عاقل زیاد
contact : 7260073909
آج ایک خبر نے یاد ماضی کو تازہ کردیا۔ ’’بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دلانے کیلئے وزیراعلیٰ نے حزب اختلاف کی حمایت مانگی۔‘‘ ریاست بہار کی تقسیم ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا۔اس دوران باشندگان
بہار نے کئی سیاسی انقلابات دیکھے۔ پہلی بار جب جے ڈی یو سربراہ نے بی جے پی کا دامن چھوڑ کرعہد لیا کہ وہ مٹی میں مل جائیں گے، لیکن بی جے پی میں شامل نہیں ہوں گے اس وقت اس کا جو بھی نتیجہ سامنے آیا اس میں جھانکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اس کے بعد گیا کے مہا بودھی مندر میں بم دھماکہ اور پھر اس کے بعد پٹنہ کے گاندھی میدان میں دہشت گردی کی سیاست سامنے آئی۔ معلوم نہیں وہ بہار کے سیاسی اقتدار کو مٹی ملانے والا قدم تھا یا پھر بہار میں دہشت گردی کی سیاست کی تخم ریزی کی گئی تھی۔ وہ تو بھلا ہو ملک کے این آئی اے کا کہ جس کی بدولت ریاست کے سنجیدہ لوگوں کو اس شعر کا مطلب سمجھ آنے لگا کہ
خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ تم قتل کروہو کہ کرامات کروہو!!
خدا خدا کرکے وہ وقت بھی گزر گیا مگر اندر اندر کیا کچھ ہوتا رہا کسی کو اس کی بھنک تک نہیں لگی، بلکہ بڑی خاموشی سے وزیر اعلی نے کبھی خود کو دعوت کھانے اور کھلانے میں مصروف رکھا تو کبھی کنول کے پھول میں رنگ بھرکر اپنی پینٹنگز پر داد طلب کرتے رہے۔ معذرت ! میری کوشش رہے گی کہ موضوع پر ہی یکسوئی بنائے رکھوں۔ 2011کا وہ شروعاتی دور تھا جب بہار کا نقشہ سیاسی طور پر پہلی بار ہندوستان کے لبادے پر کسی بوسیدہ پیوند جیسا نظر آیا۔ اس کی اس بوسیدگی کے سبب ہی مرکز کی کانگریس حکومت نے مستقبل سے کانپتے ہوئے لوگوں کیلئے کسی مخصوص پیکیج کا دلاسہ دیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، ریاست کے وزیر اعلی نے بھی گویا ایک اور عہد لیا کہ جب تک وہ ریاست کو خصوصی درجہ نہیں دلائیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔حالانکہ غالباً دسمبر 2012 میں ہی مرکزی کی جانب سے یہ عندیہ مل گیا تھا کہ بہار کو کسی بھی قیمت پر خصوصی ریاست کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ مونٹیک سنگھ اہلووالیہ کے زیر قیادت قومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں اس امر کی صراحت کے ساتھ وضاحت کردی گئی تھی کہ بہار کو ترقی کے راستہ پر از خود گامزن ہونا ہوگا۔ مگر اس کے باوجود تب سے لے کر اب تک نتیش کمار نے اپنی ضد سے کوئی سمجھوتا گوارا نہیں کیا اور وہ مسلسل اپنے ارادے کا کبھی انسانی زنجیر بناکر تو کبھی ریاست گیر سطح پر دستخط مہم چلاکر اعادہ کرتے رہے۔شاید اس لئے کہ ان کے ’’سات نشچے‘‘ کی طرح وہ ’’ایک نشچے‘‘ ان کے آن اور تشخص کا مسئلہ بن گیا تھا یا پھر ووٹوں کی حصولیابی کا وسیلہ۔
2014 میں عظیم اتحاد کی تشکیل کا دور آیا اور تب سے جناب نتیش کمار اندرونی طور پر کافی حد تک پریشان نظر آنے لگے۔ مسئلہ ان کی آن اور تشخص کا نہیں، بلکہ بی جے پی سے علاحدہ ہونے کا تجربہ اور نئے ضابطے کے پابند ہونے کا خدشہ درپیش تھا۔لالو پرساد یادو کے قد سے ایک دنیا واقف تھی اور ان کے مقابلے نتیش کمار بہت حد تک سیاست میں اپنی گرفت مستحکم کرنے کے فراق میں رہے۔عظیم اتحاد نے بہار کی سیاست میں بی جے پی کو بہت پیچھے چھوڑ دیاتھا ،لیکن اس فتحیابی نے نتیش کمار کو ایک ایسے شش وپنج میں مبتلا کردیا جس کی وجہ سے وہ خود کو منظم اور عوام کو انتشار میں مبتلا کرنے پر آمادہ رہے۔مستقبل کی کامرانی یا اندیشوں کا برمحل اظہار موجودہ وقت کی سیاست کا حصہ نہیں اور اس وجہ سے جیل کی سلاخیں لالو پرساد کا مقدر بن گئیں۔ جے ڈی یو اور آر جے ڈی کے درمیان جو بھی تنازعات رہے اپنی جگہ، تاہم سنجیدہ اور سرگرم سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا نظریہ یہی رہا کہ لالو پرساد نے نتیش کمار کے مد مقابل اپنے بیٹے تیجسوی کو بطور نائب وزیراعلیٰ بٹھا کر انتشار کا بیج بویا۔ بہرحال اب ان باتوں کی چھان پھٹک میں کوئی عقل مندی نہیں۔مگریہاں اس بات سے بھی گریز نہیں کیا جاسکتا کہ مٹی میں ملنے کا ارادہ رکھنے والے وزیراعلیٰ ایک بار پھر مستقبل سے مایوس نظر آنے لگے۔ بہار کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں چند ایک ضمنی انتخابات کے نتائج نے گویا بی جے پی کو آئینہ دکھانے کا کام کیا اور اس وجہ سے بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار مستقبل کی جانب سے ایک بار پھر شش وپنج کے شکار ہوگئے۔ آج کے اخباروں کی تازہ دم تحریر ’’بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دلانے کیلئے وزیراعلیٰ نے حزب اختلاف کی حمایت مانگی‘‘ پر جب نگاہ گئی تو اس میں حیرت واستعجاب جیسی کوئی بات بھی نہیں تھی کہ سیاست میں ایسی خبریں بہت اہمیت کا حامل نہیں ہوتیں۔
مرکزی اقتدار پر نظر ڈالیں تو ملک کے ستر فیصدسے زائد حصے پر بی جے پی کا پرچم لہرارہا ہے۔ کیوں اور کیسے؟ اس موضوع پر گفتگو کی اس وقت گنجائش نہیں ہے،تاہم ٹھوس حقیقت یہی ہے کہ 2014 کے اواخر سے اب تک ملک میں بی جے پی کا دبدبہ قائم ہے۔مخالف کو موافق بنانے میں بی جے پی قیادت نے جو ریکارڈ بنایا ہے اس کی نظیر مشکل ہے، بلکہ اس معاملے میں مخالفین اپنے انتخابی منشور سے بھی مصالحت کرنے پر آمادہ ہوگئے۔کیا بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے اتنے برسوں میں اتنا بھی نہیں سیکھا۔ لہٰذا حالات کے پیش نظر اگر انہوں نے حزب مخالف سے مدد مانگی تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ نیز یہ کہ مدد بھی ایسے کام کیلئے جو بہار کو کھوئی ہوئی عظمت دلاسکتی ہے کہ جس کیلئے کبھی منموہن حکومت نے اسپیشل پیکیج کی یقین دہانی کرائی تھی۔ کیا ہوا اگر وقت گزر گیا اور کھلے طور پر بہار کو اپنے بل بوتے ترقی کرنے کی صلاح بھی دی جاچکی۔ پھر بھی امید کا دامن تو وسیع رکھنا چاہئے کہ آخری وقت عوام کو دلاسہ دلایا جاسکتا ہے اور ووٹ کے حصول کیلئے جواز نکالا جاسکتا ہے۔ بعد میں وزیراعلی کی منہ بھرائی وزیراعظم نریندر مودی نے 2016 میں بہار دورے کے وقت مظفرپور کی ریلی میں سوا سو کروڑ کے پیکیج سے کردیا۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ عظیم اتحاد سے دلبرداشتہ ہوکر بی جے پی کی حمایت نے کچھ عرصہ کیلئے نتیش کمار کو اپنی سابقہ آن اور تشخص سے غافل رکھا۔ شاید اس وجہ سے کہ بی جے پی کے پیہم بڑھتے اقدام نے انہیں اس جانب سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ مگر اب وقت آچکا ہے جب اپنے مطالبے کے ساتھ دوبارہ بھولی ہوئی آن اور تشخص کا اعادہ کیا جائے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چند ایک پارلیمانی اور اسمبلی سیٹوں پر بی جے پی کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا کہ سیاست ہر چند انقلابات کی آماجگاہ رہی ہے۔اس سے قطعی یہ اندازہ نہیں لگانا چاہئے کہ بی جے پی کی حالیہ شکست کسی نئے اندیشے کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہے اور وزیر ا علی نتیش کمار تو اس کھیل کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں