عدالت عظمیٰ کی کارکردگی جو پچھلے مہینوں سے چل رہی ہے وہ ٹھیک نہیں ،اس پر بحث و مباحثہ ہی نہیں بلکہ عوام میں بے چینی پیدا ہوئی ہے
فلی ایس نریمان (انڈین ایکسپریس 18؍اپریل 2018ء)
ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین ، ناندیڑ مہاراشٹر
جنوری 2017ء سے عدالت عظمیٰ کی بنچوں نے ( جو پانچ، سات، اور نو ججوں پر مشتمل ہے) فیصلہ جات دئے ہیں وہ معترکۃ الآراء ہیں۔ لیکن اسی زمانے میں ہم نے وہ غیر روایتی واقعات دیکھے ہیں جو آج تک سپریم کورٹ میں نہیں دیکھے گئے تھے۔ سات ججوں والی سپریم کورٹ کے بنچ نے کارکردگی میں ہائیکورٹ جج کے خلاف توہین عدالت کی سزا سنائی۔ اور اسی طرح عدالت عظمیٰ کے چار سینئر ججوں نے عوام میں سپریم کورٹ کے انتظامیہ کے بارے میں چیف جسٹس کے خلاف عوام کے سامنے احتجاج کیا۔ ان واقعات کی وجہہ سے مجھے Charless Deccans کی Tel of two cities کے ابتدائی سطروں کی یاد آرہی ہیں جو اس طرح تھیں۔
it was a best of times,it was a worst of times,it was a age of wisdoms,it was a age of foolishness…… it was spring of hope, it was a winter of dispir.
18؍ویں صدی کا جرنی بینتھن قانون اور سیاست کا مصلح تھا اور وہ قانون سازی کئے ہوئے قانون کا محرک بھی تھا۔ اور ایک مانا ہوا دشمن بھی تھا کہ کس طرح ججوں کا بنایا ہوا قانون ہوتا ہے۔ وہ ان کی مذمت کرتا، اس نے اپنے ملک کی سب سے عظیم کورٹ کے بارے میں ایسا کہا کہ “Judge And Company” وہ اپنی کتاب جو ججس پر 1992ء میں لکھی گئی تھی ڈیوڈ پینک اس طرح لکھتا ہے کہ ’’ Judge And Company جس طرح چلتی ہے ایک دلچسپی معاملہ ہے اور وہ بڑھتے ہوئے عوامی مباحثہ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔‘‘
ہندوستان میں بھی جس طریقے سے اب پچھلے چند مہینوں سے سپریم کورٹ چل رہی ہے کیا وہ دلچسپی کا باعث نہیں بن گئی؟ کیا اس پر بحث و مباحثہ نہیں ہورہے ہیں؟ اب تو بالکلیہ طور پر عوام کے سامنے متنازعہ بن گئی ہے۔ اس طرح عوام میں ان کی بے چینی اور تعلق کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے۔
جسٹس مائکل کلبی جنہوں نے ہندوستان کا کئی مرتبہ دورہ کیا انہوں نے کہا کہ جب آسٹریلیا میں کوئی ہائیکورٹ جج کی حیثیت سے بیٹھتا ہے تو ملک کے دیگر ججوں سے ممتاز ہوتا ہے۔ اور سب
سے عظیم کورٹ کا جج ہونے کے باوجود اسے کسی قسم کی کوئی خاص یا خصوصی مراعات نہیں ہوتی ۔ اور کہا کہ ’’ جب کبھی ہم کسی دباؤ یا ٹینشن کے بارے میں آسٹریلیا کی ہائیکورٹ کے بارے میں سوچتے ہیں تو لامتناہی تناسب سے ہم ان تمام سے کہیں زیادہ بہتر ہے جب ہم یونائٹیڈ اسٹیٹ کے سپریم کورٹ کی تاریخ پڑھتے ہیں۔ جہاں عدالت کے ماحول کو مسموم کیا جاتا ہے جو کسی شخصی تعلقات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس طرح اب وہاں غیر معمولی طور پر ہمیں بھی ظاہری طور پر ہمارے ملک کی عدالت عظمیٰ کے بارے میں بھی ایسا ہی لگتا ہے۔
1955ء کی اشاعت میں سپریم کورٹ کے اندرونی تنازعات جو یونائٹیڈ اسٹیٹ میں بیان کئے گئے ہیں وہ بہت ہی اُجاڑ، بے آب و گیانظر آتے ہیں۔ جس میں کئی معنی خیز مجبوریاں اور اپنے آپ میں کہنے والی حکایتیں موجود ہیں۔ جھگڑوں کو بڑھا چڑھا کا دکھایا جاتا ہے۔ جس طریقے سے کورٹ کی عظمت ہوتی ہے اُسے تنازعات سے کم کیا جاتا ہے۔ جو جان مارشل سے لیکر رُت گنس بر تک تھی۔ جو کو پڑھنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ آپس میں کس طرح لڑتے تھے، کیسے لڑتے تھے۔ عظیم طویل روایات کے طریقہ کار سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے خوشامدی اور القابات سے پکارنا، دھمکیاں دینا یا رسمی طور پر فریاد کرنا وغیرہ یہ تمام چیزیں ہیں جس کے ذریعے سے ساتھی ججس پر اثر انداز ہوا جاتا ہے۔
یونائٹیڈ اسٹیٹ کے سپریم کورٹ کے درون جو تنازعات ہوتے ہیں وہ تنازعات مشترکہ جمعیت ججس برادرانہ حیثیت سے ہی ختم کئے جاتے ہیں۔ اس طرح فلپس کوپر بُک 1995ء میں عدلیہ کو اپنے زندگی کا ایک سنگ مر کا مندر قرار دیا ہے۔
ہم ہندوستان میں مشترکہ جمعیت والی جو روح تھی اس کو نظر انداز کرچکے ہیں۔ بالخصوص یہ ججس سے مفقود ہوچکی ہے۔ 2004ء کے سپریم کورٹ کے شائع شدہ فیصلے میں جسٹس آر سی لاہوٹی جو بعد ازاں چیف جسٹس آف انڈیا جو یکم جون 2004ء سے 31 اکتوبر 2005ء تک کارکرد تھے، انہوں نے اپنے فیصلے میں Harry at world جو یونائٹیڈ اسٹیٹ کورٹ آف اپیل میں تھے انہوں نے کہا کہ عدلیہ طریقہ کا جو رحجان ہوتا ہے اس کی اہمیت ججوں کی مشترکہ جمعیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا ہے۔ میرا یہ مطلب ہے کہ ججس کے درمیان جو برتاؤ ہوتا ہے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم کبھی کبھار کسی معاملہ میں ایک دوسرے سے متفق نہیں ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمارا مشترکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم معاملات کو کیسے منفصل و منضبط کریں۔
ہم اس طرح ایک لفظ کہ وہ کس طرح ایک دوسرے کے جمیع و شریک ہوسکے۔ اس طرح کے برتاؤ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عمل آوری کے وقت ہم ایک دوسرے کے نظریات و رحجانات کو عزت و احترام سے سنتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہوتا ہے اپنی شناخت کا ہر اس معاملہ میں اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس مشترکہ جمعیت کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ جب کبھی ہم کسی دوسرے سے اتفاق نہیں کرتے ہیں لیکن ہم اپنی شناخت کرتے ہیں کہ ہم ایک ہی مشن میں لگے ہیں۔ اور ہم میں کا ہر ایک ایک دوسرے کے ساتھ صحیح عقیدے پر قائم رکھتے ہوئے اپنے نظریات کو پیش کرتے ہیں۔
یونائٹیڈ اسٹیٹ میں جب کبھی سپریم کورٹ کا اجلاس جاری ہوتا ہے تو صبح دس بجے باب الداخلہ پر جج کے روم میں آنے سے قبل مارشل روایتی طور پر اعلان کرتا ہے کہ عزت ماب چیف جسٹس اور مشترکہ جمعیت ججس سپریم کورٹ آف یونائٹیڈ اسٹیٹ تشریف لارہے ہیں۔ تمام افراد جو اپنی مصروفیت میں ہوتے ہیں وہ اس آواز کو سن کر عزت و احترام کے ساتھ یونائٹیڈ اسٹیٹ کے سپریم کورٹ کے ججس کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان کی تمام توجہ چیف جسٹس اور ججس کی طرف مبذول ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد پھر عدالت بیٹھ جاتی ہے۔ خدا یونائٹیڈ اسٹیٹ اور اس عزت مآب کورٹ کو محفوظ رکھے ایسا کہا جاتا ہے۔
اس برے وقت میں میری ایک تجویز ہے کہ جب مشترکہ جمعیت والی بات پر ہوا میں اُچھال دیا گیا ، ایسی صورت میں کیا ہمارے لئے موزوں نہیں ہوگا کہ ہم اوپر کے دئے ہوئے آخری سطروں میں جو روایتی انداز میں آواز لگائی گئی تھی اور دعا کی گئی تھی کیا اسی طرح ہم ہندوستانی شہری خدا سے یہ دعا کریں کہ جمہوریہ ہندوستان اور عزت مآب سپریم کورٹ کو خدا محفوظ رکھے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں