لکھنؤ: بتاریخ۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۷ء کوآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکی مجلس عاملہ نے اعلان کیا کہ حکومت ہند کا پیش کردہ شادی شدہ مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بل مسلمانان ہند کے لئے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے اس لئے کہ یہ بل خودمسلمان خواتین کے حقوق کے خلاف ہے اور ان کی الجھنوں ، پریشانیوں اور مشکلات میں اضافے کا سبب ہے، اسی طرح یہ شریعت اسلامی میں کھلی ہوئی مداخلت اور آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کی بنیادی دفعہ اورسپریم کورٹ کے تین طلاق کے سلسلہ میں دیے گئے حالیہ فیصلے مؤرخہ۲۲؍ ۸ ؍۲۰۱۷ ء کے خلاف ہے۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ اس بل کے مشمولات متضاد ہیں ، جہاں ایک طرف اس بل میں تین طلاق کے بے اثر اور باطل ہونے کی بات کہی گئی ہے وہیں تین طلاق کو جرم قرار دے کر تین سال کی سزا اور جرمانہ کی بات موجودہے، سوال یہ ہے کہ جب تین طلاق واقع ہی نہیں ہوگی تو اس پر سزا کیوں کر دی جاسکتی ہے۔اس بل کی دفعات ۴۔۵۔۶۔۷ ملک میں پہلے سے موجود قوانین (مثلا Guardian and wards Actوغیرہ) سے ٹکراتی ہیں اور دستور ہند کی دفعہ ۱۴۔ ۱۵ کے خلاف ہیں کیونکہ اس بل میں ان مسلمان عورتوں کو جن کو بیک وقت تین طلاق دی گئی ہو اور دیگر مسلم خواتین میں بغیر کسی جواز کے تفریق کی گئی ہے اور شوہر کو مجرم قرار دیے جانے کے سلسلہ میں خود اس کی منکوحہ کی مرضی اور منشا کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے، حد تو یہ ہے کہ بچوں کی فلاح و بہبود کے معاملہ پر سرے سے توجہ ہی نہیں دی گئی ہے۔
یہ بات حیران کردینے والی ہے کہ جس کمیونٹی کے بارے میں یہ بل پیش کیا گیا ہے نہ اس کے ذمہ داران اور قائدین سے مشورہ لیا گیااور نہ کسی مسلم تنظیم اور ادارے سے رابطہ کیا گیا اورنہ خواتین کے معتمداداروں سے مشورہ کیا گیا،اس لئے اس بل کے سلسلہ میں ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت ابھی اس مجوزہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرے بلکہ اگر ضرورت محسوس کی جائے تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم خواتین کی صحیح نمائندگی کرنے والی تنظیموں اور اداروں سے مشورے کے بعد ایسا بل پیش کیا جائے جو خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے والا، شریعت اسلامی اور آئین ہند سے مطابقت رکھنے والا ہو۔چونکہ یہ بل شریعت اسلامی اور آئین ہند دونوں کے خلاف ہے ، نیزمسلم خواتین کے حقوق کو متأثر کرنے والا ہے اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈاس کے سدباب کی کوششیں شروع کرچکا ہے اور آنے والے دنوں میں بھی ہر سطح پر بھر پور کوشش کرے گا، انشاء اللہ۔مسلمانان ہند کے ان احساسات سے صدر محترم آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈوزیر اعظم ہند کوباخبر کریں گے۔
یہ بات حیران کردینے والی ہے کہ جس کمیونٹی کے بارے میں یہ بل پیش کیا گیا ہے نہ اس کے ذمہ داران اور قائدین سے مشورہ لیا گیااور نہ کسی مسلم تنظیم اور ادارے سے رابطہ کیا گیا اورنہ خواتین کے معتمداداروں سے مشورہ کیا گیا،اس لئے اس بل کے سلسلہ میں ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت ابھی اس مجوزہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرے بلکہ اگر ضرورت محسوس کی جائے تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم خواتین کی صحیح نمائندگی کرنے والی تنظیموں اور اداروں سے مشورے کے بعد ایسا بل پیش کیا جائے جو خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے والا، شریعت اسلامی اور آئین ہند سے مطابقت رکھنے والا ہو۔چونکہ یہ بل شریعت اسلامی اور آئین ہند دونوں کے خلاف ہے ، نیزمسلم خواتین کے حقوق کو متأثر کرنے والا ہے اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈاس کے سدباب کی کوششیں شروع کرچکا ہے اور آنے والے دنوں میں بھی ہر سطح پر بھر پور کوشش کرے گا، انشاء اللہ۔مسلمانان ہند کے ان احساسات سے صدر محترم آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈوزیر اعظم ہند کوباخبر کریں گے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں