’’مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی‘‘

0
853
فائل فوٹو
All kind of website designing

ڈاکٹر فیاض احمد (علیگ)
[email protected]

(قسط اول)
صحت وتندرستی کے بغیر انسان دین و دنیا کا کوئی بھی کام بخوبی انجام نہیں دے سکتا۔اس لئے اپنی صحت کی حفاظت ہر انسان کے لئے فرض ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب کرہ ارض پر انسان کو بسایا گیا تو اسے علم دین کے بعد دنیوی علوم میں سب سے پہلا علم جو ودیعت کیا گیا وہ علم طب ہی تھا۔’’العلم علمان :علم الادیان و علم الابدان‘‘۔
اس وقت پورے ہند و ستان میں دو طرح کی صحت خدمات موجود ہیں ۔ ایک سرکاری ،دوسرے پرائیویٹ ۔شہروں میں تو سرکاری اسپتال کچھ حد تک بہتر ہیں ،لیکن دیہی علاقوں میں سرکاری اسپتالوں کا حال انتہائی بدتر ہے ۔کہیں ڈاکٹر ہیں تو دوا نہیں ہے اور کہیں دونوں ہی نداردہیں ۔حالانکہ ملک کے اندر ڈاکٹروں کی کمی بھی نہیں ہے، لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ تمام تر طبی سہولیات صرف بڑے شہروں تک ہی محدود ہیں ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی ڈاکٹر( خواہ ایم بی بی ایس ہو یا آیوش یعنی یونانی ،آیوروید اور ہومیوپیتھی وغیرہ کے سند یافتہ) گائوں، دیہات میں جانا پسند نہیں کرتا۔ ڈاکٹروں کی کمی اور طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے شرح اموات بالخصوص بچوں کی شرح اموات بھی ان دیہی علاقوں میں سب سے زیادہ ہے۔اسی طرح مناسب طبی عملہ کے فقدان اور لیڈی ڈاکٹروں کی کمی کے باعث، زچگی کے دوران عورتوں کی اموات کی شرح بھی دیہی علاقوں میں زیادہ ہے ۔ہر ماہ تقریباً ایک لاکھ خواتین کی موت ،زچگی کے دوران ہو جاتی ہے اور تقریباً دس لاکھ بچے ہر سال ایک ماہ کی عمر پوری کرنے سے قبل ہی، مناسب طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں ۔اسی طرح ہائی بلڈ پریشر ، فالج، امراض قلب، ذیابیطس اور کینسر وغیرہ جیسے امراض کے ساتھ ہی مختلف متعدی امراض جیسے ملیریا، ڈینگو (Dengue) ،دماغی بخار (Japanese Encephalitis) وغیرہ کے نتیجے میں بھی، دیہی علاقوں میں، کثرت سے اموات ہوتی رہتی ہیں ۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی اور دیگر طبی عملہ کی عدم موجودگی ،دوائوں کے فقدان اور ان کی بد نظمی کی وجہ سے ہی اکثر مریض پرائیویٹ کلینک اور ہاسپٹل کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں،جہاںمریض صحت یاب ہو یا نہ ہو،لیکن صحت کے حصول کی خواہش میں قرض لینے اور بسا اوقات جائیداد بیچنے پر بھی مجبور ضرور ہوتا ہے ۔
گائوں ،دیہات اور قصبات میں غیر مستند جاہل ڈاکٹروں کی بھر مار ہے، جن کے پاس طب کی کوئی ڈگری تو دور کی بات ہے، اکثر و بیشترہائی اسکول یا انٹر بھی پاس نہیں ہوتے اور ڈاکٹر بن کر لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ ان غیر مستند ڈاکٹروں میں کچھ تو بغیر کسی لیٹر ہیڈاور بغیرکسی سائن بورڈ کے مطب کرتے ہیں ،جن سے ہر آدمی واقف ہوتا ہے کہ یہ ڈاکٹر تو نہیں ہیں بس دوا دیتے ہیں۔اس کے باوجود،مریض( خواہ وہ جاہل ہوں یا پڑھے لکھے ) ان کے پاس جاتے ہیں اور اپنی مرضی سے، اپنی صحت اور پیسہ دونوں برباد کرتے ہیں۔ اس کے ذمے دار مریض خود ہیں۔ جاہل ڈاکٹروں میںاصل فراڈ اور دھوکے باز مجرم تو وہ لوگ ہیں ،جو کوئی ڈگری نہ ہونے کے باوجود بڑی بڑی ڈگریاں لکھ کر یا پھرادھر ادھر سے فرضی ڈگریاں بنوا کر ،باقاعدہ لیٹر پیڈ چھپوا کراور سائن بورڈ لگا کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ایسے ہی دھوکے باز ڈاکٹروں میں کچھ ایسے بھی ہیں، جو مختلف میدانوں کے ماہر، جیسے ماہر امراض قلب، ماہر امراض نسواں ، ماہر امراض جلد، ماہر امراض چشم، ماہر امراض اطفال وغیرہ وغیرہ کی حیثیت سے ، توکچھ بغیر ڈگری کے، توکچھ بڑی بڑی فرضی ڈگریاں لکھ کر بڑے بڑے سائن بورڈ لگا کراور مختلف ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے ،اشتہارات کے ذریعہ عوام کو دھوکہ دیتے ہیں ۔ وہیں کچھ تعلیم یافتہ لوگ ایسے بھی ہیں ،جو گریجویشن،پوسٹ گریجویشن یا کسی مضمون سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ملازمت نہ ملنے کی صورت میں ڈاکٹر بن کر مطب کرنا شروع کردیتے ہیں اور ساری زندگی، نماز روزہ کرتے ہوئے بھی دھوکہ اور فریب کا کاروبار کرتے رہتے ہیں ۔ بغیر سند کے کوئی مفتی نہیں بن سکتا ،بغیر ڈگری کے کوئی وکیل یا انجینئر نہیں ہو سکتا، لیکن بغیر پڑھے لکھے ڈاکٹر بن سکتا ہے اورہمارا سماج حتی کہ سماج کا دانشور طبقہ بھی اسے ڈاکٹر تسلیم کر لیتا ہے ۔مختصر یہ کہ جو زندگی میں کچھ نہیں کر سکتا وہ نیتا یا ڈاکٹر بن جاتا ہے ۔ مذکورہ تمام صورتیں چوری،بے ایمانی، دھوکہ اور فریب کی مختلف شکلیں ہیں اور اس بات کے سب قائل ہیں کہ چوری،بے ایمانی، دھوکہ اور فریب کی کمائی قطعاً حرام کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کے باوجود نہ تو ان دھوکے بازوں کو شرم آتی ہے، نہ ہی ان کے افراد خانہ اور اعزہ واقرباء اور احباب کو۔ چوری،بے ایمانی ،دھوکہ ،فریب اور چار سو بیسی کے دیگر کاموں کو تو لوگ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کو لوگ چور،بے ایمان، دھوکے باز اور چارسو بیس کے لقب سے نوازتے ہیں، لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ طب کے پیشہ میں چوری وبے ایمانی کے مرتکب ،دھوکہ اور فراڈ کرنے والوں کو لوگ بڑی قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں چور،بے ایمان، فراڈ اور دھوکے باز کہنے کے بجائے ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کے خطاب سے نوازتے ہیں، جبکہ حدیث میں صاف طور پر ایسے لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں کہ
’’من تطبب ولم یعلم منہ الطب قبل ذلک فھو ضامن‘‘۔
ترجمہ:۔جس شخص نے کسی کا علاج کیا اور اس سے پہلے وہ اس طریقہ علاج سے لا علم تھا ،وہ اس کا ذمہ دار ہے ۔
اس حدیث کی تشریح علماء و ائمہ کرام نے اس طرح کی ہے کہ کسی غیر مستند طبیب نے مریض کو شفاء کا یقین دلا کر اس کا غلط علاج کیا تو شریعت کے تعزیری حکم کے مطابق اس جاہل طبیب پر تاوان ہو گا کہ اس نے اپنی جہالت اور نا واقفیت سے علاج کر کے مریض کی جان لی ۔گویا اس نے مریض کو دھوکہ دیا اس لئے اس پر تاوان دینا لازم ہو گا ۔اسی پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے ۔گویا حضور ﷺنے فن طب سے ناواقف علاج کرنے والوں کو مجرم قرار دے کر ان پر علاج کرنے کی پابندی لگائی ہے ۔
شرعی اور قانونی ہر لحاظ سے چوری،بے ایمانی ،دھوکہ اور فریب کا کوئی بھی کام جرم ہے ،لیکن بڑی عجیب بات یہ ہے کہ شریعت کا علم رکھنے والے مدارس کے کچھ فارغین اور مذہبی تنظیموں اور جماعتوں سے وابستہ کچھ افراد بھی مستقل دھوکہ اور فریب کے اس کاروبار میں ملوث نظر آتے ہیں ۔وہ نہ صرف خود یہ کاروبار کرتے ہیں، بلکہ دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اہل مدارس اور مذہبی تنظیموں و جماعتوں کے افراد کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے اراکین و ممبران کا ذریعہ معاش کیا ہے ؟ جس سے وہ چندہ اور زکوۃلے رہے ہیں، ان کا ذریعہ آمدنی کیا ہے ۔؟میری یہ بات ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے، لیکن سچائی یہی ہے کہ مذہبی تنظیموں ، جماعتوں اور مدارس کے افراد زیادہ سے زیادہ چندہ جمع کرنے کی ہوڑ میں حرام حلال کی تمیز کھو چکے ہیں، ورنہ کیا وجہ ہے کہ سماج میں پھیلے ہوئے ایسے دھوکے بازوں کی سر زنش کرنے کے بجائے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے اوران کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ۔ دانستہ طور پر، نمبر دو کا کام کرنے والوں، حوالہ کاروباریوں،عوام کو دھوکہ دینے والوں اور فراڈ کرنے والے افراد کی حرام کمائی کی زکوۃ اور چندہ لے کر اسے حلال کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔بہرکیف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپﷺ نے جہاںغیر مستند معالج کی مذمت فرمائی اور اس کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے، وہیں مستند بلکہ ماہرطبیب سے علاج کا مشورہ بھی دیا ہے جیسا کہ حدیث نبوی ہے کہ:
’’حضرت سعد ؓ روایت فرماتے ہیں کہ ’’میں ایک مرض میں مبتلا ہو گیا ۔رسول اللہ ﷺ میرے
پاس تشریف لائے اور اپنا دست مبارک میرے سینے کے درمیان رکھا ۔مجھے اس کی ٹھنڈک محسوس
ہوئی۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم دل کے مریض ہو ،اس لئے حارث ابن کلدہ سے رجوع کرو، وہ
ایک ماہر طبیب ہے ۔ویسے سات عمدہ کھجوریں مدینے کی لے لواور گٹھلی سمیت انہیں استعمال کرو۔‘‘
اسی طرح ایک دوسری حدیث ہے کہ
’’:ْحضرت زید ابن اسلم ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے دور مبارک میں ایک شخص کو زخم لگ گیا
اور خون بہنے لگا ۔اس نے بنی انمار کے دو طبیبوں کو بلوایا۔انہوں نے مریض کا معاینہ کیا ۔آپ ﷺ
نے ان لوگوں سے دریافت کیا کہ تم دونوں میں سے فن طب میں کون زیادہ ماہر ہے ؟ انہوں نے پوچھا
کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا فن طب میں بھی خیر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس خدا نے بیماری نازل
کی ہے اسی نے اس کی دوا بھی اتاری ہے۔
مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ماہر وتعلیم یافتہ طبیب سے علاج کروانا چاہئے اور اگر کئی ماہرینِ فن موجود ہوں تو ان میں جوسب سے زیادہ ماہر ہو اس سے رجوع کرنا چاہئے۔حارث ابن کلدہ اپنے دور کا سب سے زیادہ ماہر ،تجربہ کار اور مستند طبیب تھا، اس لئے آپﷺ نے حضرت سعد ابن وقاص کو اس سے علاج کا مشورہ دیا۔
دوسری طرف پڑھے لکھے ڈاکٹروں کی ایک جماعت ہے جو اس معزز پیشہ بھی کو تجارت بنائے ہوئے ہے۔فن طب کو کسی زمانے میں ایک معزز پیشہ تصور کیا جاتا تھا اور اس کا مقصد انسانیت کی خدمت سمجھا جاتا تھا۔ہندو مذہب میں تو ڈاکٹر کوباقاعدہ بھگوان سمجھا جاتا تھا ،لیکن اب یہ معزز پیشہ بھی انسانیت کی خدمت کے بجائے صنعت وتجارت کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور بیشتر ڈاکٹر تاجر بن چکے ہیں۔ اب ڈاکٹروں کا مقصد مریضوں کا علاج اور انسانیت کی خدمت کرنا نہیں ،بلکہ زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا رہ گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ مہنگی فیس کے باوجود ،مہنگی مہنگی جانچ اور مہنگی دوائیں لکھ کر ،لیب اور دوا کمپنیوں سے زیادہ سے زیادہ کمیشن لیکر ،غریب مریضوں کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔ (جاری)

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here