گناہ کا مزاج وعلاج اور ہمارا مزاج

0
1072
All kind of website designing

گناہ کا مزاج وعلاج اور ہمارا مزاج

محمد یاسین قاسمی جہازی
جمعیۃ علماء ہند
رابطہ: 9871552408
ای میل: [email protected]

عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ تعرف الاشیاء باضدادھا، چیزوں کی شناخت ان کی ضد والی چیز سے ہوتی ہے۔ شناخت میں اس کی اہمیت و افادیت اور قدروقیمت بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے مد مقابل کی چیز سے اس کا موازنہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر ہمیں روشنی کی صحیح قدروقیمت اس وقت معلوم ہوتی ہے، جب ہم کبھی کسی سخت تاریکی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس اصول سے ایک اور اصول وابستہ ہے، جسے ہم کہتے ہیں کہ علاج بالضد، یعنی کسی چیز کا علاج اس کے اپوزٹ والی چیز سے کیا جاتا ہے، مثلا یہ اگر آپ کو سردی لگتی ہے تو گرمی پیدا کرنے والے سامان کا استعمال کرتے ہیں ، جب گرمی کا موسم آتا ہے، تو اس کے علاج کے لیے اے سی، کولر، فرج وغیرہ کو زیر استعمال لاتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ اصول فطری تقاضوں کی ترجمانی پر قائم ہے، اور مذہب اسلام چوں کہ دین فطرت کہلاتا ہے، اس لیے اس اصول کی کرشمہ سازیاں ہمیں وہاں بھی نظر آتی ہیں۔ درج ذیل سطور میں اس کی مثا لیں پیش کی جارہی ہیں۔
انسان کے اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک اچھے اور ثواب پیدا کرنے والے اعمال۔ دوسرے برے اور گناہ والے اعمال۔ ان دونوں عملوں کی اپنے اپنے مزاج کے اعتبارسے الگ الگ خصوصیات ہیں۔ نیک اعمال کا مزاج نرم اور سرد ہے ، جب کہ برے اعمال کا مزاج گرم اور ہیجان خیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ان اعمال کا تذہ کرتے وقت ایسا انداز بیان اختیار کیا گیا ہے،جن سے ان کے مزاج کی طرف واضح اشارہ ہوجاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْ کُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ط وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا(النساء، آیۃ: ۱۰، پ۴)
جو لوگ ناحق طریقے سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ درحقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جہنم میں جلیں گے۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مال حرام گرچہ دنیا میں کتنا ہی ٹھنڈا کیوں نہ ہو، عالم آخرت میں اس کی تاثیر اور اس کا مزاج گرم ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ صبر کا مزاج اس دنیا میں بہت کڑوا ہے، لیکن آخرت میں یہ شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ
وَالصَّدَقَۃ تُطْفیءُ الْخَطیءۃکمَا یُطْفیءُ الْمَاءُ النَّارَ(مسند الشھاب القضاعی،ص۹۵) صدقہ گناہ کو ایسے ٹھندا کردیتا ہے جیسے کہ پانی آگو کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ
إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّیطَانِ، وَإِنَّ الشَّیْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ،فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضأْ (سنن ابی دادو، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب)
غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے۔ اور شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے،لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وضو کرلے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آگ میں دو خاص وصف ہیں : ایک گرمی اور دوسرا علو، یعنی اوپر چڑھنا۔ اس حدیث شریف کی رو سے غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے، شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے، اس لیے غصہ کا مزاج آگ ہے۔ اسی لیے غصہ ہونے کو محاورہ میں آگ بگولہ ہونا بولا جاتا ہے ۔ تو جس طرح آگ کی دو خاص وصف ہیں اسی طرح اس مزاج کے حامل غصہ میں بھی یہ دونوں وصف ہوں گے، یعنی گرمی اور علو۔ گرمی کے لحاظ سے نبی اکرم ﷺ نے یہ علاج تجویز فرمایا کہ فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضأْ۔ اور علو کے لیے یہ فرمایا کہ إِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ وَھُوَ قَاءِمٌ فَلْیَجْلِسْ، فَإِنْ ذَھَبَ عَنْہُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْیَضْطَجِعْ (سنن ابی دادو، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب)
جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے، تو اگر وہ کھڑا تھا تو بیٹھ جائے، غصہ ختم ہوجائے گا، لیکن اگر بیٹھنے سے غصہ ختم نہ ہو تو لیٹ جائے۔ اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کے معمول میں یہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ نماز میں ثنا کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ
اللھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَایَا، کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ( صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار،باب التعوذ من شر الفتن و غیرھا)
ائے اللہ ہمارے گناہوں کو برف اور پانی سے اور میرے دل کو گناہوں سے اس طرح دھو دے جس طرح کہ میلے سپید کپڑے کو دھویا جاتا ہے۔
جس طرح اعمال کی یہ دو خاصیتیں ہیں، اسی طرح اعمال کے درجے بھی دو ہیں: ایک ہے کبیرہ،دوسرا ہے صغیرہ۔ کبیرہ کے معنی ہے بڑا۔ اور صغیرہ کے معنی ہے چھوٹا۔ اس کو اعمال کے ساتھ جوڑ کر یہ کہاجاتا ہے کہ یہ اعمال صغیرہ ہیں اور یہ اعمال کبیرہ ہیں۔ اسی طرح گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ بھی بولا جاتا ہے۔
صغیرہ گناہ نیک اعمال کرنے سے خود بخود معاف ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پرآپ نے ظہر کی نماز پڑھی، اس کے بعد دنیوی کاموں میں مصروف ہوگئے، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، بات چیت ہوئی، اس دوران کچھ بھول چوک ہوگئی، اور صغیرہ گناہ سرزد ہوگیا۔ پھر عصر کا وقت آیا، تو آپ نے مسجد کا رخ کیا، اچھی طرح سے وضو کرکے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی، تو اس دوران جتنے بھی چھوٹے چھوٹے گناہ ہوئے تھے ، وہ سب معاف ہوگئے۔ لیکن اگر کبیرہ گناہ ہوجائے، تو پھروہ آٹومیٹک معاف نہیں ہوتے، اس کی معافی کے لیے توبہ ضروری ہے۔ اور توبہ بھی اس عزم و عمل کے ساتھ مشروط ہے کہ اسے دوبارہ نہ کرنے کا عہد شامل ہو۔ کیوں کہ اگر دل میں یہ چور چھپا ہے کہ پھر کبیرہ گناہ ہوجائے گا، تو پھر توبہ کر کے معاف کرالیں گے، تو اس کا نام توبہ نہیں ہے۔ گرچہ دوبارہ کبیرہ گناہ سرزد ہوجائے، تو دوبارہ توبہ کرنے سے معافی مل جاتی ہے۔
المختصر برے اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں : گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ۔ شریعت مطہرہ کی یہ تقسیم گناہوں کی کیفیت پر مبنی ہے ، لیکن اس کے بالمقابل گناہوں کی ایک تقسیم ہم نے بھی کر رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی مولوی سے صغیرہ گناہ بھی ہوجائے، تو وہ ہماری نگاہ میں گناہ کبیرہ سے بڑا گناہ ہوجاتا ہے ۔ اور اس کی وجہ سے وہ اتنا زیادہ سماجی لعن طعن کا شکار ہوتا ہے جیسے کہ کوئی فساد برپر کردینے والا اجتماعی جرم کردیا ہے۔ گرچہ حقیقت یہ ہے کہ گناہ بے شک گناہ ہے، اور اس سے اجتناب بہرحال لازم ہے، لیکن اگر سماج اور عام طبقہ بڑے بڑے گناہ کے اعمال کریں، تو وہ اپنے لیے بھی اور سماج کی نگاہ میں بھی کوئی گناہ تک نہیں سمجھا جاتا، کیوں کہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ اگر سماج کا ایک عام فرد سینما ہال سے نکلے ، تو کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا، فلم کے اثرات کو اپنی زندگی میں اتار لے، تو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا، لیکن اگر ایک مولوی محض سینماہال کے پاس بس کے انتظار میں کھڑا رہے، تو یہی شخص یا اس جیسا شخص یہ ٹوکنے کا سماجی حق رکھتا ہے کہ مولوی صاحب! آپ اور سینما گھر کے پاس؟۔ عام افراد سنت نبوی ﷺ کو ہر روز چہرے سے مٹانے کی کوشش کریں، تو کوئی عیب نہیں؛ لیکن ایک مولوی اگر تزئین کاری کرلے، تو پورے سماج کے چہرے پر قیامت برپا ہوجاتی ہے۔
بے شک ہم عوام اور امت کے اس نیک جذبے کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ وہ اپنے دینی قائد علمائے کرام کو منہج نبوی اور سنت طریقہ سے ایک انچ بھی ہٹا ہوا دیکھنا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ہم ہٹ جائیں ، تو وہ گناہ ، گناہ ہی نہیں ہوگا!۔ اسے توفیق الٰہی سے محرومی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟؟؟!!!۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here