طواف اور سعی میں تلبیہ نہ پڑھو۔
مسئلہ: تلبیہ کے الفاظ میں زیادتی کرنا مستحب ہے ، لیکن زیادہ درمیان میں نہ کریں؛ بلکہ بعد میں کریں۔
کانَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ یرکعُ بذی الحلیفۃَ اَھَلَّ بِھٰؤلاءِ الکلماتِ و یقولُ: لَبَّیْکَ ألْلّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ، وَالْخَیْرَ فِیْ یَدَیْکَ والرَّغْبِاءُ اِلَیکَ والْعَمَلُ۔ (متفق علیہ)
رسول اللہ ﷺ ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھتے اور
لَبّیکَ أللّٰھُمَّ لَبّیکَ، لَبَّیکَ لا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ۔
کے ساتھ کہتے:
لَبَّیْکَ ألْلّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ، وَالْخَیْرَ فِیْ یَدَیْکَ والرَّغْبِاءُ اِلَیکَ والْعَمَلُ۔
مسئلہ: تلبیہ کے الفاظ میں کمی کرنا مکروہ ہے۔
مسئلہ: جب کوئی عجیب چیز نظر آئے تو یہ کہے:
لَبَّیْکَ اِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الْاٰخِرَۃُ۔
مسئلہ: عورت کو تلبیہ زور سے پڑھنا کہ اجنبی مرد سن لے، منع ہے ۔
مسئلہ: تلبیہ حج میں رمی کرنے کے وقت تک پڑھا جاتا ہے۔ دسویں ذی الحجہ کو جب جمرہ عقبیٰ کی رمی شروع کرے تو تلبیہ بند کردے، اس کے بعد نہ پڑھے۔
اِنَّ النبیَ ﷺ مازالَ یُلَبِّی حتّٰی رَمی جمرۃَ العَقْبَۃِ (متفق علیہ و زاد ابن ماجہ فلما رماھا قطع التلبیۃ)
نبی کریم ﷺ ہمیشہ تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ جمرہ عقبہ کی رمی کی یہ تو بخاری مسلم میں ہے اور ابن ماجہ نے اتنا زیادہ کیا ہے کہ پھر جب اس کی رمی کی تو تلبیہ بند کردیا ۔ اور عمرہ میں طواف شروع کرنے تک پڑھا جاتا ہے۔
تلبیہ پڑھنے کا بڑا ثواب ہے۔ حضرت سہل ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ما مِنْ مُسْلِمٍ یُلبِّی اِلَّا لَبّٰی مَنْ عَنْ یَمِینِہِ و شِمالِہِ مِنْ حَجَرٍ وَ شَجَرٍ اوْ مَدَرٍ حَتّٰی تَنقِطِعُ الارضُ مِن۔ ھٰھُنا وَ ھٰھُنا۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجۃ)
جب کوئی مسلمان تلبیہ پڑھتا ہے ، پتھر یا درخت یا ڈھیلا جو بھی دائیں بائیں ہوتا ہے، وہ بھی تلبیہ پڑھتا ہے؛ یہاں تک کہ زمین ادھر سے ادھر منقطع ہوجاتی ہے ، یعنی تلبیہ کا سلسلہ دائیں سے بائیں زمین کی آخری حد کو پہنچ جاتی ہے ۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تلبیہ پڑھنے والے ، تکبیر کہنے والے جنتی ہیں ۔ جب کوئی بندہ حج میں تلبیہ پڑھتا ہے اور تکبیر کہتا ہے تو اس کو بشارت دی جاتی ہے ۔ کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا یہ بشارت جنت کی ہوتی ہے ؟ ارشاد فرمایا: ہاں ، جنت کی۔ (طبرانی)
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں