مائک اور لاؤڈ اسپیکر کی بے ترتیب سیٹنگ مسجد کمیٹیاں کرتی ہیں، بدنام اسلام کا شعار ہوتاہے (قسط1)
میم ضاد فضلی
پہلے الٰہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر سنگیتا شریواستو نے بوقت فجر لاؤڈاسپیکر سے اذان دیے جانے پر نیند میں خلل پڑنے اور سرددردن ہونے کی شکایت کرتے ہوئے انتظامیہ کو خط لکھا تھا، پھر بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کے طالب علم کرونیش پانڈے نے لاؤڈاسپیکر سے اذان کے سبب پڑھائی میں دقت کی بات کہی، اور اب یوگی حکومت میں وزیر آنند سوروپ نے ضلع مجسٹریٹ کو خط لکھ کر کہا ہے کہ اذان سے انھیں پریشانی ہو رہی ہے۔ ایک ہفتہ قبل یعنی 23مارچ2021 کو لکھے گئے خط میں انھوں نے مساجد پر لگے لاؤڈاسپیکر پر پابندی لگانے کے لیے ضلع مجسٹریٹ کو خط لکھا ہے۔
اپنے خط میں آنند سوروپ نے لکھا ہے کہ مساجد میں نماز کے لیے اذان، دن بھر لاؤڈاسپیکر کے ذریعہ مذہبی اعلانات، مسجد تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی گزارشات کو بہت تیز آواز میں نشر کیا جاتا ہے۔ اس سے طلبا و طالبات کو پڑھنے لکھنے اور بچوں، بوڑھوں و بیمار لوگوں کی صحت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ عوام کو بہت زیادہ صوتی آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔یہاں اذان پر اعتراض جتانے والوں کو مذہب اسلام کا صریح دشمن سمجھ صحیح صورت حال اور حقائق سے آنکھ موند لینا ایک دین پسند اور مذہب اسلام کی تعلیمات سے بحسن خوبی آگاہ شخص کے لیے قطعی مناسب نہیں ہے ، ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’بہترین انسان وہ ہے جودوسرے انسانوں کے لئے نافع ومفید ہو۔‘‘ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اس بات کا شدت سے اہتمام فرماتے تھے کہ آپؐ کی کسی بات یا کسی طرز عمل سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے ، آپؐ کا ارشاد ہے : ’’ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے اس کے مسلمان بھائی محفوظ رہیں (البخاری) ۔اسی بناء پر آپؐ کو اگر کسی شخص میں موجود برائی کا ذکر کرنا ہوتا تو اس کا نام کبھی نہ لیتے، البتہ یہ فرماتے : لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں (ابو داؤد ، 143:5 ، حدیث 4788 )
سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام کےطرزعمل اور مذکورہ بالا تعلیمات کی روشنی میں ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں اپنا بڑپن دکھانے اور اسلام کی سربلندی کے نام اٹھنے والے قدم محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ الصلاۃ والسلام کی پاکیزہ تعلیمات اور سوہ حسنہ کے خلاف تو نہیں جارہا ہے ۔ اگر ہم کوئی عمل بہ ظاہر دین اسلام کی سرخروئی کے انجام دے رہے ہیں ۔مگر وہ عمل ہادی عالم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ الصلاۃ والسلام کے طریقے اور تعلیم کیخلاف جارہا ہے تو اس سے خیر امید بھی نہیں ہونی چاہئے، اس کے برعکس خلاف سنت عمل شر ہی شر برآمد جو عامۃ المسلمین اور مذہب اسلام کے لیے نقصان کا سبب ہی بنے گا۔زیر نظر تحریر میں اذان کے تعلق سے کچھ گزارشات پیش کررہے ہیں۔اللہ کی ذات قوی امید ہے کہ ہمارے اس عمل سے اسلام کے شعائر اعتراض جتانے والوں کا منہ بند کرنے اور مذہب اسلام کی آفاقیت اور دشمنوں کے دلوں میں بھی اسلام کی تعلیمات کے لیے احترام اور عقیدت کا جذبہ پیدا ہوگا۔ بلکہ عین ممکن ہے ہمارے عمل سے غیروں کواسلام کے قریب آنے اور ایمان کی دولت سے سرفراز ہونے کی توفیق بھی رب ِ کریم انہیں عطا فرمادی۔ اللہم آمین۔
محترم قارئین !اذان اسلام کی نشانیوں میں سے ایک ہے ، جس کے ذریعہ اللہ کی سب سے بہترین عبادت کے لیے لوگوں کو پانچ بار بلایاجاتا ہے۔ اذان میں ایسی مٹھاس اور کشش ہونی چاہیے کہ جب اذان دی جائے تو اس کی مٹھاس سے چلتا ہو ا آدمی رک جائے اور اذان اس کے دل کو سکون پہنچائے۔ جیسا کہ ہم سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں ، کئی ملکوں میں ، اذانیں اس قدر بہترین ہوتی ہیں کہ غیر بھی وہاں رک کر ویڈیو ریکارڈنگ کررہے ہوتے ہیں، لیکن ہو کیا رہا ہے !
جن کے لوگوں کا نہ تلفظ صحیح ہے نہ ترنم اور نہ ہی الفاظ صحیح ہیں ، جن کے منہ میں دانت نہیں، جو ایک عمر کو پار کرچکے ہیں ، جن کی اذان میں کم اور چیخنے پر زیادہ توجہ ہے، ایسے لوگوں سے اذانیں دلوائی جارہی ہیں۔ اوپر سے ظلم یہ کہ مائک اور لاؤڈ اسپیکر کی بے ترتیب سیٹنگ اور ایکو سسٹم مائک نہ لگا نا ہے۔ کچھ لوگ مائک کے منہ میں گھس کر آواز لگاتے ہیں جس سے لاؤڈ اسپیکر پر آواز ڈبل ہوجاتی ہے اور ترنم غائب ہوجاتا ہے۔ اس وجہ سے اذان بہت سی جگہوں پر ایک آزمائش بن جاتی ہے۔یادر ہے کہ اللّہ تعالی نے ہمارے بھونڈے پن کے حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی ہے ۔ اس معاملے کو مسلمان خوبصورت اور شائستہ بنالیں، کسی کو اعتراض ہوگا تو دفاع بھی کرنے والے مل جائیں گے۔
پھر یہ کہ ان اسپیکروں سے صرف اذانیں ہی نشر نہیں ہوتیں، بلکہ خطبہ جمعہ، فجر کے بعد کی تفسیر، سلام، سحر کے بعد مختلف نعرے ، دوران رمضان سحر کے وقت کا باربار اعلان، جن میں سے ہرایک کو ایک غیر مسلم شخص اذان ہی سمجھتا ہے۔اور چونکہ اذان کے الفاظ بھی اس کے لیے ناقابل فہم ہیں اس لحاظ سے وہ ان کرخت چیخوں سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے۔ایک کلومیٹر کے دائرے میں کئی مساجد اور ہرمسجد پر آٹھ آٹھ اسپیکربرادران وطن کے لیے کافی تکلیف کا باعث بن رہے ہیں۔
لہذا ، تمام اراکین مسجد کمیٹی سے ، مودبانہ درخواست ہے کہ جن حضرات کی آواز میں ، کشش ہو، جو تلفظ پورے طور سے صحیح ادا کررہے ہوں اور ترنم بھی اچھا ہو، ایسے لوگوں سے اذان دلوائی جائے ،
یہ بالکل ضروری نہیں کہ صرف موذن ہی اذان دے۔ اس کے ساتھ ، مائک، ایکو اور لاؤڈ اسپیکر بہترین ہوں اور مناسب طورسے سیٹ کیے ہوئے ہوں۔ اذان کے لیے ایکو سسٹم ہر مسجد میں ہونا چاہیے۔ مائک اسپیکر کی سیٹنگ ایسی ہو کہ آواز دینے والے کو مائک میں گھسنا نہ پڑے ، تھوڑے فاصلہ سے بھی اذان کی آواز مناسب طور پرلاؤڈ اسپیکر میں پہنچ جائے۔ جب اذان کو بہترین آواز اور ایکو (بازگشت )کے ساتھ بہترین انداز میں دیا جائے گا ، تو ایک مختلف خوشگوار ماحول پیدا ہوگا اوران شاءاللہ اذان سن کرہی بہت سے لوگ ایمان لے آئیں گے۔
عوام سے یہ بھی گزارش ہے کہ ، جہاں جہاں بھی غیر مناسب انداز میں اذان دی جارہی ہو ، فوری طور پر مسجد کمیٹی پر دباؤ ڈالیں اور اس کا صحیح انتظام کروائیں۔ آنے والے رمضان سے قبل ، تمام مساجد اپنے مائک وغیرہ مناسب طریقے سے سیٹ کروالیں، ان شاءاللہ ایک الگ ہی خوشگوار ماحول بنے گا۔ اللہ پاک ہمیں ہر جائز کام کرنے خصوصاً بہترین عبادت کوبہترین طریقے سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے – آمینْ
(جاری)
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں